ریکوڈک کاپرانا نام کو ہ دلیل ہے جو نو کنڈی سے تقریبا ستر کلو میٹر شمال مغرب ایران بارڈر کے قریب ایران اور افغانستان سے طویل سرحد رکھنے والے بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ ریکوڈک کے معنی اگر تلاش کئے جائیں تو دو بلوچی کے لفظ ریک یعنی ریت اور ڈک یعنی ٹیلا ریت کا ٹیلا کے بنتے ہیں۔ بلوچستان کا ضلع چاغی ویسے تو دو حوالوں سے مشہور ہے ایک چاغی میں ایٹم بم کا ٹیسٹ دوسرا سینڈک اور ریکوڈک کے سونے چاندی سمیت دیگر معدنیات کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ریکوڈک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں سونے اور تانبے کے بھاری ذخائر ہیں۔ جو پوری دنیا کے ذخائر کے پانچویں حصے کے برابر ہیں۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ’شو کیس‘ کہتے ہیں۔اب تک یہاں کم از کم تیس سے زائد معدنیات تلاش کی جاچکی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سو نے اور تانبے کی آسٹریلوی کان کن کمپنی ٹیتھیان نے اپنی فزیبلٹی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ریکوڈک میں تانبے کے 22 ارب پاؤنڈ اور 13 ملین اونس سونے کے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مجموعی مالیت 500ارب ڈالر ہیں جبکہ رئیر ارتھ منرلز اس کے علاوہ ہیں چند روز قبل وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں یہ اعلان کیا کہ بلوچستان کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے اپنی حکومت کے ویژن کی روشنی میں میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ حکومت بلوچستان کی ایماء پر ریکوڈک اور اس کے استحصال و ترقی پر اٹھنے والے تمام اخراجات کا بوجھ وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔ یہ فیصلہ بلوچستان اور اس کی عوام کیلئے خوشحالی کی ایک نوید ثابت ہوگا۔ جب یہ ٹویٹ نظر سے گزری تو ایک بات سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ کوئی بھی قومی نوعیت کا فیصلہ ہو مگر اسے اس حکومت نے اپنے اقدامات سے ایسا متنازعہ بنایا کہ اچھا خاصاسیدھا اور سادہ کام بھی گھمبیر شکل اختیار کرگیا۔ اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کچھ وفاقی حکومت کی صحبت میں موجودہ بلوچستان حکومت بھی رنگ چکی ہے اور اسہی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ کو انیس سو ترانوئے کے پہلے معائدے سے لیکر تاحال ہر حکومت وقت نے دل کھول کر مس ہینڈل کیا جس کے نتیجے میں آج پاکستان چھ ارب ڈالر کے ہرجانے کا سامنا کررہا ہے اراکین اسمبلی کو ان کیمرا بریفنگ دینا ایک اچھا فیصلہ تھا تاہم اسے اتنا خفیہ رکھنا بھی درست نہیں جتنا حکومت بلوچستان خفیہ رکھ رہی ہے۔ جب چیزیں خفیہ رکھ کر فیصلے کئے جائیں تو نیتوں پر شک ہونے لگتا ہے اور ایک ایسی حکومت جس کے قیام کے مقاصد واضح نہ ہوں اس حکومت کی جانب سے چیزوں کو خفیہ رکھنے کی کوشش ویسے ہی معاملات کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو چیزیں عوام کو کھل کر بتانا تھیں انہیں خفیہ نہ رکھا جاتا۔ جیسے کہ کون سے ایسے فیصلے تھے جن کے نتیجے میں ریکوڈک جو کہ پاکستان اور بالخصوص بلوچستان کی معیشت کیلئے ایک اہم منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ کیسے جوڈیشیل ایکٹو ازم کا شکار ہوا۔ کیسے ایک شفاف پراسیس سے گزرنے کے بجائے عجلت میں کئے گئے فیصلوں نے بڑے منصوبے کو قانونی پیچیدگیوں میں ڈال دیا۔ جس کے نتیجے میں آج عالمی فورم پر پاکستان ایک بڑے جرمانے کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ اب اس صوتحال سے نکلنے کیلئے کیا اقدامات کئے جائیں اس پر بات کی جاتی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بلوچستان حکومت کے وزراء کی ٹیم میڈیا کو بتاتی کہ کیوں اس وقت اس مسئلے کا حل فی الحال فوری طور پر ضروری ہے ۔ ماضی کے مقابلے میں ایک بہتر پیکج ڈیل کی صورت میں ملک اور بلوچستان میں معاشی حالات کو کس طرح بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے ایک بہتر میڈیا مینیجر اور وزیر کی ضرورت ہے۔ جو کہ بلوچستان میں ناپید ہے۔ ریکوڈک منصوبے پر دوبارہ کام کی ایک ہی صورت ہے جس میں سب سے پہلے عوام کو بتایا جائے کہ مجوزہ پلان سے بہتر کوئی ڈیل نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ جرمانہ ادا کرنے کی سکت نہ حکومت بلوچستان کی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کی معاشی حالت ایسی ہے کہ اس جرمانے کو مکمل اداکرسکے اسلئے اس معاملے کے حل کا ایک ہی راستہ ہے کہ ماضی کے مقابلے میں بہتر نکات اور شئیر ہولڈنگ پر گفتگو آگے بڑھائی جائے۔ اس لئے اس منصوبے پر کام کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ ریکوڈک کا معائدہ کب ہوا کیسے ہوا اس میں کہاں کیا غلطی کیا جرم سرزد ہوئے اسے جانچنا ضروری ہے۔ ریکوڈک کے حوالے سے سب سے پہلے انیس سو ترانوے میں اسوقت کی ایک نگراں حکومت جس کا اخلاقی مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ کوئی اتنا بڑا معائدے کرتی چلیں کرلیا بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر محفوظ علی خان کے ایک مضمون کے مطابق حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا۔چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے۔ (جاری ہے )