یورپی معاشرہ بڑے عرصہ تک پوپ کی اسٹیبلشمنٹ کا غلام رہا ۔ کئی بار پوپ اپنے خلاف اٹھنے والی چھوٹی سی آواز پر بھڑک اٹھتا۔ایسے سینکڑوں واقعات ہیں۔ہمیں لیکن ہمیں پاکستان کی سیاست میں داخل ہونے والے نئے عوامل پر بات کرنا ہے۔ پاکستان میںآزاد اور جمہور کی سوچ کے مطابق پالیسیاں بنانے کے خواہش مند ہمیشہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلائے۔ کئی بیچارے تو بار بار کہتے رہے کہ وہ ریاست مخالف نہیں‘ اسٹیبلشمنٹ کے دشمن نہیں لیکن ان کی کسی نہ کسی بات پر گرفت ہو گئی۔ پوپ کا چہرہ اب یورپئینز کے لئے اجنبی نہیں رہا۔ ہم خود تیزی سے شمالی کوریا بن رہے ہیں جہاں بھوک کو قومی فخر کے ساتھ جوڑ کر ایک دو خاندانوں کی عظمت اور کی اولاد کو سیلوٹ کئے جائیں گے، یہ حکمران خاندان کہلائیں گے اور باقی رعایا۔میاں نواز شریف واپس آ گئے ہیں‘ وہ جس طرح گئے اسی طرح آ گئے۔ نہ ان کے جانے کی کہانی عام آدمی کو معلوم ہوئی نہ واپسی کے انتظامات کے متعلق کچھ پتہ چلے گا۔یہ کس کی بالادستی ہے ؟ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو یقین تھا کہ مینار پاکستان پر کامیاب جلسہ سیاسی ہوائوں کا رخ بدل دیتا ہے۔ یہ جلسہ کامیاب تو نہیں ہوا‘ ہزاروں لوگ ضرور آئے۔ موٹر سائیکلوں‘ کھانوں اور دیہاڑی کے عوض دور دراز سے لوگ لائے گئے۔ سیدھی سی بات ہے شہباز شریف حکومت نے غریب کے چولہے پر جس طرح پانی ڈالا اس کے بعد کسی کی ہمت ہی نہیں کہ اپنی دیہاڑی جلسے کے لئے توڑے۔ لوگ روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ان غریبوں کو دیہاڑی اور کھانے کا لالچ دیا گیا اور وہ مینار پاکستان دیکھنے آ گئے۔ اس جلسے میں نوجوان نہ ہونے کے برابر تھے۔ اکثر شرکاء وہ تھے جن کی عمر چالیس سال سے زیادہ تھی۔ مطلب مسلم لیگ نواز پیپلز پارٹی جیسے انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مینار پاکستان کے سبزہ زار میں ایسے جلسے بھی ہوئے ہیں جن میں خاندان کا ہر فرد شامل ہوا۔ یونیورسٹی اور کالجوں کے طلباء و طالبات‘ مڈل کلاس کے پڑھے لکھے‘ سلجھے لوگ‘ آئین ‘ قانون اور سیاسی جماعت کے کردار سے واقف لوگ۔ ننھے منھے بچے بھی اس سیاسی سرگرمی کا حصہ نظر آتے تھے۔ مسلم لیگ ن کے جلسہ میں ہر فرد دوسرے سے بیگانہ اور بے خبر تھا۔ یوں لگتا تھا گویا پولیس‘ ایل ڈی اے‘ محکمہ مال کے لوگوں کو جلسہ بھرنے کا ٹارگٹ ایک بار پھر دیدیا گیا۔ لاہور کے مقامی لوگوں کی اکثریت نے اس جلسے کو مسترد کر دیا۔ ان کی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ کئی ارب روپے ٹرانسپورٹ‘ بینروں‘ فلیکس ‘ سکیورٹی اور کھانوں پر خرچ کئے گئے۔ یہ رقم کہاں سے آئی کس نے چندہ دیا۔ ٹیکس محکمہ کو حساب لینا چاہیے۔ ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف کو سیاست کی اجازت دے کر دوسری جماعتوں کے لئے موقع پیدا کر دیا گیا ہے کہ وہ بھی جلسے جلوس نکالیں۔ عقل والوں کے لئے نشانی یہ ہے کہ زیر عتاب جماعت کو شہر میں جلسہ کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ کاہنہ میں پنڈال لگانے کا کہا گیا۔ خیر نواز شریف ہوں یا آصف زرداری سیاست دان کے لئے کسی پر پابندی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ مجھے امید تھی کہ قانونی کارروائی کا سامنا کرنے سے قبل نواز شریف مینار پاکستان والے جلسہ کے ذریعے ملک کے مسائل کا حل پیش کریں گے‘ لوگوں نے ان کا خطاب صرف اسی وجہ سے سنا۔ انہوں نے اپنی حکومتوں کو غیر آئینی اور زبردستی ختم کرنے پر بجا طور پر سوال اٹھایا۔ان کے تحفظات درست ہیں اور ہر پاکستانی یہی چاہتا ہے کہ وہ جس جماعت کو ووٹ دے اسے اقتدار سے نکالنے کے لئے سازش نہ کی جائے۔ لیکن کیا کریں کہ نواز شریف کی اچھی باتیں ان کے ماضی کے ٹریک سے ہم آہنگ نہیں۔ انہوں نے ملک کی انتہائی محب وطن لیڈر بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک کہا۔ انہوں نے 2006ء میں میثاق جمہوریت میں وعدہ کیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے مدد نہیں لیں گے لیکن یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر خود عدالت میں پیش ہو گئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کی کردار کشی کی روایت ڈالی‘ سیاست میں دولت کا استعمال عام کر کے اچھے لوگوں کے لئے سیاست کے دروازے بند کر دیے‘ انہوں نے اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد سیاسی جدوجہد سے نہیں ہر بار ڈیل سے واپسی کی۔ اس ڈیل کے نتیجے میں وہ عوامی ایجنڈے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کے یرغمال رہے۔ ایک بار پھر حکومت میں آ بھی جائیں تو وہ آٹا‘ دالیں ‘ گھی اور چاول سستے نہیں کریں گے‘ نئے ٹیکس لگائیں گے‘ غیر پیداواری قرضوں کی نئی گٹھڑی اٹھا لائیں گے۔بتایا جائے گا معیشت بحال ہو رہی ہے لیکن ہوگا یہ کہ معیشت کی رگوں سے خون نچوڑ کر حکمران اشرافیہ کا پیٹ بھرا جائے گا۔ پاکستان کچھ عرصہ سے خطے میں تنہا ہونے کے احساس میں مبتلا ہے۔بھارت نے کشمیر پر من مانی کر لی، مودی کے یار کا طعنہ دیا جاتا تھا اب شائد نواز شریف مودی سے درخواست کریں کہ دشمنی چھوڑیں جو ہوا اسے دونوں بھول جاتے ہیں۔نئے مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں۔خطے میں دولت کی جو ریل پیل ہو رہی ہے اس میں بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ کے ساتھ پاکستان کو بھی کچھ حصہ دیا جائے ۔معلوم نہیں کہ افغانستان کے سکریپ کا معاملہ ابھی نمٹا یا نہیں لیکن دس ارب ڈالر کا سکریپ بتایا جاتا تھا کہ بھارت درآمد کرنا چاہتا ہے۔معلوم نہیں سجن جندل اور متل والی کہانیوں کا کیا جواز پیش کیا جائے گا۔ نواز شریف کی واپسی کو بہرحال سیاسی تناو میں واضح کمی کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے، ان کی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔انہوں نے تیسری بار اسٹیبلشمنٹ کو ہرایا ہے۔مجھ جیسے نقاد میاں صاحب کی سیاسی اخلاقیات پر سوال اٹھا سکتے ہیں لیکن اس میں کیا شک کہ انہوں نے سیاسی مشکلات میں سے راستہ بنانا سیکھ لیا ہے۔