’’الازھر‘‘ کے معنی نہایت روشن کے ہیں‘اس کی خصوصی نسبت سیدہ فاطمہ الزھراؓ کی طرف ھے ،اس عظیم علمی مرکز کی بنیاد چوتھی صدی ہجری اور نویں صدی عیسوی میں فاطمی خلفا کے عہد میں رکھی گئی۔ابتداً اسماعیلی اور ازاں بعد سنیت کا مرکز بنا۔ اس کے عالمگیر اثرورسوخ کا ایک سبب قاہرہ کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت بھی ہے، جو علماء اور طلبہ کو دور دور سے اپنی طرف کھینچتا اور مغرب سے آنے والے حجاج و زائرین کے لئے مستقل جائے قیام ہے۔دوسری طرف اس کی قبولیت کا سبب ازخود اس کی عظیم تر مسجد اور شہر میں اس کا محل وقوع ہے، جو انیسویں صدی تک شہر قاہرہ کا مرکز تھی ،جہاں سے اس عظیم تر جامعہ کا آغاز ہوا، مسجد جس کے بلند و بالا مینار اور مضبوط و مستحکم اور قلعہ نما دیواریں، اس کی دینی عظمت و سطوت اور پختگی کی علامت اور امین ہیں، جہاں ایک طویل عرصے تک شیخ الازہر ڈاکٹر سید محمد طنطاوی خطبہ جمعتہ المبارک ارشاد فرماتے رہے۔ از خود قاہرہ ایک نہایت قدیم اور تاریخی شہر ہے۔ عہد قدیم میں یہی مصر تھا، اب یہ موجودہ جمہوریہ العربیہ مصر کا دارالحکومت ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں مصر فتح ہوا تو موجودہ شہر قاہرہ کی جگہ ایک قلعہ تھا ،جس کا سات ماہ تک محاصرہ کیا گیا۔حضرت زبیر بن عوام ایک سیڑھی لگا کر یہ کہتے ہوئے قلعہ میں اترے کہ: میں بارگاہ الٰہی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے چلا ہوں جو میری پیروی میں آنا چاہیے چلا آئے یہ منظر دیکھ کر دشمن لرزہ براندام ہو گیا، فتح و نصرت نے قدم چومے، قلعہ فتح ہونے کے بعد آگے بڑھنے کے لئے خیمے اٹھائے تو ایک خیمہ پر کبوتری نے انڈے دے رکھے تھے، مسلم افواج کے کمانڈر نے حکم دیا: اس کبوتری نے ہمارے پاس پناہ لی ہے جب تک اس کے بچے اڑنے کے قابل نہ ہو جائیں اس خیمے کو باقی رکھا جائے۔ اس خیمے کی مناسبت سے یہاں بستی قائم ہو گئی‘ جسے فسطاط کہا گیا۔ ازاں بعد 358ھ میں یہ بستی قاہرہ میں تبدیل ہو گئی، اسی شہر کے کوچوں میں امت کے ایسے اکابر آسودہ ہیں‘جنہوں نے علم و ہنر اور فکر و فن کے نئے افق وا کئے ‘علامہ بدرالدین عینی اور علامہ قسطانی جیسے ہستیاں جو اسی جامعہ الازہر کے انتہائی قریب میں محو آرام ہیں۔علامہ عینی کی مسجد سے ذرا آگے جامعہ ازھر کا وہ حصہ ہے جو دینی علوم کی تعلیم کے لئے خاص ہے۔جامعہ ازھر کے شعبہ علوم الدین کے ساتھ کم و بیش ایک سو ممالک کے طلبہ وابستہ ہیں، اس وقت اس سہولت کے استفادے کے حوالے سے پاکستان کافی پیچھے ہے ، گزشتہ جمعہ کے روز ڈاکٹر پیر نور الحق قادری اپنے مدارس کی اس محرومی کا ذکر کرتے ہوئے بتا رہے تھے کہ الازہر دنیا بھر کے مسلم ممالک کے طلبہ کو سکالر شپ بھی فراہم کرتا اور الازہر آمد پر خوش آمدید بھی کہتا ہے۔ پاکستان کے طلبہ کی تعداد 70 کے قریب جبکہ افغانستان کے طلبہ 500سے زائد ہیں، اس وقت روادارانہ فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لئے الازہر کے ساتھ مضبوط علمی و تحقیقی روابط کو مستحکم کرنا ہماری قومی اور ملی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں مضبوط اور موثر پالیسی درکار ہے۔ الازہر الشریف سے تدریب الائمہ سمیت مختلف شعبہ جات کے لئے بہت سے سکالر شپس مناسب راہنماء اور توجہ نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔اس کی ایک بنیادی وجہ ہمارے وفاقی اور صوبائی سیکرٹریٹ میں عربی زبان سے عدم واقفیت ہے۔ الازہر مصر سے جو مراسلہ جات اور فارم بوساطت وفاقی وزارت موصول ہوتے ہیں‘وہ عربی میں ہوتے ہیں۔اس کے لئے ہماری وزارتیں اگر الگ ڈیسک قائم کریں اور عربی زبان کے کسی ایسے استاد کو یہ ذمہ داری سونپے‘ جس کو کسی عرب ملک میں وقت گزارنے کا تجربہ ہو، تو اس سے نتائج بہت بہتر ہو سکتے ہیں حال ہی میں ہم نے جامعہ ہجویریہ داتا دربار میں یہ تجربہ کیا اور متحدہ عرب امارات میں بطور عربی استاد خدمات کے حامل الشیخ زوار کو پروگرام کوآرڈینیٹر مقرر کیا اور اس وقت ہمارے پچاس طلبہ آن لائن جامعہ الازہر سے ڈپلومہ کورس کر رہے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریہ العربیہ مصر کے سفیر الدکتور طارق دحروج دو ہفتے قبل داتا دربار حاضر ہوئے۔حاضری کے بعد علماء و سکالرز اور جامعہ ہجویریہ کے اساتذہ کے ساتھ الہجویری ہال میں نشست کا اہتمام تھا۔جس میں سفیر محترم نے خانقاہ معلی حضرت داتا گنج بخشؒ کے ساتھ اہالیان مصر کی وابستگی اور اپنی حاضری کے بھی تاثرات پیش کئے۔ اہل مصر حضر ت داتا گنج بخشؒ کی تصنیف لطیف کشف المحجوب سے بھی اکتساب علم کر چکے ہیں۔مصری سکالر ڈاکٹر اسعاد عبدالہادی قندیل 1969ء میں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ: ’’الہجویری و مذہبہ فی تصوف کما یبدو من کتابہ کشف المحجوب‘‘ یعنی حضرت ہجویری اور ان کا مسلک تصوف:کشف المحجوب کی روشنی میں ، جامعہ عین الشمس کے استاد ڈاکٹر عبدالنعیم حسنین کی زیر نگرانی مکمل کیا۔ڈاکٹر اسعاد کہتی ہیں کہ الشیخ ہجویری اور آپؒ کی کتاب کشف المحجوب سے میرا اولین تعارف 1957ء میں اس وقت ہوا جب میرے استاد گرام ڈاکٹر ابراہیم امین شواربی استاد کلیہ آداب جامعہ عین شمس‘ہمیں ایران میں تصوف پڑھا رہے تھے۔دوران تدریس اسلامی تصوف پر لکھی گئی فارسی کتب کی طرف استاد محترم کثرت سے اشارے کرتے‘جن میں ایک کشف المحجوب بھی تھی۔ان کتابوں کے ذکر کے دوران وہ مغموم بھی ہوتے اور پرامید بھی۔مغموم اس وجہ سے کہ ان کتابوں کی اشاعت میں مستشرقین بازی لے گئے اور بعض نے ان کتابوں کے اپنی زبان میں ترجمے بھی کر لئے۔از خود کشف المحجوب پہلی مرتبہ لینن گراڈ روس سے 1926ء میں شائع ہوئی۔دوسری بار تہران‘ ایران سے 1957ء جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ انگریز مستشرق نکلسن نے کیا اور 1911ئ￿ میں لندن سے اس کی اشاعت کا اہتمام ہوا۔ پر امید اس بنا پر کہ کسی روز ان کا کوئی شاگرد کمر ہمت باند ہے گا اور اس عظیم اسلامی ورثے کو عربی زبان کا جامہ پہنا کر فکر اسلامی کے اس عظیم علمی ذخیرے کو منصہ شہود پر لے آئے گا۔ڈاکٹر اسعاد کہتی ہیں کہ ہمارے مصری استاد مطالعہ تصوف کے دوران جن دو قابل قدر کتابوں کا بطور خاص ذکر کرتے ان میں سے ایک محمد بن منور کی اسرار التوحید فی مقامات الشیخ ابی سعید تھی اور دوسری علی بن عثمان الہجویری الجلابی کی کشف المحجوب ‘اسی دوران ایم اے میں‘ پہلی کتاب اسرار التوحید کو اپنا موضوع توحید بنایا اور 1964ء میں ابو سعید بن ابی الخیر اور کتاب اسرار التوحید پر اپنی تحقیق مکمل کی۔نیز اسرار التوحید پر اپنی تحقیق مکمل کر کے اسے فارسی سے عربی زبان میں منتقل کر دیا۔اسی دوران دوسری کتاب کشف المحجوب تھی جس کو اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے کا موضوع بنایا۔ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد ہی کشف المحجوب سے میرا تعلق قائم رہا۔میرا یہ شدید احساس تھا کہ اس کتاب کی قدروقیمت کے پیش نظر اس کا عربی زبان میں ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ وہ لوگ جو تصوف اسلام پر کام کر رہے ہیں لیکن فارسی زبان نہیں جانتے وہ اس سے مستفید ہو سکیں۔ بہرحال حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستاں پر حاضری کے سبب الازہر الشریف سے علمی روابط اور اکتساب علم کے امکانات کے در وا ہوئے ہیں اور پھر دربار حضرت میاں میرؒ کے پہلو میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز کے نام عظیم عمارت کا بھی دورہ ہوا، جس میں ہمارے وزیر محترم پیر سید سعیدالحسن شاہ صاحب نے یہاں الازہر الشریف کے اشتراک سے حسب ذیل خصوصی شعبہ جات کے قیام کی خواہش کی۔حفظ القرآن الکریم(طلبہ و طالبات)‘ الشریعہ الاسلامیہ خصوصاً سیرت النبی‘ التصوف الاسلامی‘ الغۃ العربیہ و حفظ الاحادیث۔ اسی تسلسل میں دو روز قبل وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی صاحبزادہ ڈاکٹر پیر نور الحق قادری بھی انسٹی ٹیوٹ میں تشریف فرما ہوئے اور الازہر الشریف سے علمی روابط کے عمل کو مزید مستحکم فرمایا‘حضرت پیر صاحب الازہر کے علمی تفوق کے بڑے قائل اور خطے میں اس کے علمی فیضان کے خواہاں ہیں۔جامعہ الازہر مسلمہ کا وہ عظیم علمی مرکز ہے جس کے ساتھ ان کے قلبی فکری اور علمی روابط ہیں‘محبت رسولؐ کا نور اور اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت کا فیضان اس خطے کا خصوصی امتیاز ہے۔طریقت و تصوف اور سلاسل صوفیاء کی محبتیں عامتہ الناس کو میسر اور مزارت مقدسہ پر حاضری کا خصوصی ذوق لوگوں کو میسر ہے۔