لیں جی! حکومت سازی کا کام آج 90فیصد تک مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد سینیٹ الیکشن رہ جائیں گے، اور پھر ’’ان‘‘ کی مکمل حکومت بن جائے گی۔ اور پھر نہ تو قانون سازی میں مسئلہ ہوگا، اور نہ ہی کسی ترقیاتی یا دیگر پراجیکٹس کی تکمیل کے حوالے سے۔ مطلب اب یہ وہی 2008یا 2013ء الیکشن کے بعد والا دور آگیا۔ جس میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے نورا کشتیوں کے ذریعے ناصرف عوام کو بے وقوف بنایا اور ایسے ایسے کاسمیٹکس پراجیکٹس بنائے کہ ملک مزید ہزاروں ارب کے قرضوں تلے دب گیا۔ اور رہی سہی کسر پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت نے نکال دی، جس کا ذکر خیر تو بعد میں کریں گے مگر یہاں یہ بات پیشگی بتاتا چلوں کہ جس طرح پی ڈی ایم کی 16ماہ کی حکومت کے بعد پیپلزپارٹی نے ہاتھ کھڑے کر لیے تھے کہ وہ صرف اپنی وزارتوں کی ذمہ دار ہے اور سارا ملبہ ن لیگ پر پھینک دیا تھا ۔ نہ اُس وقت عوام بے وقوف بنی تھی اور نہ ہی اب بھی ہوگا۔ پیپلزپارٹی اس بار ن لیگ کے ہر جرم ، ہر سچ ، ہر جھوٹ اور ہر قسم کی کارکردگی کی شریک کار ہوگی، پچھلے ڈیڑھ سال جب پی ڈی ایم کی حکومت رہی ہے تواگر کسی کو نہیں یاد کہ اُس وقت کیا کیا ہوا تھا تو میں بتاتا چلوں کہ ان 16مہینوں میں معیشت کا بھرکس نکال دیا گیاتھا، اسی اتحاد کے ذریعے تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کر کے ملک کو غیر مستحکم کیا گیاتھا، ملک تباہی کے دھانے پر کھڑا ہوگیا۔ جب اپریل 2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا گیا تو اُس وقت ایک ڈالر 180ٹریڈ ہو رہا تھا۔ تاہم اس کے بعد ڈالر کی قیمت میں ہونے والے اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور یہ 316روپے کی حد کو چھو گیا۔ پھر اسی دور میں پاکستان کی دنیا بھر میں ’’درآمدات‘‘ کے حوالے سے جگ ہنسائی ہوئی، پاکستانی پورٹ پر ہزاروں کنٹینر کھڑے رہے مگر ہمارے پاس دینے کے لیے ڈالر نہیں تھے۔ اپریل 2022 میں موجودہ حکومت کے قائم ہونے کے بعد بیرونی فنانسگ کے شعبے میں مطلوبہ فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہوئی تھی۔ویسے تو ملک کے لیے درآمد ات اچھی نہیں ہوتیں، مگر ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے اشیائے ضروریہ بھی ملک میں ناپید ہوگئیں جس کی وجہ سے مہنگائی کا سیلاب آگیااور یہ مہنگائی 49فیصد تک جا پہنچی۔ پھر ڈالروں کی کمی کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے درآمدات کی ایل سی نہ کھولنے کی وجہ سے گذشتہ سال کی آخری سہ ماہی ملکی بندرگاہوں پر درآمدی کارگو کے کنٹینرز پھنسنا شروع ہو گئے اور پھرہزاروں کی تعداد میں ایسے کنٹینرز پھنس گئے جن کی ایل سیز ڈالر کی قلت کی وجہ سے نہ کھل سکی۔ پھر آپ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کی بات کر لیں۔ اسٹیٹ بنک کے مطابق اپریل 2022 میں ملک کے پاس مجموعی طور پر 16.4 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر تھے جن میں سٹیٹ بینک کے پاس تقریباً ساڑھے دس ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ ذخائر تھے۔ملک کے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں کی وجہ سے ان میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی اور مارچ 2023کے مہینے کے اختتام تک یہ ذخائر 7 ارب ڈالر رہ گئے۔پھر آپ شرح سود کی بات کر لیں تو اس وقت شرح سود ریکارڈ 22فیصد پر موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں شرح سود 12.5 فیصد پر تھی جس میں ایک سال میں ساڑھے نو فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو کسی بھی حکومت کے پورے پانچ سال یا اس سے کم مدت کے دور میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔پھر آپ پٹرولیم مصنوعات کی بات کرلیں تو شہباز حکومت نے اس کام میں بڑی مہارت اور سرعت دکھائی۔ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت پٹرول کی قیمت 149.86 روپے لیٹر تھی جب کہ ڈیزل کی قیمت 144.15 روپے تھی۔لیکن پی ڈی ایم گورنمنٹ نے اس کی بھی ٹرپل سنچری مکمل کروائی۔ الغرض بقول شاعر کس کو سناؤں حال غم کوئی غم آشنا نہیں ایسا ملا ہے درد دل جس کی کوئی دوا نہیں اور اس تمام کارخیر میں پیپلزپارٹی برابر کی شریک رہی۔ لیکن جیسے ہی پی ڈی ایم کا دور ختم ہوا تو اُس وقت پی پی پی کہتی تھی کہ ہم صرف اپنی وزارتوں کے ذمہ دار ہیں، خیر اُس وقت جو کچھ ہوا سو ہوا، مگر میرے خیال میں اب یہ لوگ عوام کو پاگل بنانا چھوڑ دیں، اور یہ مت کہیں کہ اگر خدانخواستہ معیشت یا ملک کو کچھ ہوا تو یہ ذمہ دار ہوں گے۔ اور یہ بات پڑھی لکھی ہے کہ دونوں پارٹیاں 2008ء سے آپس میں گٹھ جوڑ کررہی ہیں، پہلے 2008ء میں انہوں نے آپس میں وزارتیں بانٹیں، پیپلزپارٹی کا صدر بنایا گیا، 2008ء سے 2018تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے جتنی کرپشن کی، وہ سب اس کے ذمہ دار ہیں۔ اور اس بار بھی اگر پی پی پی نے ایک دو سال بعد یہ کہا کہ ہم نے جمہوریت بچانے کے لیے ن لیگ کا ساتھ دیا تھا تو یہ لوگ یہ بات بھول جائیں کہ عوام انہیں معاف کریں گے۔ بلکہ ن لیگ کے ہر فعل کے یہ لوگ ذمہ دار ہوں گے۔ اور اب چونکہ متوقع طور پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری صدر پاکستان بننے والے ہیں اور جلد ہی سینیٹ کے انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ بھی انہی دونوں پارٹیوں میں سے ہوگا تو پی پی پی یہ نہ کہے کہ اس دور کے غلط کاموں کے وہ ذمہ دار نہیں ہیں۔ الغرض جو کچھ جن جن کاموں میں آپ ن لیگ کو سپورٹ کر رہے ہیں، خواہ وہ پنجاب ہو، بلوچستان ہو، سندھ ہو، وفاق ہو یا کوئی اور پلیٹ فارم آپ ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں،حتیٰ کہ مریم نواز ، شہباز شریف، مریم نواز یا دیگر وزراء کی خراب کارکردگی بھی انہی کی خراب کارکردگی لکھی جائے گی اور اچھی کارکردگی بھی انہی کی۔ اور رہی بات قومی اسمبلی کی تو یہ یقین مانیں آج لکھ لیں کہ ان حالات میں یہ نہیں چلے گی۔ آپ اسمبلی کی دو دن کی کارروائی دیکھ لیں ،،، موجودہ حکومت کو مشکلات کا سامنا ہو گا ۔ اس لیے یہ پیپلزپارٹی خودبتائے گی کہ ن لیگ کیا کر رہی ہے اور کن کن چیزوں کی ذمہ دار ہوگی! کل کلاں جو ہو گا سامنے آ جائے گا ۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے وفاقی حکومت عوامی فلاح کے منصوبوں پر توجہ سے ، مہنگائیختم کرنے کے بارے میں سوچے، ۔ اس وقت حکومت بڑی شد و مد سے آئی قیم ایف سے قرضہ لینے کے بارے میں پر تول رہی ہے ، مل؛ک اس وقت قرضوں کے ایسے بوجھ تلے آ چکا ہے شاید اس سے کبھی بھی نہ نکل سکے۔ انتخابات میں تو ن لیگ نے اپنے منشور کو سب سے بہترین قرار دیا تھا اور عوام سے اس منشور پر عمل درآمد کرکے عوام کی حالت سدھا رنے کا دعویٰ کیا تھا اب ن لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت حکومت میں شامل تمام جماعتوں پر وعدے ایفا کرنے کا وقت آ گیا ہے ، لہذا اب عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے پر توجہ دی جائے۔