انسان خواہشوں کا اسیر ہے اور مایوسی صبر اور انتظار کے لئے زہر قاتل۔ یہ ناآسودہ خواہشیں ہی ہیں جو پی ڈی ایم کے جلسوں میں انسانی ہجوم کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں کو عوامی پذیرائی نے ہی مریم نواز کو ایماندار خان کا طعنہ عوام کے منہ پر دے مارنے کا حوصلہ اور عمران خان کو ڈائیلاگ کی درخواست پر مجبور کیا۔ تحریک انصاف کے ایمانداری اور شفافیت کے دعوے اس کے اقتدار کے لئے بوجھ بنتے جا رہے ہیں۔ آج مینار پاکستان کے جلسے میں پی ڈی ایم مولانا خادم حسین رضوی کے جنازے سے زیادہ لوگ جمع نہ بھی کر پائی تب بھی عمران خان کی حکومت کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں ضرور کامیاب ہو جائے گی۔ لاہور میں مریم نواز کی ریلیوں اور پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کے ہجوم نے عمران خان کے لئے سجاد باقر رضوی کے اس شعر ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے: میں سرگرداں تھا ہجر کی راتوں کے قرض سے مایوس ہو کے لوٹ گئے دن بہار کے عمران خان کی حکومت گزشتہ 27ماہ سے ملکی معیشت سے ن لیگ کے قرضوں کا بوجھ اتارنے میں مصروف تھی کہ پی ڈی ایم کے جلسے بہار سے پہلے خزاں کی خبر دینے لگے۔ آج عمران خان کو حقیقی اپوزیشن کا ہی سامنا نہیں بلکہ ان کی صلاحیتوں کا بھی امتحان ہے۔ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن سینٹ الیکشن سے پہلے ملک میں سیاسی بحران پیدا کر کے مقتدرہ حلقوں کو اپنی اہمیت کا احساس دلانے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔ میاں نواز شریف نے نہایت چالاکی سے گوجرانوالہ کے جلسے میں جنرل باجوہ اور جنرل حمید کو مخاطب کر کے اسٹیبلشمنٹ کو پسپائی پرمجبور اور عمران خان کو تنہا کر دیا ہے۔ اب یہ چومکھی عمران خان کو اپنی صلاحیتوں سے لڑنا ہے۔ میاں نواشریف کی اسی کامیابی کو دیکھ کر پیپلز پارٹی کی قیادت استعفوں کی کڑوی گولی نگلنے پر آمادہ ہے ۔ پیپلز پارٹی پارلیمان سے استعفے نہ بھی دے تب بھی زرداری مسلم لیگ کو اس نہج پر لانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن سے سیٹ اڈجسٹمنٹ کر سے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں زندہ کر سکیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں عوام کے ہجوم نے عمران خان پر یہ بات تو واضح کر دی ہو گی کہ وہ ترکی کے طیب اردوان نہیں کہ عوام ان کی حکومت پچانے کے لئے ٹینکوں کے سامنے لیٹ جائیں اور پھر ترکی کے عوام کو بھی طیب اردوان کی محبت اور ایمانداری نے نہیں بلکہ ان کی اپنی ترقی اور خوشحالی کی امید نے موت سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ دیا تھا۔ طیب اردوان اپنے دور میںترکی میں فی کس آمدن کو 3ہزار ڈالر سے بڑھا کر 11ہزار ڈالر تک لانے میں کامیاب ہو چکے جو آج فرانس کی فی کس سالانہ آمدن سے بھی زیادہ ہے۔ ان کے اقتدار میںترکی مسلم دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے جو دنیا کی بیس بڑی معاشی طاقتوں کے کلب میں شامل ہے۔ طیب اردوان نے عوام کو 2023ء تک ترکی کو مضبوط ترین اقتصادی اور سیاسی قوت بنانے کا خواب دکھلایا ہے۔ طیب اردوان کے عوام سے وعدے محض خواب ہی نہیں اردوان حکومت پچھلے دس برسوں میں ایک سوپچیس نئی یونیورسٹیاں ایک لاکھ انہتر ہزار نئی عمارت بنا کر ایک کلاس میں زیادہ سے زیادہ 12بچوں کو مفت تعلیم دینے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اردوان نے امت مسلمہ کی رہنمائی کے صرف سیاسی نعرے ہی نہیں لگائے وہ برما میں مسلمانوں کی نسل کشی کے دوران بحری جہاز کے ذریعے برما کے مظلوم مسلمانوں کو ریسکیو کر کے خود کو مسلمانوں کا محافظ ثابت کر چکے ہیں گستاخانہ خاکوں پر جب عمران خان فرانس کے صدر سے مسلمانوں کے جذبات مجروح نہ کرنے کی درخواست کر رہے تھے اس وقت اردوان نے فرانس کے صدر کا سلام کے لئے ہاتھ دھتکار دیا تھا۔ ترکی کے عوام اردوان کے ساتھ اس لئے ہیں کیونکہ اردوان ترکی کے عوام کی خوشحالی کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں وہ لیبیا‘ شام اور قطر کی حفاظت کے لئے فوج بھیجنے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوئے ۔یہ سچ ہے کہ یہ سب کچھ طیب اردوان نے 27ماہ میں نہیں کیا وہ گیارہ سال تک وزیر اعظم رہے اب 2017ء کے ریفرنڈم کے بعد صدر ہیں مگر عمران خان اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ طیب اردوان نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا اس وقت بھی منوایا لیا تھا جب وہ استنبول کے گورنر تھے اور جب ترکی کی معیشت پاکستان کی معیشت کی طرح عالمی قرضوں تلے دبی آخری سانسیں لے رہی تھیں اس وقت بھی انہوں نے استنبول کو مثالی شہر بنایا۔ مشکل حالات میں چھوٹی کامیابی ہی انسان میں امید کو زندہ رکھتی ہے۔ عمران خان نے ان 27ماہ میں عوام کو ریلیف نہ بھی دیا ہوتا آٹا اور چینی کے نرخوں کو ہی پرانی سطح پر بحال اور عوام کو اپنے اقدامات کے ذریعے روزگار کی امید دلائی ہوتی تو آج عوام پی ڈی ایم کے جلسوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے نہ لوگوں کو ایماندار قیادت منتخب کرنے کے نتائج بھگتنے کا طعنہ سننا پڑتا۔ تحریک انصاف کی قیادت کو یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ ان کی حکومت کی ناکام پالیسیوں نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔2018ء کے الیکشن میں عوام نے جن چوروں اور ڈاکوئوں سے جان چھڑائی تھی آج تحریک انصاف نے ان کرپٹ اور قومی دولت لوٹنے والوں کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کی ناکام پالیسیوں سے عوام مایوس ہوتے جا رہے ہیں مہنگائی بے روزگاری کے خوف سے لوگ خودکشی کرنے پر مجبور ہیں انسان خواہشوں کا اسیر ہے اور مایوسی صبر اور انتظار کے لئے زہر۔ جگر جالندھر نے کیا خوب کہا ہے: حسرتوں کا ہو گیا ہے اس قدر دل میں ہجوم سانس رستہ ڈھونڈتی ہے آنے جانے کیلئے