وہ نوجوان تھا۔ ایسا ویسا نوجوان نہیں۔ جیسے میں اور آپ ہیں۔زندگی جن کے لئے دن رات کے گزران کے سوا کچھ نہیں۔دن فکر معاش کے جلو میں طلوع ہوتا ہے تو شامیںملکی سیاست کے ہنگام کی نذر ہوجاتی ہیں۔تیسری دنیا کے نوجوانوں کی زندگی اس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے۔پہلی اور دوسری دنیا کے نوجوانوں کی زندگی بھی اس سے زیادہ کیا ہوگی جو اس کی تھی۔وہ نسلاً عرب مسلمان تھا۔پیدا آسٹریلیا میں ہوا۔سولہ فروری انیس سو بیاسی اس کی پیدائش کا دن تھا۔اس کا سار ا خاندان سڈنی میںہی سیٹل تھا۔ روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ زندگی اس پہ اس طرح مہربان تھی جیسے ماں اپنے بچے پہ۔ اسے اس طرح پروان چڑھایا گیا جیسے کسی قیمتی پودے کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔نزاکت اور خوبصورتی کے ساتھ۔وہ ذہین بھی تھا اور خوش شکل بھی۔اس نے آسٹریلیا سے ہی گریجویشن کیا اور اپنے ذاتی کاروبار کا آغاز کیا۔ اس نے ایک سیکوریٹی کے آلات بنانے والی فیکٹری اور کمپنی کھولی ساتھ ہی بجلی سے متعلق کاروبار قائم کیا۔وہ پیدائشی خوش نصیب تھا مٹی کو بھی ہاتھ لگاتا تو سونا ہوجاتی۔ یہ تو پھر سونا تھا۔مایا کو مایا لمبے ہاتھ کرکے ملا تو اس کی زندگی عام لوگوں کے لئے ہی نہیں بڑے بڑے کھاتے پیتے لوگوں کے لئے باعث رشک بن گئی۔دنیا کی کون سی نعمت تھی جو اسے میسر نہ تھی اور دنیا کا کون سا برانڈ تھا جس کا وہ شوقین نہ تھا۔ دنیا کے مہنگے ترین فیشن برانڈ کا وہ دیوانہ تھا۔ اس کی الماریاں اس برانڈ کی مہنگی ترین خوشبوؤں سے بھری ہوئی تھیں بلکہ وہ پہچانا ہی اس وجہ سے جاتا تھا کہ یہ اسٹیٹس سمبل ہی نہیں اس کا جنون بھی تھا۔اس کے ملبوسات اتنے مہنگے تھے کہ اس کی ایک ایک ٹائی اور شرٹ کی قیمت بلا شبہ اسی دنیا میں کچھ لوگوں کی سالانہ آمدنی سے بھی زیادہ تھی۔پھر وہ تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ ان میں سے بہت سے ان چھوئے ہی الماریوں میں ٹنگے رہے۔ انہیں پہننا تو درکنار ان کے ٹیگ بھی جوں کے توں لگے رہے۔اس کے پاس دھوپ کے چشموں کے مشہور برانڈز کا ایک اعلی کلیکشن تھا۔ ان میں سے چند اتنے مہنگے تھے کہ ان پہ قیمتی پتھر اور ہیرے جڑے ہوئے تھے۔اسے دھوپ پہ قدرت نہ تھی ورنہ وہ سورج کی تپش کم یا زیادہ کرنے کا کوئی انتظام کرلیتا۔اسے قیمتی گھڑیوں کا بھی شوق تھا۔اس کے پاس رولیکس اور پاٹیک فلپ کا ایسا کلیکشن تھا کہ دیکھنے والے کی آنکھیں چندھیا جائیں۔ان میں سے ایک گھڑی جب اس کے انٹرویو لینے والے محمد ہوبلوس نے اس کی دراز سے نکالی تو اس کی دستی پٹی پہ جڑے ہزاروں قیمتی ہیروں نے کیمرے کی آنکھ دھندلا دی۔بلاشبہ ان میں سے ہر ایک کی قیمت کچھ چھوٹے ملکوں کے بجٹ کے برابر تو ہوگی یا اس سے ذرا کم۔اسپورٹس کاروں کے شوقین اس نوجوان کی پسندیدہ کار450 ہزار پاونڈ مالیت کی اسپائڈر فراری تھی۔اس کے متعلق وہ کہا کرتا تھا کہ اگر دنیا میں کوئی آخری شے ایسی بچی جس کے پیچھے میں بھاگنا چاہونگا تو وہ یہ ہوگی۔اس کار سے اس کی دیوانگی کا یہ عالم تھا کہ لوئیس وٹن کی طرح فراری بھی اس کی پہچان بن گئی۔اس نے مناسب وقت میں شادی بھی کرلی۔زندگی اتنی پرتعیش، خوبصورت اور خوابناک تھی جس کا تصور بھی کچھ لوگوں کے لئے محال ہے کہ اس کی بھی ہر ذہن نے اپنی حدود بنا رکھی ہوتی ہیں۔کچھ لوگوں کا تصور بھی وہاں تک کام نہیں کرتا جہاں وہ ایسی قابل رشک زندگی جی رہا تھا کہ اچانک سب کچھ بدل گیا۔یہ سن 2015 ء تھا ۔وہ اس وقت تیس سال کا تھا اور اپنی بھرپور زندگی گزار رہا تھا کہ اسے جسم کے نچلے حصے میں کچھ بے چینی اور تناو سا محسوس ہوا۔سڈنی کے بہترین اسپتال میں اس نے چند ٹیسٹ کروائے تو ڈاکٹروں کو کچھ شبہ ہوا۔ چند مزید ٹیسٹوں نے اس شبے کی تصدیق کردی۔ اسے ٹیسٹیکل کینسر تھا جو اپنی آخری اسٹیج پہ تھا۔اس کے پاس ڈاکٹروں کے مطابق صرف سات ماہ تھے۔ دنیا کی قیمتی ترین گھڑیوں کے مالک نوجوان علی بنات کے پاس وقت نہیں تھا۔ وہ گھڑیوں کو پیچھے کی طرف لوٹا کر اپنی زندگی پھر سے نہیں جی سکتا تھا نہ انہیں آگے بڑھا کر کچھ سال ادھار مانگ سکتا تھا۔ عمر کی نقدی ختم ہونے والی تھی اور کاتب تقدیر کوکوئی مجبور کرنے والا نہیں تھا۔ ہاں ایک دعا تھی اور ایک یقین تھا ۔ مجھے یقین ہے علی بنات جس نے یہ پیروں تلے زمین نکالنے والی خبر سن کر وہی کہا تھا جو اہل ایمان کا شیوہ ہے،انا للہ و انا الیہ راجعون،وہ یقین کے اس مقام پہ تھا کہ اس کی دعا اس کی زندگی طویل کرسکتی تھی۔ اس کی عمر ہی کیا تھی صرف تیس سال۔ اسے کم سے کم مزید تیس سال اس زندگی سے لطف اندوز ہونے کا حق تھا۔ اس نے لیکن ایک عجیب فیصلہ کیا۔ اسے لگا کہ اس کی ساری دولت بھی موت تو ایک طرف رہی،کینسر کو بھی روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ اس نے اسی لمحے اس تمام بے مصرف دولت کو جو اس کے گھر کے کمروں، دالانوں، گیراجوں، خوابگاہوں اور ان میں جڑی الماریوں میں بے کار پڑی تھی، خیرات کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب اس نے یہ فیصلہ کیا اس کے پاس خالص دولت کے تین ملین ڈالر،فراری کاروں ، پاٹک فلپ گھڑیوں، گوچی اور پراڈا کی مصنوعات اور لوئی وٹن کی خوشبویات کا ایک ڈھیر اور سات ماہ تھے۔یہ سات ماہ ان سب پہ بھاری تھے۔ اسے احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔دنیا کی بہترین طبی سہولیات بھی اس کی زندگی کے سات ماہ کو اس کی خواہش کے مطابق طویل نہیں کرسکتیں۔ہاں اس کا درد اس کی تکلیف کچھ کم کرسکتی ہیں۔اسے ان لوگوں کے درد کا احساس ہوا جنہیں طبی سہولیات تو کیا ضروریات زندگی بھی میسر نہیں تھیں۔وہ ایک عام سا مسلمان تھا۔ اللہ پہ یقین رکھنے اور اسے فراموش کردینے کی روٹین رکھنے والا مسلمان۔ سر پہ آلینے والی موت نے اسے خدا سے قریب کردیا۔اس نے اپنی تمام دولت افریقہ کے ان مسلمانوں بالخصوص مسلمان بچوں کی بہبود کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا جو بنیادی ضروریات زندگی سے محروم ہیں۔ اس کار خیر کے لئے اس نے ایک تنظیم مسلم اراونڈ دی ورلڈ (MATW) کی بنیاد رکھی ۔ ان سات ماہ میں وہ اپنی اس این جی او کے لئے ٹوگو، گھانا اور برکینا فاسو میں سفر کرتا اور ہزاروں مستحق افراد کی زندگیاں بدلتا رہا۔ ٹوگو جہاں علی بنات نے سب سے زیادہ فلاحی کام کیا، کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔اس نے اس تنظیم کے زیر اہتمام یتیم بچوں کے لئے سینکڑوں گھر بنوائے، ہزاروں بیواؤں کے لئے گھروں کی تعمیر کی۔اسپتال اور کلینک قائم کئے ۔ اس کے ایک پروگرام کے تحت افریقہ میں پینے کے پانی کو صاف کرنا اوران بھوکے افریقی بچوں کو کھانا فراہم کرنا ہے جن پہ اس متمول دنیا کی نظر ہی نہیں پڑتی۔ یہ وہ سفاک دنیا ہے جس کے تین چوتھائی وسائل پہ اس کی کل آبادی کے صرف بیس فیصد دولتمند افراد کا قبضہ ہے۔علی بنات تو ان میں سے بھی نہیں تھا لیکن اس کی دولت اس دنیا کی ستر فیصد آبادی کی سالانہ آمدنی سے کئی گنا زیادہ تھی۔سرمائے کی اس دنیا میں انسانیت سسک رہی تھی۔اس کا ایک بڑا حصہ وہ بھی تھا جس کے پاس بعد از مرگ سپرد خاک ہونے کے لئے نہ زمین تھی نہ کفن۔ علی بنات نے ان کے لئے قبرستانوں کے لئے زمین خریدی اور مٹی کو مٹی کا رزق ہونے کا باعزت سامان کیا۔جب اس پہ اپنے موذ ی مرض اور مختصر زندگی کا انکشاف ہوا تو اس نے ہراساں ہونے کی بجائے وہ کلمہ خیر پڑھا جس کی تاکید اللہ نے ہر مسلمان کو کی ہے کہ وہ نقصان اور دل شکنی کے ہر لمحے میں اسے پڑھے۔ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔اس نے یہ کلمہ سمجھ لیا۔اس نے اپنی زندگی کے بارے میں ایک ویڈیو بنائی تو اس کا عنون رکھا: گفٹڈ ود کینسر ۔اس نے اس مرض کو ایک ایسا تحفہ سمجھا جس نے زندگی کا اصل مفہوم اس پہ واضح کیا۔ وہ اپنے خدا کا شکرگزار تھا جس نے موت سے پہلے اسے اصل زندگی کی روشنی بخشی۔ وہ مسکراتا رہتا اور اللہ کی حمد و ثنا اور شکرگزاری بیان کرتا رہتا۔کینسر اس کی روح کو نہیں چھو سکا۔ وہ سات ماہ نہیں دو سال زندہ رہا۔ اس سال انتیس مئی کو سڈنی میں اس خوش دل نوجوان نے اپنی جان رفیق حقیقی کے حوالے کردی۔ آخری لمحوں میں بھی اس کے چہرے پہ بڑی مطمئن مسکراہٹ تھی۔اس نے زندگی کا راز پالیا تھا۔ زندگی جو اتنی ارفع ہے کہ اسے معبود حقیقی کی خوشنودی سے کم کسی قیمت پہ فروخت کیا ہی نہیں جاسکتا۔علی بنات نے یہ سودا بڑی کم عمری میں کرلیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ہم سب ہی موت کی طرف رواں دواں ہیں بس ہمیں کوئی ڈاکٹر یہ نہیں بتاتا کہ سات ماہ یا دو سال۔