خاک کہنے کا ہنر آیا ہے وہ تو ہر بات میں در آیا ہے اس سے دستار کی قیمت پوچھو سر وہ دہلیز پر دھر آیا ہے بات تو میں نے کر دی مگر آج سیاست کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔اقتدار جاوید صاحب نے احمد مشتاق کا شعر بھیجا ہے، کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ ہشیار ندیوں کے چڑھائو کا وقت ہے۔ یقینا ہم نم زدہ و غم زدہ تو ہیں مگر یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ میں جاگنے لگا تو نیا خواب آ گیا پھر میری خواب گاہ میں سیلاب آ گیا۔ خوشی کی بات یہ کہ عام سطح پر بھی لوگ متحرک ہوئے ہیں اور مشکل میں پھنسے ہوئوں کی مدد ہو رہی ہے۔ ہماری غمی اور خوشی وطن کے ساتھ ہے اس کے چاند ستارے سے لے کر سبز رنگ تک سب تقدیس میں ڈوبا ہوا ہے اصل میں بات میں کرنا چاہتا ہوں کرکٹ کی کہ ایشیا کپ کا سپر ٹاکرا پاکستان کرکٹ ٹیم نے جیت لیا۔ بھارت کے ساتھ ہماری نہ جیت عام ہے اور نہ ہار، ہم روایتی حریف ہیں۔شاید دونوں طرف ایک جیسے جذبات ہی ہوں۔ ہم ہاکی میں کرکٹ سے زیادہ انوالو ہوا کرتے تھے پھر ہاکی کو گرہن لگ گیا مگر ہم چاہے دسویں نمبر پر آتے ہیں مگر بھارت کو گیارہویں نمبر پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ پچھیلا میچ ہم اگرچہ مارجن پر ہار گئے مگر مقابلہ کیا اور اب بدلہ لے لیا۔ دونوں ممالک کے شائقین سکرین کے سامنے اپنی سانسیں بحال کرتے رہے دونوں طرف تھی آگ برابر لگی ہوئی۔میچ سنسنی خیز تھا ہار جیت سے ماورا ایک اچھا میچ دیکھنے کو ملا۔ رضوان نے 71رنز کئے نواز نے 42اور آصف نے اپنی شہرت کے عین مطابق مشکل میچ کو آسان بنا دیا۔ اگرچہ اس کی پہلی شارٹ پر کیچ چھوٹا اور جس سے کیچ چھوٹا اسے بھارتی کرئوڈ نے غدار قرار دے دیا۔واقعی یہ غدار کا لفظ کرکٹ میں بھی استعمال ہونے لگا ۔ بھارتی تجزیہ کار اگشت بدنداں رہ گئے۔تبصرہ یہ تھا کہ بھارت اوپر سے دھڑام نیچے آیا کہ آغاز بہت اچھا تھا مڈل آرڈر ٹیمپو برقرار نہ رکھ سکی۔ایوریج گر گئی پاکستان نیچے سے اوپر گیا۔بابر اعظم کے آئوٹ ہونے پر دل کو دھڑکا سا لگا۔رضوان بھی اچھا کھیلا مگر تیز نہیں۔نواز نے آ کر ایوریج درست کی اور بیس بالوں میں 42 سکور کیا۔ اب پاکستانی ٹیم کا مورال بھی بلند ہو چکا ہے۔پاکستانی ٹیم پریشر میں اچھا کھیل گئی۔ہم تو خوشی سے نہال ہو گئے۔اصل میں جیت تو وہی ہے جو بھارت سے کھیل کر حاصل ہو۔وہ کہتے ہیں رضوان اور نواز نے میچ بھارت سے چھین لیا۔ کولہی کی ففٹی ضائع گئی جیت کے بعد بچوں کا ردعمل تو یہ تھا کہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا محجھے پکڑ کر ساتھ لے گیا کہ ٹریٹ دیں۔وہاں اس کے پسند کے فلیور آئس کریم بھی ختم ہو چکی تھی میرا خیال ہے مٹھائی بھی اسی طرح بانٹی گئی تھی۔سب یہی نصیحت کرتے ہیں کہ کھیل کو کھیل لیں مگر بھارت کے ساتھ کھیل بھی جنگ جیسی ہوتی ہے۔اصل میں ہندو متعصب ہیں۔انہوں نے نہ صرف آئی پی ایل سے ہمارے کھلاڑیوں کو نکالا بلکہ انہوں نے پاکستان کی کرکٹ کو ختم کرنے کی سازشیں بھی کیں۔ یہ لوگ تھڑ دلے بھی ہیں ایک میچ میں انہوں نے ہارنے کے بعد سٹیڈیم کی کرسیوں کو آگ لگا دی۔ہمارے معروف کرکٹر مشتاق محمد کو ان کے ایک تماشائی نے سلام لینے کے بہانے بلیڈ مار دیا تھا کہ وہ تیزی سے رن بنا رہے تھے۔یہ صادق محمد ‘حنیف محمد اور مشتاق محمد تینوں بھائی تھے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا بھارت کے بغیر گزارہ بھی نہیں کوئی دشمن ہوتا تو ضروری ہے وگرنہ بنانا پڑتا ہے محبوب بھی اسی طرح ہوتا ہے کہ جسے ہم دیکھ کر جیتے ہیں اس کافر پہ دم نکلے ایسے ایک شعر ذھن میں آ گیا۔مگر اسے سیاست کے خانے میں نہ رکھا جائے: کون کہتا ہے کہ جادو نہیں برحق لوگو میرا قاتل مجھے محبوب نظر آتا ہے میں بات یہ کر رہا تھا کہ کرکٹ کی جیت سے جو پاکستانیوں کی فرحت و انبساط کا حال تھا وہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔اصل میں وطن ہمارے اندر ہے ہمارے ہم رنگ ہے ہمیں اپنے رنگ ڈھنگ پر غور کرنا چاہیے۔خاص طور پر وہ لوگ جو اس کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں وہ جو اس ریاست کا منہ متھا ہیں۔جو صاحب اقتدار و اختیار ہیں ۔قوم کو ان پر اعتماد ہونا چاہیے کہ وہ ریاست پر آنچ نہیں آنے دیں گے میں سیاسی بات ہرگز نہیں کروں گا مگر پنجاب کے سیاستدان کا فقرہ میرے دل میں گھر کر گیا کہ اس نے کسی کام کے سلسلہ میں ہدایات دینے والے سے پوچھا کیا اس سے ریاست کو نقصان تو نہیں پہنچے گا؟ یہی سپرٹ حب الوطنی ہے۔ ایک بڑی مزے کی بات ہے کہ بھارت شارجہ میں کھیلنے سے ڈرتا ہے۔سکندر بخت نے یہ معصومانہ سا سوال پوچھا کہ بھارت شارجہ سے تبدیل کروا کے دوبئی میں کیوں لے گیا؟ بھارت کے ایک مبصر نے ہنستے ہوئے سچ بتا دیا کہ شارجہ ان کے لئے منحوس ہے۔ اس لئے ہم وہاں نہیں کھیلتے۔اس پر خوب قہقہے لگے۔اصل میں بھارتی بہت توہم پرست ہیں انہیں جاوید میاں داد کا چھکا نہیں بھولتا۔وہی چھکا جس نے میاندار کو کروڑ پتی بنا دیا اور بھارتی بائولر کی عاقبت خراب کر دی۔آخری بال پر یہ چھکا تاریخی حیثیت رکھتا ہے بھارت ابوظہبی میں بھی نہیں کھیلتا۔ خوشی تو اس بات پر ہوتی رہی کہ ان کا ایک کمنٹیٹر کمنٹری کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ کوئی بات نہیں اگر بھارت پانچ وکٹوں سے ہارا ہے تو پانچ وکٹوں سے جیتا بھی تھا اس میں لطافت کی بات یہ کہ بھارت کے کمنٹیٹرز وغیرہ تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دے رہے تھے ایک خاتون تو بار بار کہہ رہی تھی پاکستان کو ہمیشہ کی طرح پیٹیں گے اور اب وہ اپنی ٹیم کو پاکستانی ٹیم کے برابر ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ہمیں تو بابر اعظم کا اترا ہوا چہرہ اچھا نہیں لگا کہ وہ پرفارم کرنا چاہتا تھا مگر سنبھلنے کی کوشش میں کیچ پکڑا بیٹھا۔کوئی بات نہیں ، کولہی سے بڑا پلیئر ہے اور ثابت بھی کر چکا ہے۔بڑے کھلاڑیوں پر بیڈ پیچ آ جاتے ہیں وہ پاکستان کا چہرہ ہے اس کی پرفارمنس ہم دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے دعا گو ہیں مظفر وارثی کا خوبصورت شعر: تنہا میں جل رہا تھا تو خوش ہو رہے تھے لوگ پہنچی جو ان تک آگ بجھانے لگے مجھے