یہ ۱۹۹۹ء اکتوبر کی بات ہے جب مجھے اس عظیم دانش گاہ کا حصہ بننے کا شرف حاصل ہونے جا رہا تھا۔پانچویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد مجھے والدین کی خواہش کے مطابق دنیا کی سب سے عظیم کتاب’’قرآنِ مجید‘‘کو حفظ کرنے کے لیے داخل کروا دیا گیا۔میں اگرچہ اس وقت اس درس گاہ کی قدرومنزلت سے چنداں واقف نہ تھا مگر بطور طالب علم اس ادارے سے وابستگی نے مجھے جہاں اس ادارے کی تابناک تاریخ سے متعارف کروایا وہاں میری ذہنی و علمی نشونما میں بھی اس ادارے نے بنیادی کردار ادا کیا۔مجھے بولنا‘لکھنا اور سننا اسی ادارے نے سکھایا اوراسی مادرِ علمی نے میرے ذہن کو تازگی اور قلم کو جلا بخشی ۔ منڈی بہائوالدین سے تیس کلومیٹر بائیں جانب ’’انھے شریف ‘‘نامی گائوں کو لوگ شاید آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی تک فراموش کر چکے ہوتے اگر وہاں ’’انھے والے بابا جی‘‘(مولانا غلام رسولؒ)نے سراج الہدیٰ کے نام سے عظیم مذہبی و فکری دانش گاہ کی بنیاد نہ رکھی ہوتی ۔بابا جی نے انھے شریف نامی گائوں میں ایک برگد کے درخت کے نیچے چند طالب علموں کو بٹھایا اور قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم دینا شروع کر دی۔دیکھتے ہی دیکھتے اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبا کا نام و مقام برصغیر کے کونے کونے تک پہنچ گیا اور پھر تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا کہ دیوبند (انڈیا) سمیت واں بھچراں سے حسین علی الوانی ؒ اور ان کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست نے اس ادارے کا رخ کیا ۔ادارہ کیا تھا‘ایک برگد کا درخت اور اس کے ساتھ انتہائی چھوٹی سے کچی مسجد تھی جہاں یہ چشمہ جاری تھا ۔ اس درس گاہ سے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ،سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒ،مولانا ولی اللہؒ،مولانا قاری محمد اشرفؒ،مولاناقاضی نور محمدؒسمیت کتنے علما اس ادارے سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے اور تعلیم و تربیت کا یہ سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔تقریباً تیس سال قبل یہ ادارہ انھے شریف سے میانوال رانجھا گائوں میں منتقل ہو گیا اور دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری کر دیا گیا۔حفظِ قرآن مجید ‘ثانیہ خاصہ و عامہ سمیت میٹرک اور انٹر میڈیٹ کی تعلیم دی جا رہی ہے اور ہر سال سینکڑوں طلباء حفظ اور دیگر شعبہ جات سے فارغ التحصیل ہو رہے ۔حفظ کرنے والے بچو ں سے کسی بھی طرح کی کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی بلکہ تین وقت کا میس اور رہائش تک فری رکھی گئی ہے۔مولانا قاری محمد ارشد اورمولانا عبد القیوم اور سمیت کتنے ہی لوگ اس ادارے سے پچھلی کئی دہائیوں سے وابستہ ہیں اور بنا کسی لالچ اور طمع کے اس ادارے کو اپنے دن رات دے رہے ہیں۔وہ چشمہ جس کی بنیاد انھے والے بابا جی نے رکھی تھی‘جسے پروان چڑھانے میں مولانا ولی اللہؒ اور مولانا عبد الرزاق ؒ نے اپنا خون پسینہ دیا۔میں کبھی کبھی دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ’’ مولانا عبد الماجد صاحب نے جتنا وقت مدرسے کی ترقی کو دیا‘اگر یہ وقت وہ تحقیق و تالیف میں لگاتے تو کئی اہم ترین موضوعات پر درجنوں غیر معمولی کتب ہماری علمی و مذہبی تاریخ کو فراہم کرتے‘‘۔میں نے اس بات کا ذکر کئی دفعہ مولانا صاحب سے کیا بھی مگر آپ یہی کہتے کہ’’میرے کندھوں پر مدرسے کی عظیم ذمہ داری ہے‘اسے نبھانا چاہتا ہوں‘‘ اور تقریباً پچاس برسوں سے وہ یہ ذمہ داری بطریقِ احسن نبھا بھی رہے ہیں۔ راقم الحروف نے اس ادارے میں تقریباً پانچ سال گزارے‘یہ پانچ سال میری زندگی کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔کتنی یادیںاور کتنے ہی نامور مذہبی لوگوں سے جڑے لمحات میرے ماضی کا بہترین حصہ ہیں۔اگرچہ لاہور کی زندگی کی وجہ سے میرا گائوں جانا بہت کم ہو گیا ہے مگر جب کبھی گائوں گیا‘اس دانش گاہ میں کچھ پل لازمی گزارے۔اساتذہ کرام سے ملا‘طلبا ء سے ملاقاتیں کیں‘میس کا وزٹ کیا جہاں دورانِ تعلیم کئی دفعہ اساتذہ سے چوری چھپے کھانا کھایا۔ان کمروں‘ان سیڑھیوں سے جڑی یادیں بلاشبہ ہمیشہ یاد رہیں گی۔ایک ایسا ادارہ جو صرف خدا کے سہارے پہ چل رہا ہے‘جس کے پاس کوئی بیرونی یا اندرونی فنڈنگ نہیں ہے‘جس ادارے نے پچھلے پچاس سال میں ہزاروں طالب علم مختلف شعبوں کو دیے۔کتنے ہی انجینئرز‘ پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ بیوروکریٹس اورعلمائے دین اسی ادارے کے تیارہ کردہ ہیں۔میں کبھی کبھی وہاں استادِ محترم سے کہا کرتا ہوں کہ جیسے عام تعلیمی ادارے تشہیری مہم چلاتے ہیں اور لاکھوں روپیہ کماتے ہیں‘ آپ کو بھی اشتہار بازی کرنی چاہیے کہ درجنوں پروفیسرز‘ ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور بیوروکریٹس آپ کے دیے ہوئے ہیں مگر جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا‘استاد یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ ’’ہم تو خدا کی رضا کے لیے کر رہے ہیں‘وہ دیکھ رہا ہے‘یہی کافی ہے‘‘۔ میں اس کالم کے توسط سے اس ادارے سے وابستہ اساتذہ کرام کو سیلوٹ پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے اس ادارے کو کسی مسلک اور کسی فرقے سے نہیں جوڑا‘انھوں نے اس ادارے کو کسی بیرونی و اندرونی این جی او سے ملحق نہیں کیا‘انھوں نے اس ادارے میں ’’شاہ دولہ کے چوہے‘‘نہیں بلکہ دانشور اور بڑا ویژن رکھنے والے طلبا تیار کیے ہیں جنہوں نے دنیا کے کونے کونے میں جا کر ثابت کیا کہ ہم بطور مسلم اپنا کردار ادا کریں گے۔امت کا اتحاد اور امت کی سلامتی اسی میں ہے کہ اسے فرقہ پرستی کی آگ سے بچایا جائے اور یہ ادارہ بلاشبہ ایسا ہے۔ میرے ساتھ ہر مسلک اور خطے کے لوگ پڑھتے رہے‘کبھی کسی طالب علم کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ کسی خاص مذہبی و سیاسی جماعت کا بیج‘سٹیکر یا کوئی پمفلٹ استعمال کرے۔یقین جانیں تعلیمی اور مذہبی اداروں کو ایسا ہی ہونا چاہیے تبھی تعلیم و تربیت میں انقلاب لایا جا سکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ معاشرے میں بھیجے گئے بڑے ذہن ہی بڑا کام کرتے ہیں‘جن دماغوں کو فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک دیا جائے وہ کبھی بڑا کام نہیں کرتے۔