سانحہ 9 مئی پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب مبینہ طور پر پی ٹی آئی قیادت کے اکسانے پر پاکستان بھر میں اس کے کارکنان نے افواج پاکستان کے دفاتر کا جلائو گھیرائو کیا بلکہ حساس تنصیبات کوبھی نشانہ بنانے کی کوشش کی۔نہ صرف ہمارے جنگی ہیروز اور شہداء کے مجسموں کی بیحرمتی کی بلکہ اہم شاہرائوں پر نصب ہمارے فخر کی علامت پاکستان کی بہادر افواج کی جانب سے دشمن سے چھینے گئے جنگی جہازوں اور ٹینکوں کو بھی توڑ پھوڑ کے بعد نذر آتش کردیا گیا۔جن قومی ہیروز اور شہداء کے مجسمے اور ماڈل مسمار کیے گئے ان کے خاندان شدید کرب میں تھے۔ اہم سیاسی خاندانوں اور شخصیات نے پی ٹی آئی قیادت کی انتقامی، نفرت، تشدد اور انتشار آمیز سیاست سے لاتعلقی کا اعلان کرنا شروع کیا تو آئندہ سیاسی سفر کیلئے ان کے پاس جہانگیر ترین اور علیم خان کے سوا کوئی آپشن نظر نہ آئی۔یہ وہی جہانگیرخان ترین ہیں جن کے بارے میں عرف عام ہے کہ عمران خان کو وزیراعظم بنانے کا کریڈٹ ان کی دولت اور جہازوں کو جاتا ہے۔جہانگیر ترین اور علیم خان کو عمران خان کے اے ٹی ایم کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ 2018میں سہولت کاری اور اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر دھونس دھاندلی اورزور زبردستی کے باوجود جب پی ٹی آئی کو مطلوبہ اکثریت نہ مل سکی تو یہ جہانگیر ترین ہی تھے جو تن تنہا اپنا جہاز لے کر نکلے اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان کو اپنے پرائیوٹ جیٹ میں سوار کر کے بنی گالہ لے کر آئے۔عمران خان کو وزیراعظم بنانے میںاسٹیبلشمنٹ کے علاوہ جہانگیر ترین کا بہت اہم رول رہا کیونکہ اس نے اپنے اثرورسوخ اورپیسے کے بل بوتے پر بہت ساری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو عمران خان کی حمایت کرنے پر راضی کرلیا۔لیکن بدقسمتی سے اقتدار ملتے ہی پارٹی کے اپنے لوگوں نے جہانگیر ترین اور علیم خان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کردیا۔یوں پارٹی کے قابل افراد اور بہترین تعمیری دماغوں کی جگہ عثمان بزدار اور شہباز گل جیسوں نے لے لی۔علیم خان نے دلبرداشتہ ہونے کی بجائے ’’عبدالعلیم خان فائونڈیشن ‘‘کے ذریعے عوامی و فلاحی کاموں کا سلسلہ جاری و ساری رکھا اور روز بروز عوامی مقبولیت میں اضافہ کرتے رہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی زیادہ تر آمدن کا انحصار زراعت پر ہوتا ہے۔ عمران حکومت نے زرعی زمینوں کو کمرشلائز کر کے زراعت کے شعبہ کو تباہ کر دیا۔ ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی اور پاکستان کو خطرناک دوراہے پر لا کھڑا کیا۔ایسے میں زراعت سے محبت کرنے والے جہانگیر ترین کی نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان کی اقتدارکی طرف تیزی سے ہوتی پیش قدمی خوش آئند ہے۔پارٹی صدر علیم خان کی جانب سے پیش کیے گئے سیاسی منشور میں بھی کسانوں اور زراعت سے وابستہ افراد کیلئے اہم اعلانات مثبت پیش رفت ہے۔ مصنف ،سنئیر صحافی و کالم نویس اشرف شریف نے گذشتہ روز اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جہانگیر ترین موجودہ لاٹ میں واحد سیاستدان ہیں جو پیشے کے اعتبار سے سیاستدان نہیں بلکہ صنعتکار و زمیندار ہیں۔ امریکہ کی نارتھ کیرولینا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کرنے والے جہانگیر ترین آسٹریلیا کے زرعی سسٹم کو سمجھنے کیلئے متعدد دفعہ آسٹریلیا گئے اور امریکہ سمیت کئی ممالک سے ماہرین زراعت کو پاکستان لیکر آئے ۔یوں انہوں نے زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا آغاز کیا۔لودھراں میں ہزاروں ایکڑ بنجر زمین کو دن رات محنت کرکے آباد کیا۔جنوبی پنجاب سے لے کر سندھ تک ہزاروں ایکڑ زمین پر کاشتکاری کرکے اسے آباد اور شاداب رکھے ہوئے ہیں۔جہانگیر ترین کی کامیابی پاکستان کو پھر سے خوشحال اور خود کفیل زرعی پاکستان کا نقطہ آغاز ہو گا۔ 1997میں زرعی شعبہ میں ان کی دلچسپی اور مہارت کی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے جہانگیر ترین کو زرعی ٹاسک فورس کا سربراہ بنایا۔ 2002 میں پہلی دفعہ ممبر قومی اسمبلی بنے تو وفاقی وزارت کی بجائے پنجاب میں زراعت کے مشیر بننے کو ترجیح دی۔بعد ازاں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے اصرار پر صنعت و تجارت کے وفاقی وزیر رہے۔ وسیع و عریض زرعی اراضی، جدید ترین ڈیری فارمنگ یونٹس، متعدد شوگر ملوں اور پاور جنریشن پلانٹس پر مشتمل ترین فیملی کا ملک کے چند بڑے صنعتی گروپس میں شمار ہوتا ہے۔ جہانگیر ترین کی تحصیل لودھراں زرعی ٹیکس کلیکشن میں پنجاب بھر میں نمبر ون پر ہوتی ہے اورتحصیل لودھراں کے ٹوٹل زرعی انکم ٹیکس کا 80%جہانگیر ترین کا ہوتا ہے۔اسی طرح رحیم یار خان میں ان کی شوگر ملز کی وجہ پنجاب کا سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے والا ضلع ہے۔ایسے میں ان پر ٹیکس چوری یا ٹیکس معاف کروانے جیسے الزامات میں ذرا برابر حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ترین ایجوکیشن فائونڈیشن سے ہزاروں طلبہ مفت تعلیم حاصل کرچکے ہیں ۔یہ اداراہ نہ صرف تعلیمی میدان میں نمایاں پوزیشن حاصل کرتا ہے بلکہ یہاں کے ہونہارطلبہ کھیلوں کے میدان میں بھی قابل ذکر کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔جہانگیر ترین جنوبی پنجاب کے لوگوں سے شدید محبت کرتے ہیں ۔’’صوبہ محاذ‘‘ کے تحت جنوبی پنجاب کے حقوق کی آواز بنے۔ اسی طرح پاکستان سپر لیگ میں ملتان سلطانز کے نام سے ٹیم شامل کروا کے ملتان اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کے دل جیت لیے۔ جہانگیر خان ترین اور علیم خان نے تعمیر، ترقی اور خوشحالی کے نعروں کے ساتھ اپنی نئی سیاسی جماعت ’’استحکام پاکستان پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے سینکڑوںایم این ایز اور ایم پی ایز سمیت اہم شخصیات کی استحکام پاکستان میں شمولیت یقینی طور پر اہمیت کی حامل ہے۔ انتہائی متحرک صدر علیم خا ن،بااثر الیکٹیبلز کی شمولیت،طاقتور حلقوں کی حمایت کے تاثر ،جہانیاں کے کامیاب جلسے اور عوام کے جوش و خروش سے لگ رہا ہے کہ استحکام پاکستان آئندہ انتخابات میں سرپرائز دے سکتی ہے خاص طور پر جنوبی پنجاب میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔عبدالعلیم خان پنجاب کی دو میں سے ایک بڑی سیٹ پر مسند افروز ہوسکتے ہیں۔