بالآخر قاصدوں سے سندیسے بھجوانے اور محبت ناموں کے تبادلوں کے بعد وہ ملاقات ہونے جارہی ہے جس پہ عالمی میڈیا محلے کی کسی پرانی مائی کی طرح نظریں جمائے بیٹھا ہے کہ ملاقات تو بھلے ہو بس کوئی اونچ نیچ نہ ہوجائے۔یہ خطرہ بے جا ہی معلوم ہوتا ہے ۔آخر مہینوں کی بیک ڈور ڈپلومیسی اس لئے نہیں ہوئی کہ عین وقت وصال میں تلواریں نکل آئیں اور ساری دنیا میں بھد اڑے ۔ویسے ٹرمپ اور کم یونگ ان سے کچھ بعید بھی نہیں ہے لیکن گمان اغلب ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا جس سے صدر ٹرمپ کی ڈپلومیسی پہ حرف آئے جو اس وقت داؤ پہ لگی ہوئی ہے اور جس پہ ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔آج بارہ جون کو سنگاپور میںامریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم یونگ ان ملاقات کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے یہ کریڈٹ بہرحال لے لیا ہے کہ وہ پٹھے پہ ہاتھ نہ دھرنے دینے والے کم یونگ ان کو مذاکرات کی میز پہ لے آئے ہیں۔اس کے لئے وہ بارہا اپنا ہی کاندھا تھپک چکے ہیں۔ ان کی ڈپلومیسی پہ ایک اچٹتی ہوئی نظرہی ڈالی جائے تو سمجھ آجاتا ہے کہ وہ ایک سرمایہ دار ہیں، ایک بزنس مین ہیں اور انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کس کو کہاں لاکر مارنا ہے کہ وہ پانی بھی نہ مانگے۔ دوسری طرف انہوں نے ایک ایسی جنگجو ٹیم بھرتی کررکھی ہے جو بات بات پہ آنکھیں دکھاتی ہے۔ گویا یہ سو پیاز اور سو جوتے والی پالیسی ہے جو امریکہ ہمیشہ ہی اختیار کرتا اور عام طور پہ کامیاب ہوتا آیا ہے۔ ہاں کچھ سرپھرے ہیں جو اس کی اس ڈپلومیسی کی تاریخ پہ بٹہ لگا دیتے ہیں جیسے ویت نام، کیوبا، افغانستان وغیرہ۔جب تک سویت روس رہا یہ ایک دوسرے کے خطوں میں مداخلت کرتے رہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ کس طرح امریکی سی آئی اے اور کے جی بی نے حکومتیں الٹیں اور یہ ماضی قریب کی باتیں ہیں کوئی ازمنہ رفتہ کی داستانیں نہیں۔ جہاں جہاں امریکہ نے سی آئی اے کے ذریعے حکومتیں ختم کرکے اپنے پٹھو بٹھائے وہاں روس نے مقامی گروہوں کو ان ہی حکومتوں کے خلاف نہ صرف مسلح کیا بلکہ دور دور سے کمیونسٹ گوریلے آکر اس کارخیر میں حصہ لینے لگے۔ یہ کمیونسٹ گوریلے ہمارے آئیڈیل تھے کیونکہ وہ مسلمان نہیں تھے اور خوارج وغیرہ تو مسلمانوں کے مسئلے ہیں۔ آج طالبان دہشت گرد ہیں حالانکہ وہ بعینیہ وہی جنگ لڑ رہے ہیں جو کیوبا میں چے گویرا نے لڑی تھی بلکہ وہ تو بولیویا بھی گیا تھا۔ چے گویرا ہمارا ہیرو ہے اور اسامہ بن لادن دہشت گرد ہے۔ بس ایک آموختہ ہے جو پڑھنا ہے لکھنے والے جو چاہے لکھ دیں۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بات ہورہی تھی شمالی کوریا کے انتہائی منہ پھٹ کم یونگ ان کی۔جنہوں نے ٹرمپ کے ساتھ ترکی بہ ترکی لفظی جنگ لڑی اور سامعین و قارئین کو محظوظ کیا۔ نوبت یہاں تک آگئی کہ اس بات پہ ٹوئٹ ہونے لگے کہ کس کے جوہری بم کا بٹن کتنا بڑا ہے اور اسے کون پہلے دبائے گا۔ لیکن چونکہ وہ واقعی وہاں تھاا س لئے کسی نے نہیں دبایا۔کم ان یونگ آج مذاکرات کی میز پہ ہیں۔ سنگاپور میں پندرہ ملین ڈالر کے خرچ پہ ایک پرتعیش عشرت خانے پہ ہونے والی ملاقات کی خوشبو ابھی سے ہوا میں ہے۔ امن کی فاختاؤں نے سب اچھا ہے کی رپورٹ دے دی ہے۔ ہر چیز بالکل مناسب ہورہی ہے۔ کل بس اس کا رسمی اعلان ہونا باقی ہے۔ اس سے قبل اچانک اس سرگم میں کچھ سر غلط لگ گئے تھے اور یوں لگتا تھا کہ یہ ملاقات اب نہیں ہوگی۔واقفان حال لیکن جانتے تھے کہ یہ ویسے ہی لفظی جنگ ہے جیسی ماضی میں ہوتی رہی اس کا مقصد عین وقت پہ صرف سنسنی پھیلانا تھا ورنہ معاملات تو طے ہوچکے تھے۔کم ان یونگ کے چین کے خفیہ اور طوفانی دورے رنگ لائے۔اس سے پہلے چین کے ساتھ امریکہ کی تجارتی جنگ چھڑ چکی تھی۔یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ شمالی کوریا کی ستر فیصد تجارت کا انحصار چین پہ ہے ۔ اس کے علاوہ عام استعمال کی اشیا کا اسی فیصد جبکہ تیل کا نوے فیصد وہ چین سے ہی خریدتا ہے۔ تقریبا دو سو چینی مائننگ کمپنیاں شمالی کوریا میں کام کررہی ہیں جس سے مقامی آبادی کے بڑے حصے کا روزگا ر وابستہ ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان اسی اپریل میں 250 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے تھے اور دسمبر میں چین نے امریکہ کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کے لئے شمالی کوریا کو تیل اور گیس کی فراہمی میں کٹوتی کردی تھی اور شمالی کوریا سے درآمدات بھی روک دی تھیں لیکن جب شمالی کوریا پہ اقتصادی پابندیوں کی زد میں چینی کمپنیاں بھی آنے لگیں تو چین کو شمالی کوریا کی حمایت کرنی پڑی۔اس کے بعد ہی امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی تناؤ شروع ہوگیا۔ایسے میں کم جونگ ان کو سمجھانا ضروری تھا۔امریکہ سے کسی چھیڑ خانی کی صورت میں شمالی کوریا سے مہاجرین کا دباؤ چین کی طرف آنا تھا جو ناقابل برداشت تھا۔ خطے کی عسکری صورتحال بھی چین کے حق میں نہیں ہے۔ بحر الکاہل میں جاپان اور جنوبی کوریا میں امریکی عسکری مستقر موجود ہیں۔جاپان میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ امریکی فوج موجود ہے جو تقریبا ً 112 اڈوں پہ چالیس ہزار افرادی قوت کے ساتھ ہر وقت تیار ہے۔ صدر ریگن کا مقرر کردہ مستقل بحری بیڑا یوکوسوکا میں آج بھی قائم ہے جو امریکہ کے ساتویں بحری بیڑے کے نام سے معروف ہے۔اس کے ساتھ جنوبی کوریا ہے جو جرمنی کے بعد امریکہ کا دوسرا بڑا ہے۔یہاں بھی چالیس ہزار کے قریب نفری اڑتیس اڈوں پہ موجود ہے۔1957 ء میں دونوں کوریاؤں کے درمیان تین سال جاری رہنے والی جنگ جس کے ذمہ دار روس اور امریکہ ہی تھے،ختم ہونے کے بعد شمالی کوریا کی گوشمالی اور جنوبی کوریا کے تحفظ کے لئے یونائیٹڈ اسٹیٹس فورس کوریا کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔یہاں بھی اپریل میں امریکہ نے ایک نیا ہائی آلٹیٹیوڈدفاعی نظا م المعروف تھاڈ نصب کیا ہے جو شمالی کوریا کی طرف سے آنے والے ممکنہ میزائل حملے کو ہوا میں ہی تباہ کرے گا۔ یہیں شمالی کوریا کے دارالحکومت سے اکیس سو کلومیٹر کے فاصلے پہ شہر ہ آفاق گوام موجود ہے جو ہے ہی امریکہ کی عملداری میں اور امریکہ کا مستقل عسکری مستقر ہے۔اس کے علاوہ رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے فلپائین، سنگاپور اور ہوائی موجود ہیں جہاں سے وقت پڑنے پہ تزویراتی مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ تمام عسکری اڈے ایک عرصے سے یہاں موجود ہیں جن کو اپریل میں اپ گریڈ کیا گیا ہے۔اسی اپریل میں چین نے بحرالکاہل میں پر پرزے پھیلانے شروع کئے اور وانواتو میں مستقل فوجی اڈا بنانے کی کوشش میں ہے۔ شاید اس میں کامیاب بھی ہو جائے۔ یہی عسکری اور تجارتی جنگ ہے جو چھوٹے ملکوں کو بڑے ممالک کا میدان جنگ بناتی ہے۔شمالی کوریا بھی اسی کی بھینٹ چڑھا ہے۔ اس سارے معاملے میں دیر یوں ہوئی کہ ایران کا معاملہ ابھی لٹکا ہوا تھا اور جوہری معاہدے سے متعلق امریکہ نے ابھی فیصلہ نہیں کیا تھا۔جب یہ فیصلہ ہوگیا کہ ایران کو مشرق وسطی میں لگام ڈالنی ہے امریکہ اس کے ساتھ جوہری معاہدے سے نکل گیا اور اس نے شمالی کوریا کے ساتھ ہاتھ ملانے کا فیصلہ کرلیا۔ اب ایران کو یورپ کی تمام تر حمایت کے باوجود جنگ کے خطرے کا سامنا ہے اور سنگاپور میں پیار بھری باتیں چل رہی ہیں۔ یہیں اصل شش و پنج میں چین مبتلا ہے۔ اگر شمالی کوریا نے جنوبی کوریا کی طرح مکمل طور پہ ہتھیار ڈال دئیے اور اپنا واحد سروائیول کٹ جوہری پروگرام لپیٹ دیا تو عسکری طور پہ چین کہاں کھڑا ہوگا ۔ چین کے سامنے شاید صدر نکسن اور ماوزے تونگ کی وہ تاریخی ملاقات ہو جو عشروں پہ محیط ہجر کے بعد پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوئی تھی۔ پھر چین نے کمیونسٹ نظریات ایک طرف رکھ کر سرمائے کو سجدہ کرلیا تھا۔ اب شمالی کوریا نے بھی عشروں کی فاقہ کشی اور گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے کے باوجود چین سے بے وفائی کردی تو کیا ہوگا۔ یہ اس وقت ملین ڈالر کا سوال ہے۔اب یہ تو ممکن نہیں کہ امریکہ چین کی خواہش پہ شمالی کوریا سے ایسا امن معاہدہ کرے جس کے مطابق وہ جنوبی کوریا سے اپنے اڑتیس ہزار فوجی نکال لے تاکہ چین کے سر سے خطرہ ٹل سکے اور وہ ایساکرکے شمالی کوریا کو جوہری پروگرام ترک کرنے کی پیشکش کرے تو شمالی کوریا کو نہ اس کا اعتبار ہے نہ ضرورت جبکہ ایران کی مثال سامنے ہے جس نے ایک جوہری معاہدے سے فائدہ اٹھا کر یورپ میں تجارت بھی کی اور جوہری صلاحیت بھی حاصل کرلی لیکن انجام کار ایک جنگ اس کے سر پہ منڈلا رہی ہے۔ اس سے بہتر اسے یہی لگے گا کہ مکمل سپردگی کے ساتھ خود کو امریکہ کے حوالے کردے۔اس کے پاس فارسی بول کر تیل بیچنے کا آپشن ہے نہ مشرق وسطی میں کسی کی مجبوری بننے کا نخرہ۔