جس طرح نو بیاہتا دلہنوں پہ سسرال کی کڑی نظر ہوتی ہے کہ کیسے اٹھی کیسے بیٹھی،اٹھی تو کیوں اٹھی کیا تکلیف تھی بیٹھی تو کیوں بیٹھی اٹھ کر کچھ کرتی کیوں نہیں،سوئی تو کتنے بجے سوئی ؟یہ کوئی سونے کا وقت ہے۔جاگی تو کب جاگی۔ اٹھ کر دانت صاف کئے یا یوں ہی انگریزوں کی طرح بیڈٹی چڑھا گئی۔ فجر پڑھتی ہے یا گول کر جاتی ہے۔ ناظرہ قرآن پڑھ رکھا ہے یا وہ بھی ہمیں قاری صاحب رکھ کر پڑھوانا پڑے گا۔ پڑھا ہے تو کچھ زیادہ تو نہیں پڑھ لیا کہ ہماری ہی جان عذاب کردے۔ہر وقت مولوی بنی وضو کے بعد ہمارے ہی ٹخنے اور کہنیاں چیک نہ کرتی پھرے کہ سوکھے رہ گئے اب نماز نہیں ہوگی۔چلتی ہے تو شریف بیبیوںکی طرح پیر سیدھے رکھتی ہے یا اسٹیپ لیتی ہے۔کیٹ واک تو نہیں کرتی ۔کھاتی ہے تو پہلے دولہا میاں کی پلیٹ میںسالن ڈالتی ہے یا بے شرموں کی طرح ڈونگا اپنی طرف کھسکا لیتی ہے۔ لقمہ اتنا بڑا تو نہیں لیتی کہ چپاتی چار نوالے میں ڈکار جائے یا اتنا چھوٹا کہ کھاتی ہی رہ جائے۔کھاتے وقت منہ سے چپ چپ کی آواز تو نہیں نکالتی تو بس اسی طرح بالکل اسی طرح پاکستان میں اگر کسی سیاست دان کی ایک ایک حرکت پہ کڑی نظر رکھی جاتی ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ عمران خان کی نجی اور عوامی زندگی کا ایک ایک پہلو جس طرح میڈیا کی زینت بنتا ہے ، وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوتا۔لوگوں کو شہرت کے لئے میڈیا اسٹنٹ کی ضرورت پڑتی ہے عمران خان کی ہر ادا ٹرینڈ بن جاتی ہے۔خان صاحب پشاوری چپل پہنیں یا لال کرتا، ان کے مداح اور مخالف بالترتیب کیمرہ اور لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔وہ اپنے کتوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے پائے جائیں تو کچھ لوگوں کو رقابت محسوس ہونے لگتی ہے اور فتوے جار ی ہوجاتے ہیں۔یہی کام وہ خواتین کے ساتھ کریں یا خواتین ان کے ساتھ تب بھی رد عمل ایسا آتا ہے جیسے کچھ لوگوں کی ذاتی حق تلفی ہوئی ہو۔کبھی کوئی سینئر صحافی ان کے بیڈ روم میں نقب لگا لیتا ہے اور دیگر احوال ایسے بیان کرتا ہے جسے خود کسی الماری ، سنگھار میز یا پلنگ کے نیچے شست باندھے بیٹھا ہو۔ پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ خان صاحب کی شادیاں اور طلاقیں ہی تو ہیں۔باقی سارے مسئلے حل ہوچکے یا کسی بھی وقت ہوجائیں گے جلدی کیا ہے جہاں ستر سال نکال لئے ساٹھ ستر سال اور سہی پہلے جمائمہ، سیتاوائٹ ریحام اور بشری بی بی پہ ریسرچ تو کرلی جائے۔ایک اور سینئر صحافی کو کچھ نہ سوجھا تو عمران سیریز لکھنی شروع کردی جس کا لب لباب بس اتنا ہے کہ خان صاحب ایک ایسی عورت کے ہاتھوں ٹریپ ہوگئے جو آئی ہی اس مشن پہ تھی کہ وہ خا ن صاحب سے شادی کرے۔کوئی پوچھے کہ اس وقت بھی خواتین کی بڑی تعداد شاید اسی مشن پہ ہوگی لیکن کتنی ہیں جو اپنے ارادوں میں کامیاب ہوسکیں؟کیوں ایک خاتون کو جو ایک غیر ملکی خبررساں ادارے میںبس یہ بتایا کرتی تھی کہ آج برطانیہ میں کہاں بارش نہیں ہوگی، اتنی اہم ہوگئی کہ اسے پاکستان قدم دھرتے ہی چار لاکھ روپے مع گاڑی کی نوکری بطور اینکر مل گئی جس کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ سیاست دان اس کے شو میں آنے سے انکار کردیتے تھے ۔ عمران خان کے اس خاتون سے شادی پہ افسانے بنانے والے اپنے ہم کار و ہم پیشہ سینئر صحافیوں سے یہ پوچھنے کی ہمت کریں گے کہ آخر اس خاتون کو لفافے میں رکھی یہ نوکری کس قیمت پہ دی گئی جبکہ اس ادارے کی تاریخ میں کبھی ملازموں کو وقت پہ تنخواہ نہیں دی گئی؟کیا اس قیمت کی تفصیل اس لئے نہیں بتائی جائے گی کہ وہ صحافی عمران خان نہیں ہیں اور اخلاقی کرپشن کا ملبہ اگر کسی پہ ڈالا جاسکتا ہے تو وہ یہی منہ پھٹ اور صاف گو شخص ہے جس نے برملا اپنے گناہ آلود ماضی کا اعتراف کیا۔ اور کیونکہ وہ عمران خان ہے اس لئے اس کی ہر اخلاقی لغزش کسی بینر پہ لکھ کر شہر کے چوراہوں پہ لٹکا دینا عین مستحب ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کا ماضی کبھی عوام سے چھپا ہوا تھا ہی نہیں۔آج بھی اگر ان کی ہر ادا خبر بن جاتی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک اسٹار ہیں۔کوئی انتہائی متعصب اور جانبدار مخالف بھی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ جو شہرت ان کے حصے میں آئی وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔دنیاوی شہرت اور عزت کا کون ساپیمانہ ہے جس پہ وہ پورا نہیں اترے۔وہ جس آسمان پہ چمکے کوئی ستاروں سے خالی آسمان نہیں تھا۔ ویون رچرڈز، رچرڈ ہیڈلی ، ڈینس للی، چیپل برادرز، گواسکر اور کتنے ہی ستاروں کی کہکشاں تھی جو جگمگا رہی تھی۔ یہی حال بھارت کی فلمی دنیا کا تھا جو ابھی بالی ووڈ نہیں کہلاتا تھا۔شہرت کی دیوی لیکن کسی کے قدموں پہ سجدہ ریز رہی تو وہ عمران خان ہی تھے۔برطانیہ کے طبقہ اشرافیہ کی خواتین ان کی ایک نظر التفات کی منتظر رہتیں۔ والد صاحب کرکٹ کے ایسے دیوانے تھے کہ کاونٹی میچ بھی قضا نہیں کرتے تھے۔، ان کا اکثر لندن آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ جس ہوٹل میں پاکستانی ٹیم کا قیام ہوتا تھا وہاں دور تک فٹ پاتھوں پہ برطانوی حسینائیں عمران خان کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیٹھی ہوتی تھیں۔ گولڈاسمتھ خاندان کی بیٹی کے لئے ان کا عمران خان ہونا کافی تھا جس سے شادی ان کے لئے زندگی بھر کے لئے یہودی ایجنٹ ہونے کی تہمت بن گئی۔ برطانوی شاہی خاندان انہیں اپنی دعوتوں میں مدعو کرنے پہ فخر محسوس کرتا تھا اور عوام ان کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتی تھی ۔جنہوں نے عمران خان کے عروج کا زمانہ دیکھا ہے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے عروج کا زمانہ ابھی ختم نہیں ہوا۔شہرت کی دیوی صرف مہربان نہیں ہوئی بلکہ ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ان کا لال کرتا میڈیا سے بچتا ہے ، نہ پشاوری چپل ۔جو لوگ شہر نبی ؐ میں ان کے احتراماً ننگے پاؤں اترنے کو شہرت حاصل کرنے کا حربے سمجھتے ہیں وہ نہ صرف بہتان کے مرتکب ہوتے ہیں عمران خان کی کرشماتی شہرت کے انکار کرنے کی احمقانہ کوشش بھی کرتے ہیں جو اصولی طور پہ غیر حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ان کی ہر حرکت نوٹ کی جاتی ہے اورمداحین و مخالف اسے لے اڑتے ہیں۔یہ دراصل عمران خان کی دل کھینچ لینے والی شخصیت کا اعتراف ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آپ اس پہ واری صدقے جائیں گے یا کف اڑاتے پل پڑیں گے اس سے کم کچھ عمران خان کے حصے میں آیا ہی نہیں۔دوسری وجہ ان کے ناقدین کی ان کی حرکات و سکنات پہ نظر رکھنے کی یہ ہے کہ انہوں نے کرپشن، بدعنوانی اور وراثتی اور روایتی سیاست کے خلاف جس طرح محاذ سنبھال رکھا ہے اس نے ان کے مخالفین کو مجبور کردیا ہے کہ وہ ان کے ہر عمل کا تقابلی جائزہ لیتے رہیں کہ کہیں خان صاحب بھی وہی حرکتیں تو نہیں کررہے جو روایتی سیاست دان کرتے آئے ہیں اور جس کے لئے بدنام ہیں۔اسی لئے کبھی جہانگیر ترین کا طیارہ تنقید کی زد میں آتا ہے تو کبھی حالیہ دورہ سعودی عرب میں ان کا جہاز جس کا انتظام وہاں تحریک انصاف کے کارکنوں نے ان کے لئے کیا۔ان کے مخالف کبھی ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے اور میرٹ کے مسئلے پہ ایسی گھمسان کی جنگ کرتے ہیں جیسے یہ انہوں نے ان سے ٹکٹ چھین کر اپنے منظور نظر کو پکڑا دیا ہو۔ انہیں اپنی پارٹی کے امیدواروں کا علم نہیں لیکن تحریک انصاف کے ایک ایک حلقے سے کس امیدوار کو ٹکٹ دیا گیا ہے یہ علم ہے اور کس کو کیوں نہیں دیا گیا اس پہ اعتراضات کا ایک انبار بھی موجود ہے۔ عمران خان نے شادی کیوں کی کس سے کی طلاق کیوں دی اور اب تک دی کیوں نہیں، حالت احرام میں جرابیں کیوں پہنیں،الیکٹیبلز کو ٹکٹ کیوں دیئے جیسے ہر ایلکٹیبل غبن کر کے بھاگا ہو۔پارٹی کارکنوں کو کیوں نظر انداز کیا حالانکہ یہ وہی نظریاتی کارکن ہیں جو دن رات سوشل میڈیا پہ ان ہی کی طرف سے ناقابل بیان دشنام طرازی کا شکار ہوتے ہیں، اور ہاں عمران خان نے کے پی کے میں کیا کرلیا؟ وجہ وہی ہے کہ وہ بھی عمران خان سے اس کی توقع نہیں کرتے ۔ انہیں نواز شریف، زرداری اور اپنے دیگر رہنماوں کی متفق علیہ کرپشن پہ کوئی اعتراض نہیں کہ وہ کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں۔کسی کے پاس یہ اعتراض نہیں ہے کہ عمران خان نے کرپشن کی ہے، اربوں روپے ملک سے باہر بھیجے ہیں یا صوبے کے ترقیاتی منصوبوں میں ہیرپھیر کی ہے۔عمران خان پہ اس اعتماد کا شکریہ ۔ اب عمران خان کا شکریہ تو بنتا ہے جس نے یہ سوال کرنے کا انہیں شعور دیا جو سوال کرنا جانتے ہی نہیں تھے۔شکریہ عمران خان۔