مغربی ممالک کی نسبت ایشائی ممالک اورخصوصاً بر صغیر پاک و ہند میں صحافت روز ازل سے مشکلات کا شکار رہی ہے بر صغیر کی تاریخ میں بڑے نامور لوگ اِس عظم شعبہ کے ساتھ وابستہ رہ چکے ہیں جن کا تاریخ میں نام زندہ ہے ۔صحیح معنوں میں صحافی ہونا اعزا ز سے کم نہیںوہی شخص ہی اِس شعبے میں آسکتا ہے جس کی غیرت زندہ ہو اور جوخود داری کے ساتھ فاقہ مستی کرنا بھی جانتا ہو ۔ آج جس طرح سے ہمارے ملک میں صحافت ہو رہی ہے اور جس قماش کے لوگ اِس کے ساتھ وابستہ ہیں سب کے سامنے ہے ۔موبائل نے تو صحافت کا جو تھوڑا بہت بھرم رہ گیا تھا اُس کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ موبائل انڈسٹری نے صحافت خصوصاً پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کو بھی بہت زیادہ متاتر کیا ہے موبائل کی وجہ سے فلم انڈسٹری سے لے کر ہماری صنعتی انڈسٹری تک متاثر ہو ئی ہے۔ صحافی بننے کے لیے آج تو کوئی شرط اور تعلیمی قابلیت نہیں رہی پہلے وقتوں میں علاقائی صحافی بننے کے لیے بھی بڑے سخت صحافتی قوانین ہوا کرتے تھے۔ پرنٹ میڈیا کے مالکان کسی بھی ضلع میں اپنا نامہ نگار کسی ایسے شخص کو مقرر کرتے تو پہلے اس شخص کی تعلیمی قابلیت اور پھر اُس کے ساتھ اُس کے کردار کی بھی چھان بین ہوا کرتی تھی لیکن گزشتہ چند برسوں سے ما سوائے چند ایک اخبارات کے باقی سب نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور یوں چھوٹے بڑے اضلاع بلکہ تحصلیوں اور دیہی علاقوں میں بھی بڑے بڑے اخبارات کے نمائندے مقرر ہونے لگے اِن نمائندوں کی نہ تو تعلیمی قابلیت دیکھی گئی اور نہ ہی اُن کے کردار۔ یوں ایک عظیم شعبہ کہ جس کے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ، آغا شورش کاشمیری ، حمید نظامی ، بابا ظہور عالم شہید ، ابراہیم جلیس جیسے عظیم لوگ وابستہ ہوا کرتے تھے اور اب اسی شعبہ پر فیس بک جس کا دُور سے بھی صحافت کے ساتھ تعلق نہیں وہ بھی صحافی بنا ہوا ہے اور سوشل میڈیا کے بے قابو جن کے ذریعے جس طرح سے چاہتا ہے دوسروں کی پگڑی اچھالتا ہے اور پھر اُسی فیس بک کے ذریعے جب مخالف فریق سے اپنی دلی مراد حاصل ہونے پر راضی ہو جاتا ہے تو اُس کے گیت گانا شروع کر دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں صحافت کا معیار اب بہت زیادہ گر چکا ہے ۔ معاشرے میں اِس وقت جتنی زیادہ اخلاقی گندگی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے وہ کسی اور ذرائع سے نہیں پھیلائی جا رہی ہر مرد ،عورت ،جو ان ،بوڑھے ،بچے ،بچیاں سب کے ہاتھ میں موبائل فون ہے اور وہ اپنی مرضی سے جب جی چاہے جو لکھنا اور بولنا اور دیکھنا شروع کر دیں کسی پر کوئی پابندی نہیں اور اگر کوئی پابندی اور ڈسپلن ہے تو وہ بڑے اخبارات کے لکھنے والوں کے لیے ہے کہ وہ اپنے اخبار کی پالیسی کے مطابق ہی لکھ سکتے ہیں وگرنہ پابندی لگا دی جاتی ہے کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ گذشتہ روز دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا گیا ہمارے ملک میں کہیں کہیں پریس کلبوں میں یہ دن منایا گیا لیکن سب نے اپنے اپنے مفادات کے لیے یہ منایا کسی نے بھی یہ احتجاج نہیں کیا کہ صحافت کی آڑ میں جو نام نہاد صحافی بن کر جاہل مافیا ہماری صحافت کو لوٹ رہا ہے اس کا نام استعمال کر کے 10 نمبر دھندے کر رہے ہیں کیا کبھی ایسے نا سوروں کے خلاف بھی کوئی حکومت کاروائی کرئے گی؟ کیا صحافت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ ہر دوسرا ، بلیک میلر بغیر کسی تعلیمی قابلیت اور بغیر کسی ڈپلومہ یا لائسنس حاصل کیے اِس میں داخل ہو جائے ؟ ہاں جی آج ایسے لوگ ہی اپنے آپ کو بڑا صحافی سمجھتے ہیں کہ جنہوں نے بڑی بڑی گاڑیوں کے آگے پریس کی تختیاں لگائی ہوئی ہیں اور اُن کے ہاتھوں میں لاکھوں روپے کے آئی فون ہوتے ہیں ۔ جب کہ تعلیم انسانیت اور کردار نام کی کوئی چیز اِن میں نہیں ہوتی یہ صحافی بن کر صرف اپنے نا جائز دھندوں کا دفاع اور اعلیٰ افسران کی دن رات خوشامد کرنے کے اور کچھ نہیں کر تے اور صحافیوں کی ایک اور قسم کی بھی حالیہ دنوں دریافت ہوچکی ہے کہ جو صحافت کی آڑ میں قبضہ گروپ بن کر کمزور اور بے بس لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے اچھی خاصی دولت کما رہے ہیں بلکہ ایسے بونے صحافی پٹواری بادشاہ سے لے کر اعلیٰ افسران تک کو اپنے جعلی صحافتی عکس کے ذریعے مرعوب کر کے بڑی با آسانی سرکاری لینڈ پر قبضہ کرنے میں دیر نہیں لگاتے آئیں آج صحافت کے عالمی دن کے موقع پر ہم یہ عہد کریں کیہ اپنے اِس عظیم شعبہ کی اِن بنارسی ٹھگوں سے حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پر عزم جدوجہد جاری رکھیں گے جبکہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے ایک پرزور مطالبہ ہے کہ وہ ملک کو ہر طرح سے ٹھیک کرنے کے لیے دن رات اعلان کرتے رہتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ اِس ملک کو کہاں تک ٹھیک کر سکے لیکن وہ اِس کالم کی وساطت سے اصل صحافیوں پر اتنا تو احسان کر دیں کہ ملک کے تمام اضلاع میں کسی بھی اخبار یا ٹی وی چینل سے وابستہ افراد کے لیے صرف اور صرف بی اے پاس ہونے کی شرط عائد کر دیں تو وزیر اعظم صاحب آپ کو ہر ضلع سے مبارک باد کے پیغام موصول ہو نگے کہ اضلاع اَن پڑھ اور صحافیوں پر پابندی لگنے کے بعد پر امن اورخوشحال ہوچکے ہیں بعینہ اِسی طرح سے سوشل میڈیا کے بے قابو جن پر بھی فوری پابندی لگائی جائے آپ کے اِس اقدام سے ہمارا پورا ملک جھوٹی اور بے بنیاد خبروں سے پاک ہو کر امن کا گہوارہ بن جائے گا اور آپ کی یہی نیکی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گی ۔