ربیع الاوّل کی ان بابرکت ساعتوں میں امریکہ کی گل و گلزار ریاست ورجینیا سے ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری کے نعتیہ مجموعے’’مُصحفِ ثنا‘‘کی نوید میسر آئی،جو یقینا لَائقِ صد مبارکباد امر ہے۔حضرت ڈاکٹر ظفر اقبال نوری کی شخصیت،عقیدت مندی کے ساتھ تحقیق پسندی سے بھی مزین ہے۔قدرت نے انہیں محبت و ارادت سے آراستہ جذبوں کے اظہار کا سلیقہ اور قرینہ عطا کر رکھا ہے۔ان کا مدحیہ کلام فکری خوبیوں کے علاوہ فنی محاسن سے بھی مالا مال ہے۔وہ الفاظ کے موزوں اور برجستہ استعمال کے ہنر سے خوب آگاہ ہیں،آپ کے نعتیہ اشعار،حسبِ موقع قرآنی تلمیحات سے بھی منور ومعطر ہوتے ہیں۔آپ چونکہ،محض مسلم الثبوت شاعر ہی نہیں بلکہ معروف محقق اور مستند سیرت نگار بھی ہیں، اس لیے آپ نے روایتی نعتیہ مضامین کے ساتھ،اس صنف میں نئے افق دریافت کر کے،اس دائرے کو مزید وسعت دی ہے،’’مُصحفِ ثنا‘‘کا انتسابِ اوّل،بابِ شہر علم امیر المومنین سیّد نا و مولا علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ الکریم کے اس جاں نواز،دل گداز،لازوال ہدیہ نعت کے نام کیا ہے،جو عصر درعصر صحفِ ثنا کا امام ٹھہرا: ’’یقول ناعتُہ‘ لَمْ اَ ریٰ قبلہ‘ و لا بعدہ‘ مثلہ‘‘ یعنی (یا رسول اللہ ﷺ )’’آپ کی نعت (اوصاف) بیان کرنے والا یہی کہتا ہے کہ آپ جیسا میں نے پہلے دیکھا نہ بعد میں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کا انتسابِ ثانی،حضرتِ اعلیٰ پیر سیّد مہر علی شاہ گیلانی گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی شہرۂ آفاق ارمعانِ درد و سوز نعت’’اج سک متراں دی ودھیری اے‘‘کے نام کیا ہے،جس کے متعلق ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس کلام کو میرے دادا جان چوہدری علی محمد رحمۃ اللہ علیہ صبح و شام وظیفہ جان کر پڑھتے تھے اور انہی کی مدھ بھری آواز نے مجھے بچپن ہی میں ذوقِ نعت بخشا اور طلیبِ ثنائے سرورِ عالمیان ﷺ بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی پُرنور شخصیت کی پرداخت میں حضرت قبلہ شاہ جی کی عظیم المرتبت ذات کلیدی کردار کی حامل ہے ۔بنا بریں’’مصحفِ ثنا‘‘کا ابتدائیہ اور دیباچہ’’درد و سوز کی آبِ جُو‘‘کے عنوان سے ان کے قیمتی افکار و خیالات سے آراستہ ہوا،جس میں وہ فرماتے ہیں کہ نعتیہ ادب عقیدت کی گہرائی سے پھوٹتا ہے۔ خورشیدِ محبت سے امڈتی،بکھرتی جذبات کی حیات بخش کرنیں،اس کی نشوونما کرتی ہیں۔پاکیزہ تصورات اس کی رونمائی کرتے ہیں۔ بے تاب حروف حقیقتوں کے پیکر تراشتے ہیں۔ انسان اگر جنتِ نعت میں اپنے حصے کا مقدر پا لے تو پھر ایک شاعرِ حزیں کو حضوری نصیب ہو جاتی ہے۔ یہیں سے بے نوائی کو نوائے شوق کی منزل نصیب ہوتی ہے۔اور وہ بارگاہِ حق سے توفیق ثنا گوئی پا جاتا ہے۔خوش بخت ہیں وہ زبانیں جو مدحتِ شاہِ خوباں ﷺ کے موتی رولتی ہیں۔ بابرکت ہیں وہ قلم جن کی روشنائی سے ثنائے خواجہ گیہاں ﷺ کے رنگا رنگ نقش ابھرتے ہیں اور سعادت مند ہیں وہ شعراء جن کے زبان و قلم و قفِ ثنائے حبیب ﷺ رہتے ہیں۔ انہی خوش نصیب،اربابِ توفیق،مدحتِ گراں پیغمبر ﷺ میں ایک خوبصورت نام ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نوری کا بھی ہے۔ جنہیں میں ان کے عنفوانِ شباب سے جانتا ہوں۔ وہ میرے عزیز تلمیذ بند ہیں۔ انہوں نے مجھ سے تفسیر قرآن پڑھی ہے۔ اگر نعتیہ ادب کے محرکاتِ قدس میں عقیدت و عشقِ رسول محبت و مؤدتِ نبی ﷺ اور ادب و احترامِ پیمبر ﷺ شامل ہیں تو ظفر اقبال نوری کو یہ دولتِ سرمدی اوائل عمر ہی سے عطا کر دی گئی تھی اسی دور کا ان کا یک شعر اب بھی مجھے خوشگوار لگتا ہے: سانسیں پڑھیں سلام، پڑھیں دھڑکنیں درود حاصل مجھے وہ لذّتِ عشقِ رسول ہو حضور صاحب محامد کثیرہ سے محبت کرنا،آپ کی سیرت کی جستجو کرنا، آپ کے میلانات اپنانا،آپ کی حیاتِ نور کو سمجھنا آپ کی دعوتِ کریمانہ کو سننا،آپ کے ایک ایک عمل کو محفوظ کرنا، اور آپ کے علمی و دینی سرمایہ کو اگلی نسلوں کی طرف منتقل کرنا،تقاضائے شریعتِ مطہرہ کا اولین مقصود ہے،اور قرآن مجید نعتِ رسول ﷺ کا ایک انمٹ اور لازوال نقش ہے۔اسی مناسبت سے ظفر اقبال نوری کا اپنے سرمایۂ زیست مجموعۂ نعوت کو مصحفِ ثنا کا نام دینا بہت بھلا لگا۔ حُبِّ رسول ﷺ کو خوشبوؤں سے مہکتا،معطر ومطہر مجموعۂ نعت’’مصحفِ ثنا‘‘پڑھ کر میں بہت محظوظ ہوا ہوں۔ اس کے کلماتِ حکمت ، الفاظِ محبت اور حروف طیب بہت بلند ہیں۔ اس گنجینۂ نعت کی بابت میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اس کا سوز و گداز وجود کو منور کرتا ہے، اور صاحب کلام کی سوچوں کے نقش قاری کو متوجہ کرتے ہیں۔ ظفر اقبال نوری کا درد و سوز کسی آبجو کی طرح پورے دیوان میں نعت در نعت اور مصرع در مصرع خرامِ ناز کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ نوری صاحب جیسے خود جمال پسند اور جمال بھری ادائیں رکھتے ہیں اسی طرح ان کی شاعری کے سینہ میں بھی حُسن دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔ مصحفِ ثنا میں شامل نعوت ، نعت برائے نعت ، نعت برائے زندگی اور زندگی برائے نعت کا حسین مرقع ہیں۔ کتاب کا آغاز انہوں نے حمد سے کیا ہے جس کا لطفِ لطیف قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے ۔ صبا کے لبوں پر تری گفتگو ہے مہکتی چمن در چمن مشکبو ہے مچلتی دلوں میں تری آرزو ہے جسے دیکھوں اس کو تری جستجو ہے پہلی نعت کا مطلع بھی حُسنِ آغاز اور بہ توفیق ایزدی اوجِ کمال کی خبر دیتا ہے۔ یک زباں آج ہوئے نطق و قلم بسم اللہ دل کی تختی پہ کروں نعت رقم بسم اللہ ظفر اقبال نوری کا یہ نعتیہ دیوان پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی سوچ، فکر ، فن کو ثنائے حبیب خدا میں گم کر دیا ہے۔ ان کے ہاں اپنی کیفیاتِ ہجر اور استغاثہ کم اور حضور شاہِ خوباں ﷺ کی تمدیح و تنعیت زیادہ ہے۔ نعت برائے نعت کی ایک شہکار نعت کے اشعار دیکھیے۔ محمد اوّلیں تخلیق یعنی محمد آخریں تصدیق یعنی پوری کتاب میں ایک تاثر جو بار بار ابھرتا ہے وہ صاحب کتاب کی آلِ رسول سے کمال درجے کی محبت ہے۔ جسے وہ مختلف پیرایہ اظہار میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ صد شکر کہ منگتا نہیں شاہانِ زمن کا دامن میں تری آل کی خیرات بہت ہے تیرے حسنین ہوں، حیدر ہوں، کہ زہرا بی بی تیری نسبت سے ہر اک ذات ہے اعلیٰ افضل اہل بیتِ رسول ﷺ اور اصحاب النبی ﷺ کا ذکر ساتھ ساتھ کرتے ہیں: تیرے اصحاب ہدایت کے ستارے آقا کشتیٔ نوح سدا تیرے گھرانے والے مصحفِ ثنا کی نعتوں میں قاری کو قرآن اور سیرت کے عنوان پر بھی کئی دل نوا نعتیں نظر آتی ہیں جو قلب و روح پر سرشاری طاری کرتی ہیں۔