پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جو اپنے جی ڈی پی کا انتہائی قلیل حصہ صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ سرمایہ داری کے اپنے معیارات یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق حکومتوں کو جی ڈی پی کا کم از کم 6 فیصد صحت پر خرچ کرنا ضروری ہے جبکہ پاکستان پچھلے 11 سال سے صرف 0.5 فیصد سے 0.8 فیصد صحت پر خرچ کر رہا ہے۔ صحت کی سہولیات کے حساب سے 195 ممالک میں پاکستان 154ویں نمبر پر آتا ہے جس میں انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھوٹان بھی پاکستان سے آگے ہیں۔پاکستان میںسالانہ 216000 بچے پیدائش کے پہلے ماہ ہی اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کو اپنی جیب سے علاج خریدنے کے لئے بھاری رقوم خرچ کرنا پڑتی ہیں۔ ڈاکٹرز کی تعداد کے حساب سے پاکستان میں 1200 افراد پر صرف ایک ڈاکٹر میسر ہے۔ صرف ڈاکٹرز ہی نہیں بلکہ پیرامیڈک اسٹاف بھی مناسب تعداد اور مکمل تربیت کے ساتھ میسر نہیں ہے۔ پورے ملک میں ایک بھی ایسا سرکاری سول یا ملٹری ہسپتال نہیں جہاں یہاں کے حکمران طبقات یا سرکاری افسر شاہی اپنا علاج کرانا پسند کرے۔ پاکستان جیسے معاشروں میں صحت کی ایسی سہولیات جو ایک انسان کا حق ہونی چاہئیں فراہم کرنے کے لئے جتنے بڑے پیمانے کی سرکاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اس کے بارے میں اِس نظام کے تحت سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ اس نظام میں اتنے وسائل ہی پیدا نہیں ہو سکتے۔ ہزاروں نئے ہسپتال اور لاکھوں کی تعداد میں نئے ڈاکٹر اور نرسز درکار ہیں۔ پرائمری سطح پر لاکھوں ہیلتھ یونٹ تعمیر کرنے ہوں گے۔ طبی تحقیق کے نئے ادارے کھڑے کرنا ہوں گے۔ ایسا سماجی انفراسٹرکچر اور نظامِ صحت متعارف کروانا ہو گا جو انسان کو بیمار ہونے ہی نہ دے۔ یا ہر فرد کے باقاعدہ طبی معائنے کے ذریعے بیماری کو شروعات میں ہی قابو کر لیا جائے۔ نجی ہسپتالوں اور ادویات کی کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کے باہم مربوط کرنا ہوگا۔ اس سب کے لئے جتنا پیسہ درکار ہے وہ شاید اِس ریاست کے مجموعی وفاقی اور صوبائی بجٹوں سے بھی تجاوز کر جائے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میںنچلی سطح پر ڈسپنسریاں اور ہسپتال اول تو موجود نہیں اور اگر ہیں بھی تو ان کی حالت یہ ہے کہ ایک ایک بیڈ پر کئی کئی مریض لیٹے ہیں۔ صحت کا پرائمری اور سیکنڈری نظام کم و بیش ناپید ہے۔ اسی وجہ سے بڑے ہسپتالوں میں حد سے زیادہ بوجھ ہے اور مریض تبھی ہسپتال تک پہنچتے ہیں جب بیماری کو قابو کرنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ مریض ہسپتالوں کے باہر قطاروں میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پسماندہ علاقوں سے ٹرشری ہسپتالوں تک پہنچنے کے لئے نہ تو مناسب سڑکیں ہیں نہ ہی کوئی مناسب ٹرانسپورٹ۔ شدید اور حساس نوعیت کی بیماریوں میں مبتلا افراد کو بھی گدھے گاڑیوں، گھوڑا گاڑیوں یا ریڑھیوں پر ڈال کر ہسپتالوں تک لانا پڑتا ہے ۔ ڈاکٹر مریضوں کو سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ اپنے نجی کلینکس میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتال ویسے ہی ضرورت سے انتہائی کم اور زبوں حال ہیں اور جہاں ہیں وہاں عملہ نہیں ہے اور اگر عملہ ہو تو دوائیں دستیاب نہیں ہیں اور اگر دوائیں بھی ہوں تو ان میں سے زیادہ تر جعلی یا گھٹیا معیار کی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستانی مارکیٹوں میں بکنے والی 45فیصد ادویات جعلی ہوتی ہیں۔ ملک میں 4000 ادویات بنانے والے ادارے رجسٹرڈ ہیں جبکہ 100,000 سے زائد ادارے ادویات بنا کر بیچ رہے ہیں جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ سرکاری شعبے کی مسلسل زبوں حالی کی وجہ سے نجی ہسپتال کینسر کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے نجی ہسپتالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے موت کا ننگا ناچ اور وحشت انگیز ہوتا جا رہا ہے۔ کسی سنگین بیماری میں مبتلا کوئی شخص مقروض ہوئے بغیر علاج نہیں کروا سکتا۔ زندگی بھر کی جمع پونجی لٹائے بغیر بھی ضروری نہیں کہ وہ شفایاب ہو پائے۔ پیشہ ورانہ نااہلی یا غفلت کو ہمیشہ کی طرح قسمت پر ڈال دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف دواؤں کی کمپنیوں کی لوٹ مار ہے۔ ڈاکٹروں کو سرِ عام رشوت دی جاتی ہے اور اسے تحائف کا نام دیا جاتا ہے۔ بڑے ڈاکٹروں کی بیرونِ ملک عیاشی سے لے کے ان کے بچوں کی میڈیکل کی تعلیم تک سب فارما کمپنیاں’’اسپانسر‘‘ کرتی ہیں اور بدلے میںبزنس لیتی ہیں۔ حال ہی میں ادویات بنانے والی کمپنیوں نے حکومت کو بلیک میل کر کے جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیاہے۔ میڈیکل اسٹور جو چاہے اور جہاں چاہے کھول سکتا ہے۔ دواؤں کے بھی اشتہارات چلائے جاتے ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کے اینکر خواتین وحضرات ویسے تو مائیک پکڑ کر ریڑھی والے کے منہ میں گھس جاتے ہیں، لوگوں کے گھروں میں کود جاتے ہیں، بھیس بدل کر فقیروں کو پکڑ لیتے ہیں لیکن ان معاملات پر کوئی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر کبھی بھول کر کی بھی جاتی ہے تو سارے مسئلے کو انتظامی بنا دیا جاتا ہے یا شخصیات تک محدود کر دیا جاتا ہے۔