کئی برسوں سے لگاتار کشمیری مسلمان تحریک آزادی کشمیرکے نامورہیروزافضل گورواورمقبول بٹ کی یاد میں 9تا11،اپریل کوعالمی ضمیرکوجھنجوڑنے کے لئے کشمیربند مناتے ہیں ۔کشمیرکا ہرشہید تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو اور روشن چراغ کے مانند ہے جو اپنی شہادت سے قبل اپنی لو سے بے شمارچراغ روشن کرتاہے۔سرزمین کشمیر پربھارتی جبروقہر کے باعث ایک کے بعد ایک چراغ گل ہوتاچلاجارہا ہے لیکن یہ چراغ ختم نہیں ہورہے۔اگرچہ کشمیرکے ہرشہیدکی شہادت کی الگ الگ کہانی ہے لیکن سب نے ایک ہی عظیم مقصد ’’کشمیرکی آزادی ‘‘کے لئے اپنے جانوں کانذرانہ پیش کیا ہے۔ چندیوم قبل تہاڑ جیل کے سابق آفیسر سنیل گپتا نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویومیں کہا کہ افضل گورو سے جینے کا حق چھینا گیا۔میں کئی بار ان سے ملا اوروہ ہر بارکہتے تھے کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔جیل آفیسرگپتاکا کہنا ہے کہ 9فروری 2013ء کی صبح جب محمد افضل گورو کو چائے پیش کی گئی اور تھوڑی ہی دیر بعد بتایا گیا کہ اب اپ کی زندگی کی آخری گھڑی ہے۔تو ان کے چہرے پر ایک پراعتماد مسکراہٹ آگئی۔یہ دیکھ کرمیں حیران ہوا ،اور چونک سا گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔اس کے بعد ایک اور حیران کردینے والا نظارہ میری آنکھوں نے دیکھا کہ وہ بغیر کسی خوف وڈر کے پھانسی گھاٹ کی جانب چل پڑے۔ جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آزادی کے متوالوں کو پھانسی کے پھندوں سے ڈرایا نہیں جاسکتا۔ بھارت کے حکمرانوں نے نہایت غیر انسانی اور غیر اخلاقی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوںکے جسدخا کی کو رسمی تجہیز و تکفین کے بغیر جیل کے صحن میں ہی دفن کر دیا۔ اس طرزعمل نے کشمیری مسلمانوں کے سامنے کئی ایسی حقیقتیں جن پر پردے پڑے ہوئے تھے واشگاف کردیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے ناقابل فراموش ہیرو زافضل گورواورمقبول بٹ بھارتی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 11فروری 1984ء کومقبول بٹ کودہلی کی تہاڑ جیل میں جبکہ 9فروری 2013ء کوشہیدکیاگیا۔ ان دونوں عظیم کی شہادتوںنے جیسے حریت کے پروانوں میں ایک نئی روح پھونک دی۔دونوں تعلیم یافتہ اور خوش گفتار شخصیتیں تھیں۔ مقبول بٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی ناپاک وجود کے خلاف عملی جدوجہدکی داغ بیل ڈالی اوراسلامیان کشمیرکوبھارتی غلامی سے نکلنے کے لئے مسلح جدوجہدکی راہ دکھائی ۔یہ وہ وقت تھا جب پوری دنیا میں آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور مقبول بٹ شہید اور ان کے رفقائے کار کا ان تحریکوں سے متاثر ہونا بھی ناگزیر تھا۔ڈوگرہ استبدادکے خلاف کشمیری مسلمانوں کے اعلان جہاد کے بعد یہ پہلاموقع تھا کہ جب مقبول بٹ نے12جولائی 1965ء کو میر پور میں محاذ رائے شماری کے ایک پروگرام میں عسکری ونگ کی تجویز اور قرارداد پیش کی تاکہ جلد سے جلد ریاست جموں کشمیر کو ہندوسامراج کے چنگل سے آزادی دلائی جا سکے۔آپ مقبوضہ کشمیرمیںمئی 1976ء کو ایک ہندوبینک کلرک کے قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور11فروری 1984ء کی صبح مقبول بٹ شہید کو تختہ دار پر جھلا دیا گیا۔آپ کے آخری الفاظ تھے مجھے کل پھانسی دے دی جائے گی اور مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ میں اپنے لوگوں سے محبت کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ اس سچائی اور حق کو جان جائیں گے جس کے لیے میں لڑتا رہا اور جس کے لیے میں آج خود کو قربان کر رہا ہوں۔ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والے افضل گورو کی آنکھوں میںکشمیرکی آزادی کے خواب تھے۔ ان کے سارے خواب اور آرزوئیں اس وقت بکھرگئیں جب افضل گورو کو2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پرمسلح حملے کے الزام میںگرفتار کیا گیااور2013ء میں دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھایا ۔ افضل گورو کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اب ہر کشمیری، کے اندر ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ہے۔ جو بھارتی ریاستی دہشت گردی تو جھیل رہے ہیں لیکن ان کے دلوں میں روشن آزادی کی شمع کو مودی اورنہ ہی اس کی فوج بجھا نہیں پائی۔ کشمیریوں کوقتل کرکے دلی کا تخت اس طرح چپ بیٹھ جاتاہے کہ جیسے دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ ۔ مگرایسے میںکشمیری خاموش نہیں رہ سکتے ہیں۔کشمیریوں کویقین ہے کہ ان کاخون کبھی رائیگان نہیں جائے گا۔ افضل کی حراستی شہادت ستم رسیدہ اہل کشمیر کے دلوں کوگہرا زخم دے گئی تاہم جس وقاراورسکون کے ساتھ افضل نے تختہ دارکوچوما اس سے کشمیر کی نئی نسل کوحوصلہ ملا ۔ کشمیریوں کے ایمان ویقین میں مذید اضافہ ہوا۔ کشمیریوں کاعزم وہمت دیکھ کرقاتل دھنگ ہے کہ جوکٹ مرکربھی حق وانصاف کی علم کوتھامے ہوئے ہیں ۔ زندہ قومیں کبھی ہمت نہیں ہارمانتیں۔واضح رہے کہ آج سے36 برس قبل11 فروری 1984 ء کو کشمیر کے معروف اورعظیم آزادی پسند راہنمامقبول بٹ کو بھی دلی کی تہاڑجیل میں ہی پھانسی دی گئی تھی اوران کے جسد خاکی کو تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔ محمد مقبول بٹ شہید نے میدان عمل میںاترکر باہمت حریت پسند ہونے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ وہ ایک بہادر اور باہمت حریت پسند تھے، جنہوں نے کشمیری قوم سے متعلق کئی طرح کے مفروضوں کو غلط ثابت کردیا۔ سچی بات یہ ہے کہ افضل گوروکے جوڈیشل اورمقبول بٹ کے حراستی قتل سے بھارت نے اہل کشمیر یوںکویہ پیغام دیا کہ بھارت کی نظروں میں کشمیریوں زندگیوں کی کوئی اہمیت نہیں ۔لیکن کشمیری بھارت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حق کے حصول کے معاملے میں بھارت کے سامنے کبھی سپرانداز نہیں ہونگے۔ کشمیر یوں کوسولی پرچڑھاکر کشمیریوں کے سرقلم کر کے ن ہی اب بھارت کی سیاسی پارٹیاںکرسی اقتدار تک پہنچنے کی تگ ودوکررہی ہیں۔لیکن یہ ایک ایسا مکروہ دھندہ ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔