چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرکے دنیا کو چونکا دیا جس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی کیونکہ سعودی عرب اور ایران کئی دہائیوں سے علاقائی حریف رہے ہیں۔ چین کے نئے بلاک نے عالمی قوت کے توازن کا نیا منظر نامہ بنانا شروع کردیا، بلا شبہ یہ ایک دو دن کی بات نہیں اس میں کڑی محنت اور کئی ایسے صبر آزما مراحل آئے ہیں جنہیں رفع کرنے کے لئے چین اور سعودی عرب نے پاکستا ن سمیت اپنے دوست ممالک کو بھی اعتماد میں لیا ہوگا۔دونوں ممالک کے درمیان سفارتی، معاشی بحالی کے اثرات مشرق وسطیٰ میں ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ ان کے درمیان کشیدگی خطے میں تنازعات اور عدم استحکام کا ایک بڑا محرک رہی ہے۔ برسوں سے امریکہ خطے میں ایک اہم کھلاڑی رہا ہے اور اپنی فوجی اور اقتصادی طاقت کو مشرق وسطیٰ کی سیاست اور سلامتی کی حرکیات کو تشکیل دینے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ تاہم، امریکہ کو حالیہ برسوں میں بڑھتے ہوئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس میں روس اور دیگر طاقتوں سے بڑھتی ہوئی مسابقت بھی شامل ہے۔ اگر سعودی عرب اور ایران اپنے تعلقات کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے ممکنہ طور پر انہیں امریکہ پر انحصار کم کرنے کے لئے مزید مواقع ملیں گے، جو ممکنہ طور پر خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ اسی طرح روس حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ میں بھی تیزی سے سرگرم ہوا ہے اور اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی فوجی اور سفارتی طاقت کا استعمال کرتا رہا ہے۔ اگرچہ سعودی عرب اور ایران تاریخی طور پر ایک دوسرے کے حریف رہے ہیں لیکن علاقائی استحکام اور سلامتی کے حوالے سے ان کے مفادات مشترک ہیں تعلقات کے بحالی کی کسی بھی کوشش کی کامیابی غیر یقینی تصور کی جا رہی تھی تاہم، مفاہمت کے ممکنہ طور پر عظیم تر مشرق وسطی میں طاقت کے توازن پر اہم اثرات مرتب ہو ں گے، ممکنہ طور پر صرف وقت ہی بتائے گا کہ یہ مفاہمت کس قدر کامیاب اور مستقل رہے گا اور خطے کے لئے طویل مدتی مضمرات کیا مرتب ہو سکتے ہیں۔ خطے کے کئی ممالک پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک ملک جو فائدہ اٹھا سکتا ہے وہ عراق ہے، جو طویل عرصے سے سعودی ایرانی کشیدگی کی زد میں رہا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات عراق میں تناؤ کو کم کر سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر خطے میں زیادہ استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایک اور ملک جو فائدہ اٹھا سکتا ہے وہ شام ہے، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تباہ کن خانہ جنگی میں پھنسا ہوا ہے۔ اس تنازع کو سعودی ایران تنازعات کی وجہ سے تقویت ملی اور ہر ملک اس تنازع میں مختلف فریقوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اگر دونوں ممالک تعلقات کو مضبوط بناتے ہیں تو اس سے تنازع میں ان کی شمولیت کم اور ممکنہ طور پر اس کے حل کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ یمن اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک، جن میں کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، سعودی ایران میں کشیدگی کی کمی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کے مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن اس سے کئی ممالک کے مفادات کو بھی زک پہنچنے کا احتمال ہے۔ اسرائیل طویل عرصے سے ایران کو اپنی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا رہا ہے، گو امریکہ تاریخی طور پر سعودی عرب کا اہم اتحادی رہا ہے اور دونوں ممالک نے خطے کے مختلف معاملات پر مل کر کام کیا ہے، لیکن چین کے کردار اور امریکہ کی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کی کوششوں کو زبردست دھچکا پہنچا ہے۔ بحرین جو سعودی عرب کے ساتھ قریبی اور طویل عرصے سے ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات رکھتا ہے۔ اسرائیل اور بحرین میں سفارتی تعلقات 2020میں بحال ہوچکے ہیں، اسرائیلی مفادات کو کاری ضرب لگنے کا خدشہ ہے۔ مصر اور اردن جیسے خطے کی بہت سی سنی عرب ریاستیں تاریخی طور پر سعودی عرب کے ساتھ وابستہ رہی ہیں اور ایران کو ایک خطرہ سمجھ کر امریکہ اور اسرائیل پر انحصار کر رہی ہیں، اب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بحالی ممکنہ طور پر علاقائی طاقت کی حرکیات میں تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں اور ان ریاستوں کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تاریخی کشیدگی کی کمی کے پاکستان پر اہم اثرات مرتب ہو ں گے۔ کیونکہ پاکستان ایک ایسا ملک جس کے تاریخی طور پر دونوں ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ پاکستان تیل اور گیس کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، اور سعودی عرب اور ایران دونوں ان وسائل کے بڑے پروڈیوسر ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے دونوں ممالک کی داخلی اور خارجی معاملات میں مداخلت کے خاتمے سے ممکنہ طور پر پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی کم ہوگی اور زیادہ سے زیادہ استحکام بڑھے گا۔ پاکستان نے تاریخی طور پر سعودی ایران دشمنی میں غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ اکثر خود کو درمیان میں پھنسا ہوا پایا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات ان کی خارجہ پالیسیوں میں زیادہ صف بندی کا باعث بن سکتے ہیں، جس سے ممکنہ طور پر پاکستان کو حکمت عملی اختیار کرنے کا زیادہ موقع ملے گا اور علاقائی تنازعات میں اس کے پھنسنے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ سلامتی اور دفاع سے متعلق امور پر پاکستان روایتی طور پر سعودی عرب کے ساتھ زیادہ قریبی تعلقات رکھتا ہے، اگر سعودی عرب کو ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہے تو پاکستان کو دونوں ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو احتیاط سے متوازن کرنے کی ضرورت ہوگی کیونکہ براہ راست اثرات مملکت کے پڑوسی ممالک بھارت اور افغانستان پر بھی اثر انداز ہوں گے۔