آج 29 جمادی الاول 1443ھ ،میرے والد گرامی، اللہ ان کی قبر پر کروڑھا رحمتیں نازل فرمائے، کا یوم وصال۔ طارق سلمان پوری نے ’’جامع فضیلت‘‘ کے عنوان سے سال وصال پر پورا قطعہ آویزاں کیا: علی المرتضیٰؓ کے باغ کا پھول ازل سے خاندانی باسعادت طریقت کے فلک کا ماہ تاباں جہاں افروز خورشید ولایت خدائے پاک نے اس کو عطا کی مقدس زندگی پاکیزہ سیرت وصال بندہ حق آشنا کی رقم تاریخ کی ’’جامع فضیلت‘‘ 1434ھ وہ واقعتاً جامع فضیلت تھے۔ گزشتہ برس ان کے یوم وصال پر الحاج سرور حسین نقشبندی کا کہا ہوا خوبصورت کلام: فدائے حسن رخ یار حضرت فاضلؒ محبتوں کا ثمن زار حضرت فاضلؒ عطا کے پھول جہاں کھل رہے چاروں طرف عنایتوں کا وہ گلزار حضرت فاضلؒ عجیب قریہ تسکین ہے غلاموں کو جہاں ہے آپ کا دربار حضرت فاضلؒ خدا نے ان کو ہر شے سے بے نیاز کیا جو آپ کے ہیں طلب گار حضرت فاضلؒ نہیں ہے فکر مجھے یورش زمانہ کی میرے ہیں آپ نگہدار حضرت فاضلؒ مٹھاس میرے خیالوں میں گھل گئی سرور کہا زباں نے جو اک بار حضرت فاضلؒ آج دس برس ہونے کو ہیں لیکن ان بیتے دنوں میں کوئی لمحہ بھی ان کے فیض محبت و صحبت کے تشکر و اعتراف سے خالی نہ گیا‘ ان کی ایک سالانہ تقریب عرس میں جب میں پھولوں سے بھرے طشت ان کی بارگاہ میں پیش کر رہا تھا تو کسی دوست نے حیرت زائی میں استفسار کر دیا کہ گلاب و چنبہ و یاسمن کے اتنے انبار۔۔۔تو بے ساختہ جملہ ادا ہوا کہ اگر روز بھی اپنے والد کی لحد پر اتنی گلپاشی کروں تو شاید ان محبتوں اور عنایتوں کا حق ادا نہ کرسکوں۔ ذہنی نشوونما اور علمی و فکری ارتقا کے لیے اگر کسی کو گھر میں ہی پرنور ماحول میسر آ جائے تو زمانے کی ٹھوکروں سے محفوظ و مامون رہ جاتا ہے۔ میرے کئی ساتھیوں سمیت میرے ایک سینئر جو آج کل پنجاب کی اہم ڈویژن میں کمشنری کے منصب جلیلہ پر فائز ہیں‘ اکثر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مجھےExceptional administrative qualities کا خوگر گردانتے،تو میں اعتراف عجز کرتے ہوئے انہیں بتاتا ہوں کہ میں اولڈ راوینز‘ فارمنائٹس‘ کریسنٹیرین وغیرہ جیسے اعزازات کا کبھی بھی حامل نہیں رہا۔ تعلیم پنجاب کے ایک دیہاتی سے ماحول میں رچے سکول اور کالج سے ہے۔ تاہم اخلاص‘ وفا اور مہر و عطا کے داعیے اور جذبے اور ان کی معنویت اپنے والد گرامی کے زیر سایہ اپنے گھر کے بارونق اور پرنور ماحول سے خوب کشید کئے ہیں۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو از خود کچھ بھی نہ تھے لیکن کسی خوش بخت لمحے میں کسی خوش نصیب انسان کے فیض صحبت و نگاہ محبت و کرم سے انہیں اجال اور اچھال دیا۔ میرے والد گرامی از حد وجیہ، خوش پوش اور خوبصورت شخصیت کے حامل تھے‘ بقول شاعر: نجابت اور طہارت شخصیت کی بخوبی اسکے پیکرسے تھی ظاھر فضائل کی وہ دیدہ زیب تصویر وہ تھامجموعہ اوصاف نادر وہ اسکے خاندان پاک سے تھا ہے جسکی آل طیب اور طاھر خوش شکل چہرے اور پرنور ہالے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص عطا ہیں۔ ان کو پاکیزہ رزق سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، جس کی تقسیم جاری رہتی ہے اور پھر ان کی ایک خاص تاثیر اور Range ہوتی ہے لیکن اولاد کے لیے والدین کی سیرت و صورت کا فیضان خاص زمانوں اور محدود وقتوں تک خاص نہیں رہتا۔ فرمان رسولؐ ہے کہ اگر کوئی بہ نیت ثواب اپنے والدین، دونوں یا ایک کی قبر کی زیارت کرے تو وہ حج مقبول کے برابر ثواب پائے گا اور جو بکثرت اپنے والدین کی قبر کی زیارت کے لیے آئے تو فرشتے اس کی قبر کی زیارت کو اسی طرح آئیں گے۔ہمارے ہاں ایک اور بھی رواج بہت چل نکلا ہے کہ ہم نے اپنی گاڑی‘ گھر اور کاروبار کو اپنی ماں ہی کی دعا سے منسوب کرنے کو دین سمجھ لیا ہے حالانکہ دین نے ہمیں ھر دو ہی کی اطاعت و خدمت اور محبت و مروت کا حکم دیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی: یارسول اللہؐ! میرا باپ میرا مال لینا چاہتا ہے‘ حضور اکرم ؐنے اس کے والد کو طلب فرمایا استفسار پر اس شخص نے کہا یا رسول اللہؐ‘ اس سے پوچھیں‘ میں اس کا مال کدھر لے کر جاتا ہوں اور کیا کرتا ہوں‘ یہی کہ اس کی پھوپھیوں کی مہمانداری پر خرچ کرتا ہوں۔ اپنے خاندان کے قرابت داروں اور بال بچوں پر۔ اتنے میں حضرت جبرئیلؑ حاضر ہوئے اور عرض کی‘ یارسول اللہؐ! اس مرد ضعیف نے اپنے بیٹے کی شکایت پر اس طلبی کے دوران اپنے دل ہی میں کچھ اشعار کہے ہیں‘ جو ابھی تک اس کے اپنے کانوں نے بھی نہیں سنے‘ یعنی ہنوز ابھی تک اس کی زبان تک بھی نہیں آئے۔ حضورؐ نے وہ اشعار اس کو سنانے کا حکم دیا‘ اس نے عرض کی‘ یارسول اللہؐ میں آپ کے معجزات نبوت کا پہلے ہی قائل تھا‘ آج یہ یقین اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اس شخص نے اشعار سنانے شروع کئے تو حضورؐ پر گریہ طاری ہوگیا۔ داڑھی مبارک آنسو سے تر ہو گئی‘ اس نے اشعار میں کہا (ترجمہ) تو پیدا ہوا میں نے تیرے لیے غذا کا اہتمام کیا‘ تو تنہا اور کمزور تھا، میں نے تجھے اپنی رفاقت اور محبت کے حصار میں رکھا‘ میری کمائی سے تو عمر بھر سیراب ہوتا رہا‘ تجھ پر جب کسی رات کوئی بیماری یا تکلیف اترتی‘ تو میں تیری ناسازی طبیعت کے باعث ساری رات اداس اور پریشان ہو کرگزار دیتا۔ میں تیرے مرنے سے ڈرتا‘ اگرچہ میں اس امر سے خوب آگاہ تھا ۔ موت یقینی اور اس کا وقت مقرر اور سب پر مسلط ہے۔ میری آنکھیں تیری تکلیف میں یوں بہتی گویا جیسے تکلیف تجھے نہیں‘ مجھے ہوئی ہے۔ میں نے تجھے اس محبت سے پالا‘ پھر جب تو پروان چڑھا اور اس حد تک پہنچا اور اس قابل ہوا تو مجھے امید لگی کہ اس عمر میں اب تو میرے کام آئے گا لیکن تو نے میری محبت اور پیار کا بدلہ سختی اور بے وفائی سے دیا۔ حق پدری اور باپ کے حق کا خیال نہ سہی چلیں اتنا ہی خیال کیا ہوتا جتنا ایک ساتھ اکٹھے رہنے والے ایک دوسرے کا کرتے ہیں۔ جیسے ہمسائے کا ہمسائے پر حق نہیں‘ یہ تو میرا تھا‘ ان اشعار کو سننا تھا کہ حضورؐ نے اس کے بیٹے کا گریبان پکڑ کر ارشاد فرمایا: انت و مالک لابیک جائو‘ تم اور تمہارا مال سب تیرے باپ کا ہے۔ فقہا نے اس پر فتویٰ دیا کہ باپ اگر ضرورت مند ہے تو بقدر حاجت و ضرورت‘ اپنے بیٹے کے مال سے بغیر رضا و اجازت لے سکتا ہے۔