سیاست بہت ہوئی۔ آج سیاست پر کوئی بات نہیں ہوگی۔ آج صرف فطرت کی ان حسین رعنائیوں کا تذکرہ ہوگا جن کو علامہ اقبال کی شاعری کا حسن ہیں۔ علامہ اقبال مفکر شاعر تھے مگر کبھی کبھی وہ دماغ سے دامن چھڑا کر دل کی آغوش میں آنکھیں بند کرکے لیٹ جاتے تھے۔ علامہ اقبال دماغ اور دانش کے مخالف نہیں تھے۔ وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو سوچنے کا سلیقہ سکھایا مگر زندگی میں ضروری توازن پیدا کرنے کے لیے انہوں نے یہ بھی لکھا تھا: ’’اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے!!‘‘ علامہ اقبال کے بارے میں مجھے نہیں معلوم کہ انہیں کون سا موسم پسند تھا مگر ان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے جن صحراؤں اور بیابانوں کے مناظر نظر آتے ہیں ان سے تو گرم طوفان اٹھتے محسوس ہوتے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جو تکلیف انسان سردی میں محسوس کرتا ہے وہ گرمی میں محسوس نہیں کرسکتا۔ اس لیے علامہ اقبال نے مغرب کے موسم سرما میں چلنے والی ہواؤں کے بارے میں لکھا ہے: ’’زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی‘‘ یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ مغربی ادب میں جہنم کا تصور گرم ترین مقام کا نہیں بلکہ سرد ترین جگہ کا ہے۔ سردی میں جو اذیت ہے وہ گرمی میں نہیں۔ اگر اس سردی میں جدائی بھی داخل ہوجائے تو پھر ذہن میں جوش ملیح آبادی کی سوانح ’’یادوں کی بارات‘‘کی باتوں کی بازگشت پیدا ہونے لگتی ہیں۔ جوش ملیح آبادی سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے بھی ان کی خوبصورت اردو سے محبت کرنے کے سلسلے میں مجبور ہوجاتے ہیں۔حالانکہ جوش صاحب صرف حسن زبان نہیں بلکہ بغاوت کی بے باکی بھی رکھتے تھے۔ ان کی یہ بغاوت صرف نظاموں تک محدود نہ تھی بلکہ وہ محبت کے بارے میں بھی بغاوت پسند تھے۔ جوش صاحب کے بارے میں بات کرتے ہوئے مجھے اس بات کا احساس ہے کہ میری یہ تحریر اخبار کے لیے ہے۔ اس لیے میں ’’یادوں کی بارات‘‘ کے اس باب کا تذکرہ نہیں کروں گا؛ مگر چونکہ اس وقت موضوع موسم سرما ہے اس لیے ان کے تین الفاظ نقل کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ جوش صاحب نے سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے لکھا تھا’’روئی یا دوئی‘‘! یہ بات صرف جوش صاحب تک محدود نہیں ہے ۔ سندھ کے عظیم صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی شاعری میں بھی اس موسم کے دوراں جو تنہائی کا عذاب ہے اس کا تذکرہ شاہ صاحب نے اتنی شدت سے کیا ہے کہ جیسے وہ خود اس تکلیف سے گذرے ہوں۔ اس سچائی سے شاہ لطیف بھی آشنا تھے کہ سرد موسم میں تنہائی کی تکلیف شدید ہوجاتی ہے۔ اس تکلیف سے امیر طبقے کے لوگ آشنا نہیں ہیں۔ ہم کراچی والے موسم سرما میں سردی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ مگر جب ساحل سمندر سے ٹکرانے والی ہواؤں میں کچھ خنکی کا اثر محسوس ہونے لگتا ہے تو یادوں میں ابھرنے لگتے ہیں۔ پاکستان کے وہ پہاڑ جن کی چوٹیاں اس موسم میں سفید ہوجاتی ہیں۔سردی کی حسرت کرنا ایک بات سردی کی شدت برداشت کرنا دوسری بات ہے۔ جو لوگ سرد علاقوں میں رہتے ہیں وہ اس موسم کے دوران اپنے چھوٹے گھروں میں اسیر ہوجاتے ہیں۔ وہ ہر صبح جب اپنے گھر کی کھڑکی کھولتے ہیں تب ان کو حدنظر تک سفید برف نظر آتی ہے۔ جب راتوں کو پہاڑی چوٹیوں سے ٹکرانے والی سرد ہوا شور مچاتی ہے تب ان کے دل اپنے جائز محبتوں کے لیے تڑپ اٹھتے ہیں۔ موسم سرما کے دوران صرف پہاڑوں میں بسنے والے لوگ پریشان نہیں ہوتے مگر ان کی تکلیف کا احساس ان کو بھی ہوتا ہے جو اپنے پہاڑوں سے دور رہتے ہیں مگر ان کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان کے گھروں میں ایندھن ہے کہ نہیں؟ کہیں آٹا ختم تو نہیں ہوگیا؟ کیا گھر میں مٹی کا تیل ہوگا؟ کیا سرد اور سیاہ راتوں میں لالٹین جلتا ہوگا؟ موسم سرما میں محبت کی باتیں کرنا بھی اچھی لگتی ہیں مگر جس طرح فیض صاحب نے لکھا ہے: ’’لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجے‘‘ راقم الحروف نے سوچا تھا کہ کھڑکی سے آتی ہوئی خنک ہوا میں بیٹھ کر بے حد رومانوی کالم لکھوں گا۔ ایسا کالم جس میں رومانس ہوگا۔ جس میںناراض ہونے اور پھر مان جانے کی باتیں ہونگیں۔ راقم الحروف نے یہ بھی سوچا تھا کہ اس کالم میں کتابوں کے بہانے اس موسم کی مزید گہرائیوں میں اترنے کی کوشش کروں گا۔ یہ کالم صرف اور صرف محبت کے نام ہوگا۔ یہ کالم عشق سے شروع ہوگا اور عشق پر ختم ہوگا۔ مگر راقم الحروف کو بہت جلد محسوس ہوا کہ ہمارا انفرادی عشق عوام کے اجتماعی تکلیف کے سامنے اس قدر اہم نہیں کہ عوام کے درد اور تکلیف سے آنکھیں پھیر کر صرف اور صرف انفرادی محبت کی باتیں لکھیں جائیں۔ راقم الحروف نے سوچا تھا کہ وہ اس کالم کو سیاست کے تذکرے سے پاک رکھے گا مگر ہم جس بھی رخ میں چلتے ہیں وہ محرومیاں ہمارا پیچھا کرتے ہوئے پہنچ جاتی ہیں جن کا تعلق ہمارے شعور سے ہے‘ تو راقم الحروف تذکرہ کر رہا تھا انصاف کا۔ موجودہ دور میں ملک پر تحریک انصاف کی حکمرانی ہے۔ انصاف بہت بڑا لفظ ہے۔ انصاف کی آغوش میں پوری اجتماعی زندگی سما جاتی ہے۔ ہماری حکومت کو اس موسم میں ان انسانوں کے ساتھ انصاف کے بارے میں سوچنا چاہئیے جو لوگ غربت کی وجہ سے سردی کی شدت کو زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ ان انسانوں کے لیے حکومت کے پاس کیا ہے؟ جن انسانوں کے لیے اس موسم میں زندگی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو سرد علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے لیے کوئی تو ایسا اعلان کرنا چاہئیے جس کی وجہ سے انہیں زمستانی ہواؤں میں ایک گرم جھونکا محسوس ہو۔ سرد علاقوں میں بسنے والے اہلیان وطن کے لیے حکومت جب کوئی اچھا اعلان کرے گی۔ تب ہم اپنے ضمیر کو آزاد محسوس کرتے ہوئے ان انفرادی محبتوں کا تذکرہ بھی کریں گے، جو محبتیں زندگی کا حقیقی حسن ہیں۔ ان محبتوں پر صرف جوش صاحب کا ہی نہیں بلکہ ہر انسان کاحق ہے مگر وہ حق تب حاصل ہوگا جب اس ملک کے غریب لوگوں کو زندگی کے بنیادی حقوق میسر ہوں۔ اس وقت عوام عذاب میں زندگی گذار رہے ہیں۔ اس وقت انفرادی عشق کے قصے سناتے ہوئے بھی وہ غیرت محسوس ہو رہی ہے جو غیرت صرف شعور سے جنم لیتی ہے۔ ہم مسائل کے پیروں تلے کچلتے ہوئے لوگوں کی تکلیف کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔ ہم اس موسم میں منتظر ہیں اس دور کے جب لوگوں کو حقوق حاصل ہونگے۔ جب ان کے مسائل ختم ہوجائیں گے۔ اس وقت ہم اخبارات میں بھی عشقیہ کالم لکھیں گے۔