چند روز قبل عمران خان اور اعجا ز الحق میں ایک بار پھر ون ٹو ون اہم ملاقات ہوئی راز و نیاز کی باتیں ہوئیں اور تجدید عہد ہوئے جس کے بعد نشست برخاست ہوگئی دونوں میں کیا کیا نئے تجدید عہد ہوئے؟ اس بارے سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی جس میں وہعمران خان کے ساتھ ہونے والی ون ٹو ون ملاقات کی تفصیلات منظر عام پر لائے۔ نشست کے آغاز میں انھوں نے عمران خان اور اپنے خاندان کے درمیان دیرینہ تعلقات کی تاریخ بیان کی اور اس بات خصوصاً تذکرہ کیا کہ ان کے والد صدر جنرل ضیاء الحق نے نواز شریف کے ساتھ عمران خان کو بھی سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی۔ اعجاز الحق نے انکشاف کیا کہ عمران خان ان کے والد صدر جنرل ضیاء الحق کی ''گڈ بک ''میں تھے۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 1981ء عمران خان ان سے ملے تھے یہ ملاقات'' قابل فخر پاکستانی''تنظیم کی ایک سالانہ تقریب میں ہوئی تھی جس میں شرکت کی دعوت انہیں ڈاکٹر انوا ر الحق نے دی تھی ۔ملاقات رسمی علیک سلیک تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ جنرل صاحب نے اس ملاقات میں عمران خان کو ملک کی تعمیر وترقی میں بھر پور کردار ادا کرنے کی پیشکش کی تھی کیونکہ ان دنوں صدر جنرل ضیاء کو ایسے افراد کی تلاش تھی جو ملک و قوم کے بہتر مستقبل کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اور ان کی ٹیم کا حصہ بن سکیں پھر جب مئی 1988ء میں محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کردی گئی جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد تشکیل دی جانے والی نگران وفاقی کابینہ میں عمران خان کا نام شامل کیا گیا تھا لیکن بیل مونڈھے نہ چڑھ سکی۔ صدر جنرل ضیاء کی شہادت کے بعد بھی عمران خان کا ضیاء خاندان سے رابطہ رہا اور وہ اہم ملکی و سیاسی امور بارے تبادلہ خیال کرتے رہے بعض اہم امور بارے اختلاف رائے ہوتا اور بعض میں اتفاق رائے بھی، دونوں ہی ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے، دوستی ، اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم رہا اور کبھی کوئی خلیج حائل نہیں ہوئی۔ تاہم اگست 2018ء میں عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد میرا ان سے کوئی رابطہ ہوا اور نہ ہی ملاقات ، ہاں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد عمران خان کی خواہش پر ان کی میری بہن زین ضیاء کی ملاقات ہوئی اس ملاقات میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق مرحوم بھی موجود تھے۔ عمران خان نے زین ضیاء سے پوچھا کہ مجھے بتائیں کہ میں عوام کی بہتری کیلئے کیا کر سکتا ہوں۔ زین ضیاء نے مشورہ دیا کہ میرے والد صدر جنرل ضیاء الحق نے سپیشل افراد کا کوٹہ2 فیصد کیا تھا آپ اسے 5 فیصد تک بڑھا دیں۔ عمران خان نے زین ضیاء کے اس مشورہ کو فوری تسلیم کیا اور اس کام کے لئے عملی اقدام ا ٹھا نے کا وعدہ کیا۔ میرا عمران خان سے رابطہ ان کے اقتدار میں آنے کے تقریبا ساڑھے تین سال بعد مارچ 2022ء میں ہوا، جب مجھے محسوس ہوا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں خلیج پیدا کر نے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپنے دیرینہ تعلقات کے پیش نظر میں نے یہ مناسب سمجھا کہ وزیر اعظم عمران خان کو اس بارے آگاہ کروں۔ مارچ میں میری عمران خان سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی میں نے اس ملاقات میں اپنے احسا سات سے عمران خان کو آگاہ کیا تاہم ملاقات کے اختتام پر مجھے معلوم ہوا کہ شاید انہیں میرے احساسات غیر معمولی محسوس نہیں ہوئے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان دل کے کھرے اور صاف آدمی ہیں اور بہت ہی صاف گو انسان ہیں لیکن بہرحال یہ مسئلہ انتہائی اہم نوعیت اختیار کر چکا تھا مارچ 2022ء کے بعد سے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں خلیج بڑھتی چلی گئی وصالِ یار سے دونا ہوا عشق مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اگر اس موقع پر عمران خان مسئلہ کی حساسیت کو سمجھ جاتے شاید آج یہ دن نہ دیکھتے۔ ایوان اقتدار میں بیٹھ کر کسی کو بھی ایسی باتیں سمجھ نہیں آتیں کچھ ایسی ہی صورتحال 1999ء کے اوائل میں نواز شریف کے ساتھ پیش آئی تھی نواز شریف کو بھی کسی نے اس موقع پر آگاہ کردیا تھا کہ آپ اور اسٹیبلشمنٹ میں خلیج حائل کردی گئی اسے ختم کریں ورنہ پھر دھڑن تختہ ہو گا لیکن نواز شریف کو بھی یہ بات سمجھ نہیں آئی تھی جس کے نتیجہ میں انہیں اکتوبر میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ عمران خان کے اقتدار سے علیحدگی کے بعد میری ان سے ملاقات ہوتی رہی انہیں مشکلات میں دیکھ کر میرا یہ فرض بنتا تھا کہ انہیں اپنی طرف سے مکمل ہمدردری کا یقین دلائوں، مشکلات آتی جاتی رہتی ہیں اور انسان ہی انسان کے کام آتے ہیں۔ سیاست دان قومی یک جہتی کا راگ الاپتے ہیں لیکن اس کی کوئی عملی صورت نظر نہیں آتی۔حالانکہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام اس وقت تک نہیں اٹھا یا جاسکتا جب تک سیاست دانوں میں قومی یک جہتی موجود ہو ۔رمضان المبارک سے قبل میری عمران خان سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی جس میں محسوس ہوا کہ عمران خان کے حوصلے بلند ہیں تاہم وہ اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کیلئے تیار ہیں وہ مذاکرات کی ٹیبل پر بھی بیٹھ سکتے ہیں ۔ بات ''کچھ لو اور دو پر بن پائے گی'' دونوں اطراف سے انتہا پسندوں نے کام خراب کیا ہوا ہے جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اعجاز الحق نے بتایا کہ اس ملاقات میں عمران خان نے مجھے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعادہ کیا میں نے اس پیشکش اور گزشتہ انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ( ضیاء لحق شہید) کے امیدواروں کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا اور انہیں اپنی طرف مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی، نشست کے اختتام پر اعجاز الحق نے کہا کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں راولپنڈی اپنے پرانے انتخابی حلقہ سے ضرور کاغذات نامزدگی جمع کرائیں گے اور اس کے ساتھ ہی وہ بہاولنگر سے بھی امیدوار ہونگے، اعجاز الحق کے انتخابات میں شرکت کے حوالے سے جذبات دیکھ کر معلوم ہو رہا تھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔