بالآخر وہی کچھ ہو رہا ہے، جس کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ صرف کمیشن کھانے آئے ہیں، انہیں چاہے بھل صفائی میں کمیشن ملے یا پی آئی اے، ریلوے یا سٹیل مل بیچنے میں ۔ یہ صرف موقع کی تلاش میں ہوں گے، مواقع تلاش کریں گے،،، اور اگر کہیں نہ بن پائے تو پھر یہ خود مواقع بنا بھی لیں گے۔ سوا ارب ڈالر کی گندم صرف کمیشن کے چکر میں اُس وقت خرید لی گئی جب اپنے ملک کی فصل تیار کھڑی تھی۔ مطلب گندم سکینڈل سے پوری قوم کو چونا لگا لیکن کھل کر کوئی کہنے کو تیار نہیں کہ سکینڈل کے پیچھے کون سے چالاک یامضبوط ہاتھ ہیں۔ دبے لفظوں میں(ن) لیگ والے کہہ رہے ہیں کہ یہ تو نگرانوں کا کیا دھرا ہے لیکن پھر بھی نام لینے سے کترا رہے ہیں۔ اورنام لیں بھی کیسے۔ حنیف عباسی اور انوارالحق کاکڑ کا قصہ تو اب زبان زدِعام ہوچکا ہے۔ اسلام آباد کے کسی ہوٹل میں دونوں کا آمنا سامنا ہوا توانوارالحق کاکڑ نے کہا کہ تم ہم پر غلط الزام لگا رہے ہو۔آگے سے حنیف عباسی نے کہا کہ جو میں نے ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا بالکل صحیح ہے اورآپ لوگ چور ہیں۔ اس پر کاکڑ نے کہا کہ (ن) لیگیوں کے 47کے فارموں کی بات کروں تومنہ چھپانے کی جگہ نہ ملے گی۔ اب اس بات میں تو سچائی کا علم نہیں، ظاہر ہے جو رپورٹ حکومت کی جانب سے پیش کی جائے گی، اُس کے مطابق ہی فیصلے ہوں گے ،،، مگر یہ بات سچ ہے کہ انہوں نے کمیشن کے چکر میں اب ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل مل کی نجکاری کو بھی متنازع بنانا ہے،،، یہ بات تو میں بہت مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ جو بھی آیا اُس نے کرپشن کرنے کے لیے اور اپنے بندے بھرتی کروانے کے لیے اداروں کے سربراہوں کو پروفیشنل انداز میں بھرتی کرنے کے بجائے من پسند افراد بھرتی کیے ۔ لیکن ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو وقت کے مطابق ڈھالتے نہیں ہیں، یعنی دنیا ترقی اسی لیے کرتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو جدید انداز میں ڈھالتی ہے جبکہ ہمارے ادارے سیاست اور ایک دوسرے کو کھینچنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے چلیں ہم ’’نوکیا‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔ 1965 میں فن لینڈ میں قائم ہونے والی اس عظیم الشان موبائل بنانے والی کمپنی نے کامیابی کے وہ جھنڈے گاڑے کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ایک عرصے تک نوکیا اس دنیا پر حکمرانی کرنے والی شاید پہلی اور آخری کمپنی تھی، یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ 2003 سے لے کر 2005 تک پورے پاکستان کے 70 فیصد موبائل فونز نوکیا کے ہی بنے ہوئے تھے۔ صرف 2008 میں نوکیا کے اندازے سے بھی کہیں زیادہ 4500 ملین موبائل سیٹس دنیا بھر میں بک گئے۔ 2008 میں ہی صرف امریکا میں 300 ملین نوکیا استعمال کرنے والے لوگ تھے جبکہ امریکا کی 60 فیصد موبائل مارکیٹ بھی نوکیا ہی کے قبضے میں تھی۔ 2009 اور 2010 ایپل ، گوگل اور اینڈرائڈ کا دور شروع ہوچکا تھا لیکن نوکیا ابھی تک اپنے ہارڈوئیر کو سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔ دنیا ’’ اسمارٹ’’ ہوتی جارہی تھی۔ لوگ سافٹ وئیر اور پلے سٹور کی دنیا میں آچکے تھے۔ ساری دنیا کے ڈیولپرز اور انجینئرز خود کو اینڈرائڈ پر لے آئے تھے لیکن نوکیا اپنی ’’ علیحدہ‘‘ پہچان بنانے کے چکر میں اب اپنی پہچان کھونا شروع ہوچکا تھا۔ ہندوستان اور چین جیسے ممالک میں بھی اب ’’ ہر مال چائنا‘‘ کی آوازیں لگ رہی تھیں لیکن اوپر کرسیوں پر بیٹھے نوکیا کے ’’ دماغ ’’ خود کو عوام کی نظروں سے دیکھنے سے قاصر تھے۔ نوکیا نے تنگ آکر بالآخر ستمبر 2010 میں اپنے پرانے سی ای او اولی پیکا کو ہٹا کر اسٹیفن ایلوپ کو اپنا نیا سی ای او مقرر کردیا۔ ایلوپ نے بھی اپنی ’’ پہچان‘‘ برقرار رکھنے کی فکر میں خود کو مزید ایک تجربے سے گزارا اور مائیکرو سوفٹ کے پاس چلے گئے۔ جو ونڈوز آج تک کی تاریخ میں کبھی ’’ موبائل فرینڈلی‘‘ نہیں تھی، اس کو اپنے ہینڈ سیٹس کی زینت بنا ڈالا اور اس طرح 1965 میں پوری آب و تاب سے طلوع ہونے والا نوکیا کا سورج 2010 میں غروب ہوگیا۔ اب آئیں ایلکواکمپنی کی طرف۔۔ایلکوا ایلومینیم بنانے والی اس وقت دنیا کی چھٹی بڑی کمپنی ہے۔ 1987 میں کمپنی کی معاشی حالت بری طرح خراب ہونے لگی۔ جگہ جگہ پلانٹس بند ہونے لگے۔ عوام اور ملازمین کا اعتماد ہ کمپنی پر سے ختم ہوتا جارہا تھا۔ کیونکہ ایلومینیم کا کام بے انتہا حساس نوعیت کا ہوتا ہے اس لیے کسی نہ کسی پلانٹ پر کوئی نہ کوئی مزدور معذور ہوجاتا یا مر جاتا اور پھر زندگی بھر وہ یا اس کے ورثاء بے یار و مددگار پڑے رہتے۔ پال او نیل (کمپنی کے مالک) افتتاحی تقریب سے خطاب کرنے آئے۔ کمپنی کی پالیسی ، مشن اسٹیٹمنٹ اور اپنے پچھلے کارنامے گنوانے کے بجائے انھوں نے اپنے مختصر سے خطاب میں کہا کہ میرے تین مقاصد ہیں :پہلا یہ کہ میں اس بات کو یقینی بناؤنگا کہ کمپنی میں ہر شخص کو ہر کسی سے عزت اور محبت ملے۔دوسرا یہ کہ میں ہمیشہ اپنے ملازمین کی حفاظت کو مقدم رکھونگا ، کسی بھی حالت میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتا سیفٹی پر نہیں ہوگا۔اور تیسرا یہ کہ ہماری کمپنی میں موجود ہر ملازم کو لازماً یہ معلوم ہوگا کہ وہ یہاں ’’ کیوں ’’ یہ کام کر رہا ہے۔ پال او نیل کے یہ الفاظ عمل میں ڈھل گئے۔ کمپنی کے ہر ملازم کے پاس پال کا نمبر ہوتا تھا۔ کہیں کوئی چھوٹی سی بھی شکایت پال کو موصول ہوتی تو پلانٹ پہلے بند ہوتا اور تفتیش بعد میں شروع ہوتی۔ شروع کے چھ مہینے سخت اذیت میں گزرے لیکن پال نے طے کرلیا تھا کہ کمپنی میں حادثہ کوئی نہیں ہوگا اور کمپنی کو جدید ترین ٹیکنالوجی سے آراستہ کرے گااور پھر صرف چھ مہینے بعد ایلکوا دنیا کی سب سے بڑی ایلومینیم کمپنی بن گئی۔ 2000 میں جب پال اونیل کمپنی سے رخصت ہوا تو اسکا شمار دنیا کے کامیاب ترین سی ای اوز میں ہوتا تھا اور آپ کمال ملاحظہ کریں وہ ادھر کمپنی سے فارغ ہوا اور ادھر جارج بش نے اس کو اپنا وزیر خزانہ بنا لیا۔ یہ دو کمپنیوں کے دو آدمیوں کی دو کہانیاں نہیں ہیں۔ اداروں کو اوپر لے جانے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے، جس سے ہم فی الوقت عاری نظر آتے ہیں۔ ہمارے عروج کے اداروں میں ایسے افراد کو بطور سربراہ تعینات کیا جاتا رہا جنہوں نے ملکی مفاد کی بجائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی مافیا کے اشاروں پر ایسی پالیسیاں متعارف کروائیں کہ قومی فخر کے یہ ادارے ملک کے لیے سفید ہاتھی بنتے گئے اور قومی دولت کا ایک بڑا حصہ ان اداروں کو زندہ رکھنے کے لیے خرچ کیا جاتا رہا۔ مافیا اور سیاستدانوں کی تجاویز کے مطابق ہر حکومت خواہ وہ سیاسی ہو یا آمرانہ، کی یہ کوشش رہی ہے کہ قومی اداروں کی نجکاری کی جائے۔ اس کے لیے مرحلہ وار تیاری کی گئی ، پہلے ڈائون سائزنگ کے نام پر ملازمین کو برطرف کیا گیا اور جب اس سے بھی کام نہ چلا تو بچی کھچی کسر رائٹ سائزنگ کے ذریعے پوری کی گئی۔ لیکن معاملہ لٹکتا رہا، بلکہ کئی بار تو اربوں روپے ہم نے انہی چکروں میں ضائع کر دیے۔ایسی صورتحال میں ان اداروں کی نجکاری بہترین عمل ہے لیکن اس میں شفافیت کا پہلو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، کیوں کہ وطن عزیز پہلے بھی اس قسم کے تجربات سے گزر چکا ہے۔