انسان کی حقیقت کیا تھی۔ وہ ایک ایسی شے تھا جسے وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا ہے۔وہ ایک ناقابل تذکرہ شے تھی۔ چپچپاتی، کھنکناتی مٹی۔ ایسی جو آج بھی جوتے سے چپک جائے تو دہلیز پہ دھرے پاپوش سے رگڑ کر صاف کردی جائے۔ دل یزداں کو مگر کچھ اورمنظور تھا اور کون جانے دل یزداں کو کیا منظور تھا۔اسے اس کھنکھناتی چپچپاتی مٹی پہ کیونکر پیار آیا۔کیا ہی عالیشان دربار ہوگا وہ جہاں جبرائیل امین پر سمیٹے ہاتھ باندھے سرجھکائے حکم کے منتظر ہونگے۔ابھی حکم ہو اور ابھی بجا لائیں۔ملائکہ قطار اندر قطار اپنے سارے وجود سے رب جلیل کی ثنا میں مشغول ہوں۔ان کی ہر دم تسبیح کی مدھم بھنبھناہٹ عرش بریں پہ ایسے گونجتی ہو جیسے ان گنت شہد کی مکھیاںخاموشی اور مستقل مزاجی سے شہد بنانے کی فکر میں ادھر سے ادھر اڑتی پھر رہی ہوں۔خدائے علیم وخبیر ہی جانے کہ اس دربار تک کس کی رسائی کہاں تک تھی۔کسے اذن باریابی تھا اور کون حد سے پرے وہیں باادب قدم روک لیتا تھا۔وہ جو بھی کچھ تھا اس میں مادے کا گزر نہ تھا۔ وہ شفاف و لطیف عالم بسیط تھا جہاں سب کچھ نوری تھا یا شاید ناری تھا۔وہاں سب کچھ مثبت تھا کچھ منفی نہ تھا۔وہاں انکار کی گنجائش نہیں تھی۔وہاں اثبات کی گنجائش بھی نہیں تھی۔وہاں کن تھا اور فیکون تھا۔ جو کہہ دیا اسے ہوجانا تھا۔ایسے میں کیا نفی کیا اثبات۔جب مرضی نہ پوچھی جائے نہ اس کی کوئی حیثیت ہو ۔ وہاں بس حکم کی تعمیل تھی۔وہ رب جلیل کا امر تھا۔پھر کیا ہوا کہ دل یزداں نے اس غیر مادی عالم نوری میںکھنکھناتے بجبجاتے مادے کو پیدا کیا؟پھر اس مادے سے آدم کی تخلیق کی۔اس میں اپنی روح پھونکی۔ یہ امراللہ تھا۔وہ تم سے روح کی حقیقت پوچھتے ہیں۔کہہ دو کہ وہ امراللہ ہے۔جب مادے سے بنے مٹی کے اس پتلے میں جان پڑ گئی تو نوری اور ناری مخلوق کو حکم ہوا کہ اس کے آگے ماتھے کے بل گر پڑو۔وہ جن کی کوئی مرضی نہ تھی سوائے اس کے کہ وہ حکم کی تعمیل کریں، سجدے میں گرپڑے۔ لیکن یہیں تسلیم و رضا کے اس ازلی ماحول میں ایک انکار گونجا۔ یہ پہلی نفی تھی جو مادے کے ساتھ وجود میں آئی تھی۔ اس فضائے لطیف میں جہاں نفی کا گزر نہ تھا۔یہ پہلا انکار تھا۔پہلو دار تہہ بہ تہہ ہلکی نوری فضا ایک دم بوجھل ہوگئی۔یہ کوئی معمولی جرات نہ تھی۔یہ ازل و ابد اور اس کے درمیان جو کچھ تھا اس سب کے مالک الملک کی نافرمانی تھی اور عین اس دربار میں جہاں وہ خود موجود تھا۔یہ مادے کی کثافت تھی جو لطافت کو چیرتی ہوئی ایک نفی سے بندھ گئی تھی۔عالم اثبات میں بھونچال سا آگیا۔چپچپاتی مٹی کو بھڑکتی آگ کیونکر سجدہ کرے۔منطقی اعتبار سے یہ بات بالکل درست تھی۔ یہ دلیل ہی تھی جس نے نفی کو دوام بخشا اور نافرمانی کو توجیہہ پیش کی اور فساد برپا کیا۔ تسلیم ورضا میں امن ہی امن تھا۔امن کی پہلی دشمن دلیل تھی۔دلیل کا علمبردار قیامت تک کے لئے مردود قرار پایا۔ حکم ہوا نکل جا۔ مردود لیکن ڈھیٹ بھی تھا،اس نے کہا مجھے اجازت دے۔میں اس مٹی کے پتلے کو جو اس لطافت میں ایک مادہ ہے، آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اور ہر طرف سے بہکاؤں گا۔ کہا اجازت ہے۔تیرا بس اس پہ نہیں چلے گا جو مخلصین میں سے ہونگے۔یہ نہیں کہا کہ ان پہ نہیں چلے گا جو بہت عبادت گزار ہونگے نہ ہی ان پہ جو بہت پرہیزگار ہونگے۔یہ مخلصین کون تھے جنہیں ابھی اس آدم خاکی کی نسل میں آنا تھا اور جن پہ مردود منکر فرمان کے کسی فریب کا اثر نہیں ہونا تھا؟یہ اخلاص کیا شے ہے؟تو سنئے۔یہ اخلاص خالص نور ہے۔یہ قلب آدم کے عین مرکز میں روشن وہ نور ربانی ہے جسے خدا نے اپنی کتاب میں ایک ایسے چراغ سے تشبیہہ دی ہے جو طاق پہ دھرا ہو اور جس کے اوپر ایک شیشے کی قندیل ہو۔ جو زیتون کے بابرکت تیل سے روشن ہو اور قریب ہو کہ آپ ہی روشنی دینے لگے۔اگرچہ اسے آگ نے چھوا نہ ہو۔نور علی نور۔یہی وہ اخلاص ہے جو تسلیم ورضا سے پیدا ہوتا ہے۔جس دل میں نور یزدان لو دینے لگے وہ اثبات کا مرکز بن جاتا ہے۔منبع نور و اثبات جہاں نفی کا گزر نہ ہو۔وہ نفی جس کا ربط مادے سے ہے۔ان مخلصین پہ ابلیس لعین کا بس نہیں چلتا۔یہ نفوس مطمنہ ہیں جن کا ایقان اپنے رب پہ ایسے ہوتا ہے جیسے وہ اس لمحہ خود دربار میں موجود رہے ہوں۔ انہیں مشاہدہ حق کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔انہیں کوئی وسوسہ راہ سے بھٹکا نہیں سکتا۔ آدم کی ایک خطا جس نے قیامت تک ابن آدم کو ندامت اور استغفار کا شعور دیا کتنی مقدس تھی۔یہ مادے کی تسلیم و رضا تھی جس نے بعد میں یونس سے مچھلی کے پیٹ میں کہلوایا لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔یہ رب انی ظلمت نفسی سے انی کنت من الظالمین کا سفر ہے۔جس کے متعلق اس کا وعدہ ہے کہ قیامت تک اس کلمے کے ذریعے اہل ایمان کو نجات دے گا۔آدم کی تقصیر تھی یا خدا کا فیصلہ کہ مادے کا ٹھکانہ ارض ہی تھا۔بہت عرصہ ابن آدم نے نوری ہدایت کی روشنی میں گزارا ہوگا۔ پھر کوئی قرن گزرے ہونگے کہ اسے خدا کا تصور یاد نہ رہا۔کبھی اسے سر پہ آگ برساتا قہرناک سورج خدا سا لگا تو کبھی چاند ستارے جمادات و بناتات، ہر وہ شے جس سے اسے خوف یا امید محسوس ہوئی،خدا بن گیا۔خدائے حقیقی نے گو اسے تنہا نہیں چھوڑا لیکن اخلاص کا نور مدھم پڑتا گیا۔منکر لعین نے معصوم ابن آدم کو ہر زبردست کے آگے سر جھکانے کی ترغیب دی۔یہ اس سجدے کا انتقام تھا جو اس نے نہیں کیا تھا۔اسی نے آدم کو اسی مٹی سے ،جس سے وہ خود بنایا گیا تھا، صنم سازی کا طریقہ سکھایا۔انسان نے بت بنائے اور ان کے آگے سجدہ ریز ہوگیا۔یہ بت وقت کے ساتھ ترقی کرتے گئے لیکن ابن آدم سے ابلیس لعین کی انتقام کی آگ نہ بجھی۔ آج کے انسان کا معبود ٹیکنالوجی کا بت ہے۔ جس کے ہاتھ یہ آگیا وہی قوم برتر ہے۔اسی کو سجدہ لازم ہے۔وہی مادہ جس نے فضائے نوری کو بوجھل کیا اور ایک انکار ایک نفی کو پیدا کیا۔آج اسی انسان کا خدا ہے۔یہی مادہ پرستی ہے۔عقل انسانی جو دلیل کی غلام ہے یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ مادے سے پرے ایک جہان ہے جہاں صرف دل یزداں کی حکمرانی ہے ۔وہ تسلیم ہی نہیں کرتی کہ ٹیکنالوجی کے بت کو شکستہ کیا جاسکتا ہے۔وہ لیکن سترہ رمضان دوہجری کے دن کو کیا کرے جسے خدا نے یوم فرقان کہا ہے؟یہ تو معلوم تاریخ کا روشن باب ہے جو جدید کتابوں میں بھی درج ہے۔کیا اس کی نفی ممکن ہے؟عقل انسانی جو مادے کی پرستش میں مشغول ہے ان تین سو تیرہ بے سروسامان نفوس کی اپنے سے تین گنا بھاری ، جدید اسلحے سے لیس،تمام تر اسباب سے مزین لشکر جرار پہ فتح مبین کی کیا توجیہہ پیش کرے؟ٹیکنالوجی کے آگے ماتھا ٹیکنے والے اس منظر کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جب تین سو تیرہ سواروں کے پاس صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے جن پہ وہ باری باری سفر کرکے میدان کارزار میں پہنچے۔دوسری طرف وہ کفار مکہ کی پوری نیٹو جس کے پاس ساڑھے نو سو پیدل ،سو گھوڑے اور ایک سو ستر اونٹ تھے۔کوئی توازن، کوئی تقابل حساب کی کوئی مساوات فزکس کا کوئی اصول عسکری حکمت عملی کا کوئی سبق ،کچھ بھی تو حق میں نہ تھا۔ہاں مگر تسلیم و رضا کے پیکر وہ مخلصین تھے ، انکار جن کے دلوں کو چھو نہ سکا۔ان کے دلوں میں نور یزداں روشن تھا۔نور علی نور۔کسی نے اپنی بے سروسامانی کو بہانہ نہیں بنایا۔ان میں سے ایک گویا ہوا۔یا رسول اللہ۔ہم آپ پہ ایمان لائے ہیں۔آپ ہمیں سمندر میں بھی کود پڑنے کا حکم دیں گے تو ہم میں سے ایک شخص بھی انکار کی جرات نہ کرے گا۔ایک اورنے یوں عرض کی۔ہم موسی کی امت کی طرح نہیں ہیں جنہوں نے کہا تم اور تمہارا رب لڑو۔ہم تو آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے سے لڑیں گے۔اور سترہ رمضان سن دو ہجری کی تاریخ گواہ ہے کہ عہد کرنے والوں نے عہد ایسے نبھایا جیسا کہ اس کا حق تھا۔ یہ تین سو تیرہ بے سروسامان نفوس جہاں خیمہ زن تھے وہ عسکری اعتبار سے ایک کمزور پوزیشن تھی۔یہاں زمین ریتیلی تھی۔معرکہ کی رات جس خیمے میں کائنات کا سراج منیراپنے رب جلیل کے آگے عاجزی سے سر بسجود تھا، صدیق اکبر اس کا نگہبان تھا جس کی غار ثور میں گزری رفاقت کی ایک رات اس امت کی تمام نیکیوں پہ بھاری تھی۔اس نے گریہ وزاری کے درمیان محسن انسانیت ﷺ کو کہتے سنا ۔یا الہی تو جانتا ہے۔یہ چند بھی نہ رہے تو تیری دنیا میں تیرا نام لیوا کوئی نہ ہوگا۔ بارش ہوئی۔ریتلی زمین سخت ہوکر جم گئی، دوسری طرف پھسلواں کیچڑ بن گیا۔سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے ہی نصرت آگئی۔فرشتے قطار اندر قطار اترے ۔اک تاریخ رقم ہوئی اور سترہ رمضان مادہ پرستوں کے دلوں میں تاقیامت، خنجر کی طرح پیوست ہوگیا۔