پاکستان کے مستقبل کے فیصلے کبھی لندن‘کبھی دوبئی اور کبھی کسی اور ملک کے دارالحکومت میں ہوتے آئے ہیں۔عمران خان جو ان دنوں اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں، الزام لگاتے آئے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں کلیدی فیصلے لندن میں ہوئے ہیں، انہیں اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ بھی لندن میں ہوا۔ ان دنوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی کے لیڈر دوبئی میں ہیں جہاں اگلے انتخابات عبوری حکومت کے قیام ملکی معیشت سمیت اہم قومی امور پر مشاورت جاری ہے۔ذرائع کے مطابق پی پی پی کی قیادت انتخابات اکتوبر میں کرانے کی حامی ہے جبکہ مسلم لیگ ن اس بارے میں دو کشتیوں میں سوار ہے ن لیگ کے کچھ لیڈر بروقت انتخابات کرانے کے حامی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اگر یہی حکومت کچھ عرصہ اور چلتی رہی تو کون سی قیامت آ جائے گی۔دوبئی میں کیا ہو رہا ہے اور کیا طے ہو رہا ہے فی الحال قوم اس سے بے خبر ہے۔پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہو جانے کے بعد قدرے پراعتماد نظر آتی ہے، اس کا دعویٰ ہے کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچا لیا گیا ہے۔پاکستان کے بدخواہ جن سے مراد عمران خان اور پی ٹی آئی ہے چاہتے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے لیکن ان کو سخت مایوسی ہوئی ہے۔قرض ملنے کے بعد معیشت پر کتنا مثبت اثر پڑے گا،یہ دیکھنا باقی ہے۔ غیر جانبدار معیشت دانوں کی رائے ہے کہ ڈیل ہونے کے باوجود پاکستان کی معیشت مشکلات میں پھنسی رہے گی۔ ماضی میں بھی آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد ہمارے حکمران اور منتظمین اس خوش فہمی کا شکار ہیں اب سب ٹھیک ہو گیالیکن سال دو سال بعد پاکستان کی معیشت لڑکھڑانے لگتی ہے۔ کبھی آئی ایم ایف‘ کبھی عالمی بنک اور کبھی دوست ملکوں کی منت سماجت شروع ہو جاتی ہے کہ ہمیں ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لئے مدد چاہیے۔اب تو دوست ملک بھی جن میں سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں ہمارے رویے سے تنگ آ گئے ہیں۔وہ مروت اور ہمدردی کی وجہ سے صاف جواب نہیں دیتے لیکن اشاروں اور کنایوں میں کہتے ہیں کہ اپنے حالات ٹھیک کرو۔عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین اور خود پاکستان کے اپنے معیشت دان حکومتوں کو مشورہ دیتے آئے ہیں کہ معیشت کی شرح نمو بڑھانے کے لئے جو ناگزیر اصلاحات ہیں کی جائیں۔موٹی موٹی باتیں جو کہی جاتی ہے کہ ان طبقوں اور لوگوں سے ٹیکس لیا جائے جو تمام تر سہولتیں پاکستان سے لے رہے ہیں لیکن ایک دھیلے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ ایسے لوگ پاکستان کے اندر اربوں روپے مالیت کے محل نما گھروں میں رہتے ہیں اور کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں ڈرائیو کرتے نظر آتے ہیں۔سال میں یورپ سمیت کئی ملکوں کا سفر کرتے ہیں ان کی اربوں ڈالر مالیت کی جائیدادیں پاکستان سے باہر ہیں لیکن ان کے ٹیکس گوشوارے دیکھے جائیں تو معلوم ہو گا کہ وہ سرے سے کوئی ٹیکس نہیں دے رہے یا چند ہزار روپے دے کر ملک پر احسان کرتے ہیں۔حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق پاکستان کا حکمران طبقہ یا اشرافیہ ہر سال 17ارب ڈالر سے زیادہ کی سرکاری مراعات لے رہے ہیں، اس کے بدلے میں وہ پاکستان کو کیا دے رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ پاکستان میں قیام کر کے اس ملک پر احسان کر رہے ہیں۔یہی وہ طبقہ ہے جس نے اپنے خاندانوں کو بیرون ملک بھیج دیا ہے اور خود بھی دوہری شہریت لے رکھی ہے۔ ہزاروں بیورو کریٹس کے پاس دوہری شہریت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کی وفاداری پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ایسے بڑے بزنس مین ہیں جن کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے پاکستان سے ان کا تعلق واجبی ہے۔بات معیشت کی ہو رہی تھی ٹیکس دینا یہاں اپنی توہین سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان میں توانائی کا بحران کم و بیش 40سال سے جاری ہے لیکن اس کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔سستی بجلی پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔پانی سے بجلی حاصل کرنے کے لئے صرف باتیں ہوئی ہیں عملاً کچھ نہیں ہوا۔جو تھوڑے بہت صنعت کار پاکستان میں ہیں وہ یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ توانائی کے ریٹس زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ دوسرے ملکوں کی برآمدات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔جن صنعت کاروں کو سستی بجلی دی گئی وہ بھی اپنی پرفارمنس نہیں دکھا سکے۔ اب ہماری برآمدات مسلسل گر رہی ہیں۔سرکاری شعبے میں چلنے والی صنعتیں خسارہ میں ہیں۔ان صنعتوں کو نجی شعبہ کو فروخت کرنے کا فیصلہ تو کیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔روایتی عدم دلچسپی اور نااہلی کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔ معیشت پر بات زیادہ لمبی ہو گئی ہے اس وقت ہمیں جہاں معیشت کا چیلنج ہے وہاں سیاسی استحکام کا بھی مسئلہ ہے۔ انتخابات اس سال متوقع ہیں ان پر ساری دنیا کی نظر ہے کیا الیکشن فیئر اور فری ہوں گے یا یہ بھی انجینئرڈ ہوں گے۔اگر یہ الیکشن فیئر اور فری نہ ہوئے تو سیاسی استحکام کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔پاکستان اپنی آزادی سے لے کر اب تک فیئر اور فری الیکشن نہیں کروا سکا۔1970ء میں اس کا نتیجہ بھی بھگت چکے ہیں۔پاکستان کے عوام کا خواب ہے کہ یہاں فری اور فیئر الیکشن ہوں تاکہ ان کی مرضی کی حکومت قائم ہو۔پاکستانیوں کا یہ خواب اس سال پورا ہو گا یا نہیں یہ بڑا سوال ہے۔انجینئرڈ الیکشن کا مطلب یہ ہو گا کہ کروڑوں رائے دہندگان کی مرضی کی حکومت نہیں بن سکے گی۔یہی بات عدم استحکام کا سبب بنتی ہے۔پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو اس بات کا تجربہ ہے کہ انجینئرڈ انتخابات کیا ہوتے ہیں وہ جانتی ہیں کہ انتخابی نتائج بدلنے یا انہیں مینج کرنے سے ملک غیر مستحکم ہوتا ہے اور جمہوریت کمزور ہوتی ہے۔ عالمی برادری ان فیئر انتخابات کے ذریعے بننے والی حکومت کی ساکھ کو مشکوک سمجھتی ہے جس سے ایک اور بحران پیدا ہوتا ہے۔ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کے خاتمے کے لئے فری اینڈ فیئر الیکشن بڑی حد تک مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔