پاکستان میں سیاسی ادارہ جس قدر کمزور ہے، عوام اتنے ہی پرجوش ہیں۔ ہر وقت بہترین رہنمائی کی تلاش میں رہتے ہیں، بہتر سے بہتر رہنما کی تلاش میں رہتے ہیں، یہ جز وقتی نہیں کل وقتی سیاست کرنا چاہتے ہیں، یہ پاکستان کی تقدیر بدلتے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں، یہ ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، انہیں کوئی بھی سیاسی فرض نبھانے کے لیے دیا جائے تو یہ بخوبی نبھاتے ہیں، جلسے جلوسوں میں ان کی آمد اور شوق دیکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ ن لیگ کی سر توڑ مہنگائی کے باوجود گزشتہ روز ضلع قصور کے نواحی علاقے کھڈیاں میں ن لیگ کے بہت بڑے جلسے نے تاریخ رقم کردی۔اس جلسے میں ہزاروں افراد موجود تھے، جو یقینا ن لیگ کی تاریخ کا بڑا جلسہ کہلائے گا۔ اس کا کریڈٹ یقینا ملک محمد احمد خان کو جاتا ہے۔ ملک احمد خان میڈیا پر شائستگی سے چبھتے ہوئے سوالوں کے جواب بھی دیتے ہیں اور سوال کرنے والے کو سراہتے بھی ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی ملک احمد خان کی تو وہ یقینا پڑھے لکھے ہیں، اُن کا خاندانی بیک گرائونڈ بھی سیاسی ہے، وہ ایچی سن کالج میں پڑھتے رہے ہیں، انہوں نے 1998ء میں ایل ایل بی آنرز کی ڈگری بکنگھم یونیورسٹی سے حاصل کی اور وکالت کی پریکٹس شروع کی۔ وہ 2002 سے 2007ء کے دوران پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن رہے اور پارلیمانی سیکرٹری برائے پارلیمانی امور کے طور پر کام کیا۔ وہ 2013ء میں دوسری مدت کے لیے پنجاب اسمبلی میں واپس آئے اور 2016ء 2018ء کے دوران وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و ثقافت رہے۔ وہ عام انتخابات 2018ء میں تیسری بار اس اسمبلی کے رکن کے طور پر دوبارہ منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے والد محمد علی خان، 1972ء سے 1977ء کے دوران رکن پنجاب اسمبلی رہے اور 1985ء سے 1994ء کے دوران بطور سینیٹر۔ انہوں نے 1986ء سے 1988ء کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے طور پر بھی کام کیا۔ملک احمد خان کے ماموں حاجی سردار خان تین دفعہ ایم پی اے رہے، اور دوسرے ماموں ملک رشید احمد خان مسلسل تیسری دفعہ ایم این اے ہیں جبکہ اُن کے کزن احمد سعید خان بھی قصور کے ایم پی اے ہیں۔ مطلب ! اُن کی خاندان سیاست میں دہائیوں سے حصہ لیتا رہا ہے۔ تبھی وہ کھڈیاں جیسے شہر میں اتنا بڑا جلسہ منعقد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اتنا بڑا جلسہ تو ن لیگ الیکشن کے دنوں میں بھی نہیں کر سکتی جتنا کرائوڈ انہوں نے گزشتہ روز جمع کر لیا۔ بلکہ میں تو کہوںگا کہ لاہور جسے ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، وہاں بھی ن لیگ اتنا بڑا جلسہ منعقد نہیں کر سکتی۔ حالانکہ میں کبھی ن لیگ کی پالیسیوں کا معترف نہیں رہا لیکن ملک احمد خان کی سیاست نے خاصا متاثر کیا ہے۔ وہ یقینا ن لیگ کے اس مشکل دور میں جب ہر طرف مہنگائی کا دور دورہ ہے، اور لوگ ن لیگ کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کر رہے ہیں جبکہ ن لیگ کے اندر کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور دیگر رہنمائوں کے بدلتے تیور اس بات کی علامت ہیں کہ موروثیت کا سرطان مسلم لیگ ن کو گھائل کر چکا اور اس کی طبعی عمر پوری ہو چکی؟ بہرحال مسلم لیگ ن کے پاس کارکنان کو ساتھ رکھنے کے لیے کوئی رومان باقی نہیں رہا۔ جو پارٹی سیاست میں رومان برقرار نہ رکھ سکے وہ فعل ماضی بن جاتی ہے۔ اس کے پاس ایسا کوئی پروگرام بھی نہیں جو نوجوانوں کو اس کی طرف راغب کر سکے۔ نوجوان لیپ ٹاپ لے کر بھی کسی دوسری جماعت کو ووٹ دینے پر بضد ہیں۔ پرانی عصبیت برف کے باٹ کی صورت دھوپ میں پڑی ہے اور نیا خون پارٹی میں شامل نہیں ہو رہا۔ ایسے میں انجام جاننے کے لیے آئن سٹائن کی ضرورت ہے نہ ابن خلدون کی۔لہٰذاایسی صورت حال میں ملک احمد خان نے مسلم لیگ ن میں ایک نئی روح پھونکی ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی رمضان المبارک جیسے مہینے میں جب عمومی طور پر سیاسی جماعتیں متحرک نہیں ہوتیں، ایک بڑا جلسہ کیا تھا جس میں مریم نواز نے شرکت کی تھی، اس جلسہ میں بھی رمضان المبارک کے باوجود کثیر تعداد میںشرکاء نے شرکت کی تھی۔ انہوں نے پارٹی کے برے ترین حالات میں بھی اپنے کارکنوں کو سنبھالے رکھا۔ اُن کے ساتھ میری اکثر گپ شپ رہتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ڈھلوں صاحب حلقے کے سیاسی کارکنوں کو اگر آپ مصروف نہیں رکھیں گے، انہیں متحرک نہیں کریں گے تو یہ فوراََ دوسری جماعتوں کی طرف دیکھنا شروع کریں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اگر جنگجو قبیلہ امن معاہدے پر دستخط کر دے تو اس قبیلے کے باسی آپس میں ہی لڑتے رہے ہیں گے۔ اسے انسانی فطرت کہہ لیں یا کچھ اور لیکن وہ واقعی اپنے حلقے کے لوگوں کو متحرک رکھنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، وہ اپنے کارکنان کی خود موٹیویشن کرتے ہیں، وہ حلقے کے ہر شخص کے ساتھ خود رابطے میں ہیں،اُن کے مسائل حل کرتے ہیں، وہ دلائل کے ساتھ بات کرتے ہیں،اور لوگ اُن کی بات پر پوری طرح دھیان بھی دیتے ہیں۔ میرے خیال میں ن لیگ کو ایسے ہی کارکنوں کی ضرورت ہے۔ ایسے رہنمائوں کی ضرورت ہے، جو ن لیگ کی باگ ڈور سنبھال سکیں، ایسے رہنمائوں کی ضرورت نہیں جو براہ راست ’’فلائیٹ‘‘ سے اترتے اور جگہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کی لوگ باتیں سننا تو دور کی بات لوگ اُن کا چہرہ دیکھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ یقین مانیں اس وقت کی صورتحال کے مطابق دیگر جماعتیں ن لیگی رہنمائوں جیسے رانا ثناء اللہ وغیرہ کو نفرت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اس کی وجہ 9مئی جیسے واقعات ہوں یا بدلے کی سیاست لیکن یہ ہر جماعت کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ اسی سے نکلنے کے لیے میرے خیال میں ن لیگ کو علاقائی سیاست کوفروغ دینا ہوگا۔ اور ملک احمد خان جیسے مخلص لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔ بہرکیف ن لیگ نے اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے تو اُسے آئندہ بھی ایسے رہنمائوں کو آگے لانا ہوگا،مسلم لیگ ن کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو آگے لے کر آئے، اور جنہوں نے زندگی کی بہاریں دیکھ لی ہیں، اُنہیں آرام کا موقع دیا جائے۔ اور پھر الیکشن کے انعقاد کو تو فی الوقت شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے لیکن میرے خیال میں ن لیگی قائدین کو اپنے اوپر لگے مہنگائی کے داغ دھونے کے لیے کچھ کرنا ہوگا، عوام میں جانا ہوگا، اور بدلے کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا۔ کیوں کہ عوام یہ جانتے ہیں کہ عمران کو ہٹانے کے بعد کوئی ایک کام ایسا نہیں کیا جا سکا جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہو۔ مسلم لیگ ن کی مبلغ معاشی مہارت کوئی دانش اجتماعی یا ادارہ سازی نہیں تھی، صرف اسحاق ڈار تھے۔ معلوم نہیں ان سے کیوں نہ معیشت سنبھل سکی؟ اور پھر مسلم لیگ کو یہ بھی علم ہے کہ اُن کا گڑھ پنجاب ہے، کے پی، بلوچستان اور سندھ میں پہلے ہی مسلم لیگ ن کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب میں بھی سمٹ گئی تو اس کا مستقبل کیا ہو گا؟مسلم لیگ ن اگر ایک سیاسی جماعت ہے تو اسے ان پہلوؤں پر توجہ دینا ہو گی اور موروثیت کے بجائے سلجھے ہوئے لوگوں کو آگے لانا ہوگا ورنہ اُن کے لگائے گئے داغ تاریخ میں کبھی دھوئے نہیں جا سکیں گے!