منگل کے روز پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش ہوا تو ایوان کا منظر لڑائی مار کٹائی سے بھرپور فلم جیسا تھا۔ اس سے اگلے روز قائد حزب اختلاف کی گرفتاری زیرِبحث لانے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہو رہا تھا۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ بدھ کے روز قومی اسمبلی کا منظر پنجاب اسمبلی سے زیادہ مختلف نہیں ہو گا کیونکہ سپیکر کے احکامات پر شہباز شریف اجلاس میں شرکت کے لیے آ رہے تھے بلکہ لائے جا رہے تھے۔ اجلاس ہوا اور اس کی ساری کارروائی باوقار انداز میں آگے بڑھی۔ میاں شہباز شریف نے بہت باتیں کیں، بڑی سخت باتیں بھی کیں مگر شعلہ بیانی سے اجتناب کیا۔ ان کا جو بھی مؤقف تھا اس سے اتفاق اختلاف تو الگ بات مگر انہوں نے دلیل سے بات کرنے کی کوشش کی۔ شہباز شریف نے نیب اور حکومت کے مابین اتحاد کو غیر مقدس اتحاد کہا۔ شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ ہم نیب کا خاتمہ نہیں چاہتے مگر اس کے قوانین میں اصلاحات ہونی چاہئیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی اس روز اپنے روزمرہ کے جلالی موڈ میں نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اپوزیشن نیب قوانین میں اصلاحات کا بل لائے گی تو ہم تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ پرانے بزرگ دعا دیا کرتے تھے کہ اللہ تمہیں تھانے کچہری سے بچائے۔ آج کل سب سے بڑی دعا یہ ہے کہ تمہیں نیب سے بچائے۔ گزشتہ دنوں یونیورسٹی اساتذہ کے ساتھ نیب نے جو سلوک کیا اور انہیں احتساب عدالتوں میں ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا اور پاکستانی ہی نہیں عالمی میڈیا نے بھی یہ مناظر دکھائے تب ہمیں نیب کے لامحدود اختیارات کا اندازہ ہوا۔ ہمیں حیرت ہے کہ گزشتہ دس برس پیپلزپارٹی نے باہمی اتفاق سے نیب کے ’’سافٹ چیئرمین‘‘ تو مقرر کیے مگر اس ادارے کے ان قوانین کو بدلنے کی کوشش نہیں کی جو انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ یہاں رسوائی پہلے ہوتی ہے اور شنوائی بعد میں ہوتی ہے۔ اگر مجھ سے پوچھیں تو بدھ کے قومی اسمبلی اجلاس میں سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما خواجہ آصف کا خطاب حاصل محفل تھا۔ میں خواجہ آصف کی لائیو تقریر سن رہا تھا اور بار بار مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہی ’’شرم کرو، حیا کرو انسان میں کچھ شرم تو ہوتی ہے‘‘ والے خواجہ آصف ہیں۔ خیال یہ تھا کہ خواجہ آصف اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے دھواں دھار، دھمکیوں سے لبریز اور شعلے اگلتی ہوئی تقریر کریں گے مگر اس روز وہ شعلہ نہیں شبنم بنے ہوئے تھے۔ اس روز خواجہ آصف نے اپنی روایت ترک کر کے اپنے والد خواجہ محمد صفدر کی سیاسی روایات کو زندہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 1980-90ء کی دہائی میں ہم نے بہت غلطیاں کیں مسلم لیگ ن نے اور پیپلزپارٹی نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے مقدمات بنوائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سبز جھنڈے والی گاڑی اور آگے پیچھے پروٹوکول دیکھ کر انسان آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ ہم بھی اس فطری، بشری کمزوری کا شکار ہوئے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ تحریک انصاف کی یہ خوش قسمتی ہو گی کہ وہ ہماری غلطیوں سے سبق سیکھے، خود غلطیاں نہ کرے۔ خورشید شاہ نے بھی اچھی گفتگو کی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا تذکرہ کیا۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے دو ٹوک انداز میں اس خیال کی تردید کی کہ حکومت اور نیب کا کوئی اشتراک و اتحاد ہے۔ حکومت بہرحال پارلیمنٹ میں بدھ کے روز جیسا ماحول برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کرے اور اپوزیشن کے ساتھ ایک اچھی ورکنگ ریلیشن شپ قائم رکھے۔ حکومت قومی نوعیت کے تمام امور کہ جن میں آئی ایم ایف جیسے معاملات شامل ہیں اسمبلی میںلانے اور اس پر ایک پارلیمانی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما سے بات کی کہ وہ پنجاب اسمبلی میں اس طرح کی ورکنگ ریلیشن شپ حزبِ اختلاف کے ساتھ قائم کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جیسی قومی اسمبلی اور سینٹ وغیرہ میں ہے تو انہوں نے کہا کہ یہاں ابھی مسلم لیگ(ن) کے ممبرانِ اسمبلی اور قائدین کے جذبات بھڑکے ہوئے ہیں، اس لیے ان شعلوں پر پانی ڈالنا کوئی آسان کام نہیں۔ عرض کیا کوشش تو کر دیکھیں۔ چودھری پرویز الٰہی تو میل ملاپ اور افہام و تفہیم کے معاملات میں بڑی مہارت رکھتے ہیں بلکہ نہایت کم سیٹوں کے ساتھ دوسری پارٹیوں کی حکومتوں کی فرنٹ سیٹوں پر وہ اسی ہنر کی بناء پر تو براجمان ہوتے ہیں۔ پہلے بھی عرض کیا تھا اب پھر گزارش ہے کہ وزیر اعظم عمران خان معیشت اور خارجہ تعلقات کو پہلی اور دوسری ترجیح قرار دیں۔ حزبِ اختلاف کی مہنگائی کے خلاف چیخ و پکار کو چھوڑیں۔ حکومت اپنے طور پر اپنے ذرائع سے معلوم کرے کہ بندۂ مزدور و مجبور کے اوقات پہلے سے کہیں زیادہ تلخ ہو چکے ہیں۔ غریب آدمی کو آئی ایم ایف، گردشی قرضے، زرمبادلہ او رتجارتی خسارے جیسی اصطلاحات و معاملات کے بارے میں کچھ خبر نہیں اسے خبر ہے تو اس بات کی کہ گیس مہنگی، بجلی مہنگی، اشیائے صرف کی ہر شے مہنگی اور اب تو لاہور میں میٹرو بسوں کے کرائے بھی تقریباً دو گنا ہو گئے ہیں۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی پیشگوئی بھی سامنے آ گئی ہے کہ چند ماہ میں مہنگائی دگنی ہو جائے گی۔ ڈالر اور مہنگا ہو جائے گا اور روپے کی بے قدری میں اضافہ ہو گا اور یہ بھی سٹیٹ بنک کی رپورٹ ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی۔ زرمبادلہ کا ذخیرہ اب 8ارب 8کروڑ کی سطح تک آ چکا ہے۔ حکومت نہ کوئی این آر او دے اور نہ کسی کو دینے دے مگر اپنی حکومت چلانے اور اسمبلیوں میں باہمی چپقلش کے ماحول سے نکلنے کے لیے باہمی تعاون کی فضا تو پیدا کرے۔ اگر اپوزیشن کے لوگ قومی معاملات میں مفاہمت کی بات کرتے ہیں تو حکومت بھی تعاون کا کلچر اختیار کرنے کی طرف مائل ہو۔ اس وقت بھاری کرپشن کے علاوہ مالیاتی خسارے کی وجوہات کا جائزہ بھی تو لینا چاہیے۔ تھرمل بجلی ہمیں پندرہ روپے فی یونٹ پڑتی ہے، اگر یہی بجلی ہائیڈل ہو تو زیادہ سے زیادہ تین چار روپے فی یونٹ پڑے گی بلکہ اس سے بھی کم۔ کالا باغ سمیت ڈیموں پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔ اب کئی دریائوں کا پانی خشک ہو چکا ہے۔ دریائے سندھ کا پانی سیدھا سمندر میں جا گرتا ہے۔ شکر ہے کہ سیاست کی اس افراتفری اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ میں کوئی تو فادر فگر کی حیثیت سے سامنے آیا جس نے اس وادیٔ پرشور میں اذاں دی ہے اور ساری قوم کو پکارا ہے کہ ڈیم بنائو زندگی بچائو۔ قوم نے پاکستان کے اندر اور باہر چیف جسٹس کی پکار پر لبیک کہا اور ہر کوئی اپنی حیثیت سے بڑھ چڑھ کر ڈیم فنڈ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد میں قلت آب سے نجات کے لیے دو روزہ بین الاقوامی سیمینار کا آغاز ہو چکا ہے۔ عالمی ماہرینِ آب اس گھمبیر مسئلے سے نجات کے لیے اپنی تجاویز دیں یہ ایک بہت اچھا اقدام ہے۔ اس طرح کے اہم قومی معاملات پر سیاست دانوں کو بھی سیاسی نفع نقصان سے ماوراء ہو کر سوچنا چاہیے۔ نیب سمیت احتساب کے ادارے اپنا کام کریں اور حکومت اپنا کام کرے۔ لوٹی ہوئی دولت کا ایک ایک پیسہ واپس آنا چاہیے مگر معیشت کی بحالی، کھیتوں کی ہریالی، فیکٹریوں کی روانی اور لوگوں کی خوشحالی کو بیرونی بنکوں میں پڑی ہوئی دولت کے ساتھ منسلک نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کام اپنے طور پر ہوتا رہے اور حکومت اپنے سیاسی ہنر اور اپنی اقتصادی مہارت کا مظاہرہ کرے۔ یہی تو ہمارے ماضی کا سبق ہے جس کی طرف بہت سے لوگوں نے متوجہ کیا ہے۔ خاص طور پر ایئرمارشل(ر) اصغر خان مرحوم نے تو اس موضوع پر ایک پوری کتاب لکھی تھی کتاب کا ٹائٹل ہے کہ ہم اپنی تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے۔ خوش قسمت افراد اور قومیں دوسروں کی مثالوں سے سبق سیکھتی اور اپنا حال اور مستقبل سنوار لیتی ہیں۔ ہمیں تو سبق سیکھنے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت بھی نہیں ایک سے بڑھ کر ایک درسِ عبرت ہماری اپنی تاریخ میں موجود ہے۔ اس پس منظر میں خواجہ آصف نے اگر تحریکِ انصاف کو ان کی غلطیوں سے سبق سیکھنے اور وہ غلطیاں نہ دہرانے کی تلقین کی ہے تو تحریک انصاف کو یہ سوچ کر اس نصیحت پر کان دھرنے چاہئیں کہ یہ نہ دیکھو کہ کس نے کہا یہ دیکھو کیا کہا۔