کروڑ ہا رحمتوں کا نزول ہو‘ ان کی قبر اطہر پر۔جن کے فیض گوہر بار سے خطّہ پنجاب اور ارض پاک حیات نو کی لذتوں ‘رعنائیوں اور بلندیوں سے سرفراز اور جن کے وجود سے ہماری ملت کے اْفق تاباں اور توانا ہوئے۔اے سرکار فیض عالم!آپ بلا شبہ اقلیمّ تصوف کے تاجدار‘بْرج طریقت کے نیّرِ درخشاں اور چرخ رْشد کے ماہ تاباں ہیں۔آپ کا آستان فیض۔آپ کی آبائی۔خاندانی ‘نسبی اور موروثی برکات و تعلیمات کا،اس خطے میں اولین مرکز ہے۔جہاں دنیا بھر سے عقیدت مند حاضری کی سعادت پاتے اور اپنے لئے روشنی‘راہنمائی اور آسودگی کا زادِ سفر ہمراہ کرتے ہیں۔اب کہ برس یہ سلسلہ اس قدر نقطہ عروج پہ پہنچا کہ آپؒ کی خانقاہ معلّیٰ کا دامن لبریز ہو گیا۔محبتوں اور چاہتوں کے قافلے آزادی چوک روڈ ،لوہاری گیٹ اور کچہری چوک اور سول لائنز چوک سے آگے بمشکل سرکتے ہوئے آپ کی درگاہ تک پہنچے۔اہلیان لاہور اپنے اپنے گلی کوچوں سے دیوانہ وار درِ داتا کی طرف بڑھے‘صرف ایک روز کی حاضری کے سرکاری اعداد و شمار سات لاکھ اسی ہزار ریکارڈ ہوئے۔مجھے پنجاب کابینہ کے ایک معتبر ممبر نے عرس کے افتتاح سے ایک روز قبل‘مطلع کیا کہ برطانیہ سے میرے جاننے والی ایک فیملی‘صرف عرس تقریبات میں شرکت کے لئے لاہور پہنچ چکی ہے ،ان کی فرمائش صرف اتنی ہے کہ انہیں دربار داتا پہ کوئی ایک گوشہ میسر آ جائے جہاں وہ اپنے ہاتھوں سے داتا کے مہمانوں اور دیوانوں کے لئے دسترخوان آراستہ کر سکیں۔ یا داتا!آپ کے دربار پر‘فیض رسانی اور بندہ پروری کا یہ سلسلہ ابدالآباد یونہی جوش زن رہے۔محبتوں اور عقیدتوں کے گلشن کی آباد کاری اور مہک آفرینی ایسے ہی فضائوں کو عطر بیز رکھے۔آپؒ کے فیض وجود نے جن ذروں کو روشنیاں اور تابانیاں بخشی تھیں۔وہ تو آج بھی شکر مندی اور احسان شناسی کے سبب اپنی گردنیں خم اور ان کے زبان و بیان ممنونیت کے جذبوں کو فراواں کئے ہوئے اور آپ کی برکات احسانات اور خدمات پر ہمیشہ تشکر کناں اور سپاس گزار رہے،آپ کے آستاں کے دروازے اگر کہیں مقفل ہو جائیں تو آپؒ کے عقیدت مند اور وابستگان ایسے مضطرب و بیقرار اور بے چین و پریشان ہو جاتے ہیں جیسے گویا ان پر ان کے اپنے گھر کے دروازے پر تالے پڑ گئے ہوں۔جس کے مناظر حالیہ کوویڈ 19کی پابندیوں کے سبب مزار اقدس کی عارضی قفل بندی کے موقع پر دیکھنے کو ملے۔مرد تو مرد خواتین بھی مزار کی بیرونی دیوار کے گردا گرد فٹ پاتھ پر قرآن ہاتھوں میں تھامے تلاوت اور مناجات و مناقب میں مگن نظر آتیں۔صد شکر کہ آپؒ کے سالانہ عرس کی تقریبات کے آغاز سے دو روز قبل مزارات کورونا ایس او پیز پر پابندی سے مشروط کھول دیے گئے اور مشکل اور کٹھن صورتحال میں آپؒ کے 978ویں سالانہ عرس کے امور آگے بڑھے، اس موقع پر خطرات درپیش تھے لیکن ان کی طرف سے۔۔۔ جنہوں نے ماضی قریب میں غلط ذھن سازی کر کے یہاں پر خودکش حملوں کے لئے نوجوان تیار کیے، جنہوں نے ایسے ہی سادہ لوحوں کے ذریعے اسلام کے نام پر 2019ء اور 2011ء میں بم بلاسٹ کروائے۔وہ بھی بزعم خویش خود کو حق پر ہی سمجھتے تھے ،اصل میں تو اس گھنائونے اور شرمناک سانحات کے اصل کردار وہ شیطانی معلم و مبلغ تھے جو دین اور جنت کے نام پر انہیں یہ سب کچھ کرنے اور کر گزرنے پر مجبور کرتے۔لیکن یا حضرت الشیخ الھجویر!ہم اہلیان خطہ پنجاب آپؒ سے سخت نادم ، واقعتاً غمگین۔آرزدہ اورازحد شرمندہ ہیں کہ امسال آپؒ کے یوم وصال پر آپ کی جامع مسجد کی علمی نشستوں کا وقار اور آپؒ کے محراب و منبر کا اعزاز‘کسی غیر کے نہیں بلکہ اپنوں کے ہاتھوں پائمال ہوا۔ان کے ہاتھوں جو آپؒ کے دریوزہ گر، آپ کی فکر کی پاسبانی کے دعویدار ،آپؒکی درگاہ عالیہ کے متوالے۔آپ کی عظمتوں کے امین اور آپ کے علوم کے علمبردار ہونے کے نقیب تھے۔یہاں انتظامی سطح پر کئی مشکل اور کٹھن مرحلے آئے، اجرتی قاتل‘بھی کئی مرتبہ اس آستاں کے تقدس کو پائمال کرنے کے درپے ہوئے۔لیکن اب کہ رنج و ملال اس لئے زیادہ‘دکھ اور غم اس لئے گھرا ہے ،اس مرتبہ یہ حرکت اس لوگوں کی ایما پر ہوئی، جو آپؒکے اعزاز میں کہے ہوئے مناقب میں سے حضرت اقبال کا یہ شعر بکثرت پڑھتے اور سر دھنتے ہیں ؎ سید ہجویر ‘مخدوم امم مرقد اوپیر سنجر را حرم یعنی حضرت داتا گنج بخش برصغیر میں پیران طریقت کے بھی مقتدا اور پیشوا ہیں اور آپ کے آستان کرم کے مقام و مرتبہ کو کوئی کیا جانے جو کہ سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتیؒ جیسی ہستی کے لئے بھی مقتدر‘معتبر، محترم اور مقدس و موقر ہے۔اے دلوں پہ راج کرنے والے مرشد حق!ہمارے احوال پر ایسے توجہ فرمائیے کہ آپؒکے ماننے والوں اور نام لیواوں کی قلبی کدورتیں اور ذہنی بْعد دور ہو جائیں۔ہماری فکری کجی اور عملی بے راہ روی اصلاح پذیر ہو اور آپؒ کے وابستگان غالب و کار آفرین بن جائیں ، ،وہ کشف المحجوب سے روشنی اور ہدایت کا نور پائیں ،وہ کشف المحجوب۔۔۔ جس میں آپؒ نے آئمہ تصوف کے طبقہ اول میں، آئمہ اہل بیت اطہار کے ساتھ صحابہ کرامؓاور بالخصوص خلفائے راشدینؓکا بھی تذکرہ فرمایا ہے اور جب آپ سے ان تذکار کا ورود ہوتا ہے توآپ کا لہجہ فرطِ عقیدت و محبت سے سرشار ہو جاتا ہے۔’’باب فی ذکر ائمتھم من اہل بیت‘‘ میں جب آپ حضرات امامین کریمین کے ساتھ حضرت امام زین العابدینؓ، امام ابو جعفر ؓ،محمد باقرؓ‘حضرت امام جعفر صادق ؓ کاذکر فرماتے ہیں ،توآپ کا پیرایہ اظہار شدتِ محبت و عقیدت سے لبریز اور الفاظ عقیدت و ارادت سے عنبر بار ہو جاتے ہیں۔یا داتا !انہی تذکروں میں پھر آپ نے ہشام بن عبدالملک کے اس واقعہ کا بھی ذکر فرمایا جب وہ حج کے موقع پر حرم کعبہ میں تھا اور خانوادۂ نبوّت کے شہزادے امام زین العابدین صحن میں یوں جلوہ آرا ہوئے کہ ان کے روئے انور سے چاندی کی مانند روشنی پھیل رہی تھی ،رخسار اقدس سے نور تاباں ضوریز اور وجود اقدس کی عطر بیزی سے راستہ مہک رہا تھا۔ہشام اور اس کے گرد موجود شامی مبہوت ہو گئے تھے اور اپنی خجالت اور شرمندگی چھپانے کے لئے توہین پر اترے،تو آپ کے محب صادق فرزدق نے امام زین العابدینؓ کی شان اور عظمت و جلالت کے بیان کے لئے ایک وقیع قصیدہ کہا تھا۔جو تاریخ ادب میں ’’قصیدہ لامیہ‘‘ کے طور پر معروف اور عربی ادب کے ماتھے کا جھومر ٹھہرا۔جس میں فرزدق نے کہا تھا: ’’یہ وہ ہستی ھے جس کے قدموں کی آہٹ کو بھی سرزمین بطحا پہچانتی ہے اور ان کے منصب جلیل کو کعبہ جانتا ہے اور حل و حرم واقف ہے، یہ لخت جگر ہے اسی عظیم ہستی پاک کا جو اللہ کے بندوں میں سب سے افضل ہے۔ جو خود پرہیز گار، پاکباز اور پاک باطن دنیا میں مشہور ہے، اچھی طرح پہچان لے۔ یہ نور نظر سیدہ زہرا(سلام اللہّ علیہا) ہے۔ اگر تو ان سے بے خبر ہے اور یہ تو وہ ہے جس کے جد امجد کی بعثت پر اللہ نے تمام نبیوں کی تشریف آوری کا سلسلہ ختم کیا‘‘ اے ہشام‘تیرا ان کے لئے تجاہل کا مظاہرہ کرنا ان کے لئے نقصان دہ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ انہیں تو عرب جانتا ہے اور عجم پہچانتا ہے…‘‘ حضرت داتا گنج بخشؒ یہ تو آپ ہی نے کشف المحجوب میں تحریر فرمایا کہ اہل بیت اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اس تعریف و توصیف سے ہشام اس قدر غضبناک ہوا کہ فرزدق کو عسفان، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ہے کے ایک کنویں میں قید کروا دیا اور پھر اس واقعہ کی اطلاع پا کر امام زین العابدینؓنے بارہ ہزار درہم بطور عطیہ فرزدق کے لئے روانہ کئے تھے اور فرمایا تھا کہ ابو فارس!ہمیں معاف کرنا کہ ہم اس وقت امتحان و ابتلا میں ہیں‘اس ہدیہ سے زائد‘اس وقت ہمارے پاس کچھ نہ ہے…کہ زائد بھجوا سکتے‘‘فرزدق نے درہم نقری واپس بھجوائے اور درخواست گزار ہوا کہ یہ اشعار زروسیم کے لئے نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں لکھے‘اس پر امام زین العابدینؓ نے فرمایا درہم اسے واپس دو اور اسے کہنا اگر ہمیں دوست رکھنا ہے تو اسے قبول کر لو‘اس لئے کہ ہم جو چیز کسی کو عطا فرما دیں وہ واپس نہیں لیا کرتے۔ یا داتا!اب اگر ائمہ اہل بیت کے لیے کوئی ایسا پیرایہ محبت اختیار کرتا ہے تو اسے نت نئے القابات سے نوازدیاجاتا ہے۔