" اعمالکم عمالکم ،یعنی تمھارے حکمران تمھارے اعمال کا عکس ہوں گے۔ وطن عزیز میں موجودہ صورتحال اس قول کی تصدیق کر رہی ہے۔ تمام پاکستانی عوام بھلے کتنی ہی گالیاں اور کوسنے حکمران طبقے کو دیں کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک کہ عوام خود اپنا قبلہ درست نا کر لیں۔ حکومت وقت کے ظالمانہ معاشی فیصلوں کی وجہ سے حالیہ دنوں میں مہنگائی کا جو طوفان برپا ہوا ہے، اس نے حقیقتاً جینا دو بھر کر دیا ہے۔ غریب، سفید پوش اور متوسط طبقے تو پہلے ہی مشکل سے اپنے گھر کا چولہا جلا رہے تھے لیکن موجودہ مہنگائی نے اچھی بھلی آمدن والوں اور کامیاب کاروباری طبقے کو بھی ناکوں چنے چبوا دیئے ہیں۔ اس ضمن میں گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے ہر کونے سے یہی خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ یکا یک چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اخبارات و رسائل دن دیہاڑے ڈکیتی کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں اور ہمیشہ کی طرح پولیس کا کردار کہیں نظر نہیں آ رہا لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ دن کی روشنی ہو یا رات کی تاریکی ، عوام کسی حال میں محفوظ نہیں۔ میرے اپنے آبائی گاؤں میں گزشتہ ہفتے لگاتار کئی راتوں تک ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں جن سے ہمارا گھر بھی محفوظ نہیں رہا۔ گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل ڈکیتی کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور پولیس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ لوٹنے والوں کی پسماندگی اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پیسہ، زیورات، گاڑی ، موٹر سائیکل، موبائل اور دیگر قیمتی اشیاء کے ساتھ ساتھ کچن کی صفائی بھی کرنے لگے ہیں۔ گھر سے جاتے جاتے دودھ، ملائی ، آٹا اور سبزی کی بھی صفائی کرتے جاتے ہیں کہ آخر یہ سب بھی سونے کے بھاؤ بک رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر غربت سے مجبور کوئی غریب روٹی چرائے تو ہاتھ غریب کے نہیں اس کے حکمران کے کاٹے جائیں۔ مگر المیہ تو یہ ہے کہ جہاں حکمران ہی چوروں اور ڈاکوؤں سے بڑھ گئے ہوں وہاں کیا کیاجائے؟؟ لیکن یہاں یہ امر قابل غور ہے اور افسوسناک بھی کہ آخر یہ قوم کس نہج پر چل پڑی ہے؟ یہاں کیسے انسان بستے ہیں جو انسانوں سمیت کسی چیز کو نہیں چھوڑتے ؟ شدید مہنگائی نے جہاں غربت ، بیروزگاری میں اضافہ کیا ہے وہیں ہمارا اخلاقی دیوالیہ بھی نکال دیا ہے۔ بھوک سے نڈھال پیٹ کو آخر جہنم کے ایندھن سے بھرنا کہاں کا انصاف ہے؟ جو لوگ ڈاکے مار کے، دوسروں کی محنت کی کمائی لوٹ کے اپنوں کا پیٹ بھر رہے ہیں وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ روز محشر انہیں مالک کائنات کے آگے جوابدہ ہونا ہو گا۔ بجائے کہ صاحب اقتدار طبقے کا گریبان پکڑا جائے ان کو کٹہرے میں لایا جائے جنہوں نے قرضوں کی دلدل میں اس قوم کو پھنسایا ، ان سے حساب مانگا جائے کہ آخر پچھلے پچھہتر سالوں میں کیا کھلواڑ کیا گیا ہے ہمارے ساتھ؟ ڈاکوؤں اور چوروں نے اپنا پیٹ بھرنے کیلئے حکمرانوں والی حکمتِ عملی ہی اپنا اور اپنوں کو ہی لوٹنا شروع کر دیا ہے۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے؟؟ لوگوں کو روزگار مہیا کرنا، انکی داد رسی کرنا یہ صرف حکومت کا کام نہیں ہوتا بلکہ عوام الناس کو بھی ایک دوسرے کا احساس کرنا ہوتا ہے۔ اگر انسان ہی انسانیت کا ثبوت نا دیں تو پھر ارض پاک پہ کس سے توقع رکھی جائے۔ لیکن جب عوام کی اکثریت میں حلال و حرام کی تمیز مٹ جائے تو پھر یہی حالات ہوتے ہیں جو ہم اس وقت پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ چھوٹے مزدور طبقے سے لے کر ایوان بالا میں بیٹھے حکومتی ارکان سبھی لوگ بے ایمانی، بد دیانتی ، چوری چکاری اور لوٹ مار کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے (الا ما شاء اللہ)۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فقر کفر تک لے جاتی ہے اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر سے پناہ مانگی۔ لیکن یہاں میرا اشارہ اس طبقے کی جانب ہے جو وسائل اور مواقع ہوتے ہوئے بھی حلال کا راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ تھوڑے میں قناعت اور حلال پہ توکل سے ہماری اکثریت محروم ہو چکی ہے۔ بنیادی ضروریات تو بنیادی ہیں لیکن اضافی خواہشات اور دکھاوے کی دوڑ نے ہمارے اندر سے دوسرں سے ہمدردی کا احساس چھین لیا ہے۔ سب نفسا نفسی کا شکار ہیں دوست احباب، رشتہ دار، عزیز و اقارب، ہمسائے اور محلے دار سبھی میں اجنبیت اور بے رحمی کی دیوار کھڑی ہے اور یہی حالات ہمارے حکمران طبقے کے ہیں۔ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کی حق تلفی کرنا، قتل و غارت گری ، لوٹ مار اور ظلم وزیادتی ہمارے معاشرے کا شیوہ اور معمول ہے۔ کوئی بھی خود کو الزام دینے اور اپنی اصلاح کرنے پہ آمادہ نہیں بلکہ دوسرے سے نبرد آزما ہے تو پھر معاشی حالات ہوں یا معاشرتی، بہتری اور بھلائی کبھی نہیں آ سکتی۔ یہ وطن اور یہ معاشرہ صرف معاشی طور پر دیوالیہ نہیں ہونے جا رہا بلکہ اس سے کہیں پہلے اخلاق ، کردار ، تمیز و تہذیب ، حلال، انصاف، شرم و حیا، صبر و برداشت اور انسانیت میں کب کا دیوالیہ ہو چکا۔ اس ضمن میں عوام اور حکمران ایک دوسرے کا آئینہ ہیں اور کوئی کسی سے کم نہیں۔ لہذا حالات کسی بھی نوعیت کے ہوں جب تک ہم بحثیت قوم اپنے اعمال درست نہیں کریں گے، اللہ کی جناب میں توبہ استغفار نہیں کریں گے اور صراط مستقیم اختیار نہیں کریں گے تب تک یہی حکمران ہم پہ عذاب الہٰی کی طرح مسلط رہیں گے اور ہم یونہی ایک دوسرے کے ہاتھوں دن رات لٹتے رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭