بہت دل دکھتا ہے۔یقین کیجیے بہت دل دکھتا ہے۔ یہاں تو ماں کوچھینک بھی آجائے تو فکر سی لگ جاتی ہے کہ کہیں خدانخواستہ بخار تو نہیں۔ بخار ہو تو اندیشہ ہائے دو دراز دل بے چین کئے دیتے ہیں۔ موسمی بخار ہی ہے نا کہیں خدا نخواستہ نمونیا،ٹائیفائڈ کا خدشہ تو نہیں۔ کون سے طبیب کو دکھایا جائے کہ بیماری جلد از جلد دور ہو سکے۔ ماں جلد صحتیاب ہو تو گھر پھر سے جی اٹھے۔ بیمار ماں بیمار اولاد کی طرح دیکھی کب جاتی ہے۔ انسان سرہانہ پکڑ کے بیٹھ جائے اور یا سلام کا ورد کرتا رہے۔دوائی دے اورشفایابی کا انتظار کرے۔ایک طبیب سے شفا نہ ہو تو دوسرا ڈھونڈے ۔ایلوپیتھی سے شفا نہ ہو تو یونانی سے رجوع کرے۔ پھر بھی دل نہ مانے تو کسی ہومیو پیتھک ڈاکٹر کا پتہ کرے جو سنا ہے مرض کے جراثیموں کے ساتھ کوئی ذہنی کھیل کھیلتے ہیں کہ پہلے کون ہار مانتا ہے۔ اب یہ مریض کی قسمت کہ پہلے ڈاکٹر ہارتا ہے یا مرض۔ ساتھ ساتھ دم درود اور وظائف تو چل ہی رہے ہیں۔دیسی ٹوٹکے بھی آزمائے جارہے ہیں۔ بس کسی طرح ماں صحت یاب ہوجائے۔اسے شفا مل جائے تو سکون کا سانس آئے۔ وہ پھر سے ہنسنے بولنے ڈانٹنے ڈپٹنے لگے تو آنگن میں لگی چنبیلی مہکنے لگے۔موتیا کھل اٹھے اور بوگن ویلیا ذرا شوخ رنگ ہوجائے۔ دل سے بے اختیار دعا نکلتی ہے۔ کاش کسی کی ماں بیمار نہ ہو۔ آپ جیسی بیمار تو ہرگزنہ ہو۔ کینسر کے مرض کی تو دہشت ہی بہت ہے۔ مریض سے پہلے اس کے لواحقین ہار مان لیتے ہیں۔پھر علاج اتنا مہنگا کہ سر کی چھت اور پیروں کی زمین فروخت کرنی پڑ جائے تب جاکے کوئی آسرا ہو۔اب ہر کسی کی قسمت آپ جیسی تو نہیں ہوتی۔ اللہ رکھے آپ کے سرتاج اس مملکت خدادا د کے تین بار بلاشرکت غیرے حکمران رہ چکے۔ ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ دو سو سال سلطنت برطانیہ کے زیر نگین رہنے کے باوجود اس ملک کی کثیر آبادی نے کبھی اس شہر کا نام بھی نہ سنا ہوگا جہاں کے ایک مہنگے اسپتال میں آپ زیر علاج ہیں۔ آپ کا چھوٹا بھائی اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا سب سے طویل مدتی وزیر اعلی رہا جہاں عورتیں اسپتالوں کے برامدوں، رکشوں اور ٹیکسیوں میں بچے جنتی ہیں۔ اور جب ایسا شرمناک وقت آتا ہے تو ان کے مرد کہیں سے کوئی چادر دستیاب کرکے اس کے گرد ایسا وارڈ بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی عزت رہ جائے۔ یہ وہ مرد ہیں جنہیں یہ علم بھی نہ ہوگا کہ آپ جس اسپتال میں زیر علاج ہیں اس کا نام کیا ہے، اس کا ایک دن کا خرچہ کتنا ہے اور یہ خرچہ پورا کہاں سے ہورہا ہے ہاں آپ کا وزیر صحت انہیں یہ طعنہ ضرور دیتا ہے کہ اپنی عورتوں کو وقت پہ اسپتال نہ لانے کا یہی نتیجہ نکلتاہے۔ وہ یہ نہیں بتاتا کہ جو وقت پہ اسپتال لائی گئی تھی وہ ابھی تک برامدے میں لیٹی قدرت کے اشارے کی منتظر ہے کیونکہ اس کی باری آئی ہی نہیں۔وہ یہ بھی نہیں بتاتا کہ پاکستان میں دوران ولادت عورتوں کی فوتگی کی شرح دنیا بھر میں بنگلہ دیش سے بھی زیادہ ہے اور جنوبی ایشیا میں تیسرے نمبر پہ ہے۔یہاں ہر بیس منٹ میں ایک عورت دوران زچگی صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے فوت ہوجاتی ہے۔ نومولود اگر دنیا میں آگیا تو اسے کبھی اپنی ماں کا چہرہ یاد نہیں آتا کیونکہ اسن نے کبھی دیکھا نہیں ہوتا۔ ایک ہزار میں سے تقریبا سو عورتیں اسی جانکنی کے عالم میں گزرجاتی ہیں اور چھیاسٹھ بچے اس دنیا میں آنے سے پہلے فوت ہوجاتے ہیں جبکہ ہمارے پڑوس سر ی لنکا میں یہ شرح آٹھ فی ہزار اور بھارت میں اڑتیس فی ہزار ہے۔ وجہ کیا ہوتی ہے؟ آپ کے سرتاج ،ہمارے ظل الہی کے زیر حکم اس ملک میں بالعموم اور آپ کے دیور کے زیر نگین اس صوبے میں بالخصوص عورتوں کے لئے صحت کی سہولیات کا فقدان ۔صحت کبھی ان کی ترجیح رہی ہی نہیں۔ اوسطا اعشاریہ نو فیصد جی ڈی پی پاکستان میں صحت کی مد میں خرچ کی جاتی ہے جو چھتیس ڈالر فی کس بنتی ہے جبکہ اسے چھیاسی ڈالر فی کس ہونا چاہئے۔ صحت کے شعبے میں خرچ کیا جانے والا جی ڈی پی کی یہ فیصد ایک ملک سے زیادہ ہے اور وہ ہے عوامی جمہوریہ کانگو۔آپ کو سن کر برا تو لگا ہوگا لیکن اس کا ازالہ کرنے کے لئے آپ کے دیور عرف خادم اعلی نے شبانہ روز محنت سے لال بس اور نارنجی ٹرین چلا رکھی ہے۔ سڑکوں پہ بچے جننے والی عورتیں تھوڑی زحمت کر کے میٹرو اور اورنج ٹرین کا ہی ٹکٹ کٹا لیا کریں تو کم سے کم بچے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں تو پیدا ہوں لیکن عوام میں صبر ہوتا تو یہ نوبت ہی کیوں آتی۔آپ پڑھی لکھی خاتون ہیں ۔ شاید آپ کو یہ علم بھی ہوگا کہ آپ کے ملک پاکستان میں جہاں آپ چھٹیاں گزارنا اور علاج کروانا پسند نہیں کرتے ، اس کی کل آبادی اپنے خراجات کا محض ایک تہائی حصہ صحت پہ خرچ کرتی ہے جو نہ صرف ترقی یافتہ ممالک بلکہ ترقی پذیر ممالک جیسے تھائی لینڈ اور سری لنکا سے بہت کم ہے ۔ یہ اخراجات بھی زیادہ تر نجی صحت کے شعبے کی نذر ہوجاتے ہیں کیونکہ سرکاری اسپتالوں کی حالت اول تو اس قابل نہیں دوسرے بڑھتی آبادی کے تناسب سے بالکل ناکافی ہے۔سرکاری اسپتال میں مریض کا نمبر آنے سے پہلے ملک الموت کی لسٹ میں نمبر آجاتا ہے خیر خدائی کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔عالمی صحت کے اشاریئے بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی نے اتنے لوگ نہیں مارے جتنے ہیپاٹائٹس سی ، ملیریا اور دیگر وبائی امراض کی بھینٹ چڑھ گئے۔پاکستان کی بڑی آبادی کو پینے کا صاف ہی نہیں گندہ پانی بھی میسر نہیں ایسے میں ڈاکٹر اور کلینک تو دیوانے کا خواب ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ایک عورت کو جب زچگی کے لیے اونٹوں اور چھکڑوں پہ اسپتال لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اسی فیصد کیسز میں اس کی نوبت ہی نہیں آتی۔ یا تو نومولود اسی دوران دنیا میں آجاتا ہے یا دونوں ہی دنیا سے گزرجاتے ہیں۔اکیس کروڑ کی آبادی والے ملک میں ڈاکٹروں کی تعداد دو سے تین لاکھ ہے جبکہ صرف تیرہ سے پندرہ ہزار صحت کی سہولیات کے مراکز ہیں جن میں سے اکثر کا حال آپ تک بھی پہنچتا ہی ہوگا۔ اسی ملک میں دس ہزار افراد کے لئے صرف نوے ڈاکٹر ہیں جو عمومی ڈاکٹر کہلاتے ہیں یعنی تیرہ سو افراد کے لئے ایک ڈاکٹر۔ اپنے سرہانے ماہر طبیبوں کا جھمگٹا دیکھ کر یہ سب یاد تو آتا ہوگا۔اور دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں سے ایک کے مہنگے ترین اسپتال میں علاج کی جدید ترین سہولیات سے مستفید ہوتے ہوئے یہ بھی سنائی دیتا ہوگا کہ آپ کے شوہر اور دیور کے ملک میںپورے بارہ سو اسپتال بھی نہیں ہیں جن کے تقریبا دو لاکھ بستروں میں سے اکثر وہ ہیں جہاں غریب کی پہنچ ہی نہیں ہے۔ٹی بی جیسے موذی اور متعدی مرض کے سدباب کے لئے صرف تین سو طبی مراکز ہیں ۔آپ خو ش نصیب ماں ہیں جس کے سرہانے اس کی اولاد اور شوہر اس کی دلجوئی کے لئے موجود ہیں جبکہ ان پہ اربوں کے غبن اور غیر قانونی جائدادوں کے مقدمات چل رہے ہیں۔ اسی ملک خداداد میں جھوٹے مقدمات میں قید ہزاروں افراد ایسے ہیں جو اپنے پیاروں کے جنازوں میں بھی شریک نہیں ہوسکے عیادت تو خیر ایک عیاشی ہے۔تقریبا نو ہزار پاکستانی جھوٹے مقدمات میں دنیا بھر کی جیلوں میں قید اپنے پیاروں سے دور کسی امید میں دن رات گزاررہے ہیں کہ ان کی حکومت ان کی پرسان حال نہیں۔آپ کتنی خوش نصیب ہیں کہ آئے روز ہر خوشی غمی پہ آپ کی اولاد بالخصوص آپ کی صاحبزادی آپ کے دل پہ اپنا تازہ مینی کیور زدہ ہاتھ رکھنے کے لئے موجود ہے۔ آپ کے تابعدار بیٹے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لئے آپ کی نظروں کے سامنے ہیں اور سب سے بڑھ کر آپ کا شریک حیات آپ کے سر پہ ہاتھ رکھ کر فوٹو سیشن کروانے کے لئے حاضر ہے۔ اللہ آپ کو شفا دے۔ مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں۔ دل بہت دکھتا ہے جب ماں بیمار ہو۔ اسی واسطے ،یہیں اسی ملک میں ایک شخص کی ماں اسی مرض میں،جس میں آپ مبتلا ہیں، جان کی بازی ہار گئی تھی۔ تب اس نے عہد کیا تھا کہ وہ کسی ما ں کو کم سے کم اس مرض میں مرنے نہیں دے گا ۔ اس نے کوئی عہدہ، منصب یا حکومت کے نہ ہوتے ہوئے پاکستان میں عالمی معیار کے ایک اسپتال کی بنیاد رکھی تھی اور حکومتی وسائل نہ ہونے کے باوجود اسے عالمی معیار کا کینسر اسپتال بنا دیا کیونکہ وہ ماوں کو سانجھا سمجھتا تھا ۔ کاش آپ کے سرتاج ، بیٹی اور دیور نے بھی ماوں کوسانجھا سمجھا ہوتا تو اس معیار کا کم سے کم ایک اسپتال تو بنوالیا ہوتا جہاں آپ کا علاج ہوسکتا ۔ مگر کاش!