کشش ثقل صرف زمین ہی کے لئے مخصوص نہیں‘ بعض انسانوں کی شخصیت سے بھی ایسی مقناطیسی لہریں نکلتی ہیں،جو اپنے اردگرد کے ماحول پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر یہ لہریں ایک ایسے آدمی سے ضوریز ہوں، جس کے خیالات اور افعال و اعمال پاکیزہ اوردل ودماغ میں محبت،مروت اورپاکیزگی کی دنیاآباد ھو، تو دوسروں کیلیئے رغبت اور کشش کا باعث ہوتی ہیں،انکے چہروں سے نور اورپیشانی سے روشنی ہویداہوتی ہے، دل بے اختیارانکی طرف کھنچتے اورانکی قربت باعث راحت ،جبکہ دوسری صورت میں ،اگرکسی مردوداورراندہ شخص سے واسطہ پڑجائے،تواسکی خشونت،بدوضعی اوربے آہنگی نفرت ،کراہت اور دوری کا سبب ہوتی ہے۔یہ معاملہ صرف مشرق کے علماء تک ہی محدود نہیں‘مغرب کے صوفی بھی اس خیال کے موید ہیں کہ انسان کے جسم سے مختلف رنگ کی شعاعیں نکلتی ہیں، جو جسم کے اردگرد ایک ہالہ سا بناتی ہیں۔یہ شعاعیں ہر آدمی سے خارج ہوتی ہیں،خواہ وہ نیک ہو یا بد۔فرق یہ ہے کہ نیک و بد کی شعاعوں کا رنگ ان کے کردار کے مطابق ہوتا ہے، بدطینت اور بدکار کا اورا (Aura)اور دائرہ دیوار کی طرح سخت، جس سے کوئی دعا یا فریاد باہر نہیں جا سکتی اور روحانی اور ماورائی قوتوں کی تائید اور باطنی اثرات اس تک پہنچ نہیں پاتے۔ایسا آدمی باطنی نعمتوں اور خفیہ طاقتوں کی سپورٹ اور مدد سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔قرآن پاک کے الفاظ حجاب‘غشاوہ(پردہ) سد(دیوار) غلف (غلاف) سے بھی شاید ایسے امور مراد لئے گئے ہوں، گویا ہر آدمی کا ایک اپنا اورا(Aura)ہوتا ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر کرنگٹن کے یہ خیالات وقیع ہیں۔ Aura is an invisible magnatic radiation from the human body ,which either attracts or repelr یعنی اورا (ہالہ، دائرہ) وہ غیر مرئی مقناطیسی روشنی ہے جو ہر انسانی جسم سے خارج ہوتی ہے یہ یا تو دوسروں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں یا پرے دھکیل دیتی ہے، ایسے کیسز اور واقعات سے انکار ممکن نہیں بعض افراد کی طرف کشش محسوس کرنا اور بعض سے بلا سبب ہی دور بھاگنا ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے۔ یہ شعاعیں اور روشنیاں جسم مادی اور جسم لطیف یعنی باطنی سطح دونوں ہی سے نکلتی ہیں، نیک اور صاحب کردار شخص کا وجود لوگوں کے لئے کشش اور اپنائیت کا باعث بنتا اور ایسی ہستیوں کے گرد عقیدت مندی اور ارادت کیشی کا ساماں رہتا ہے جبکہ بدطینت و بدکردار لوگوں سے ہر سلیم الفطرت اور صحیح العقل بعد اور دوری کا متمنی ہوتا ہے۔ضاحک ،متبسم اورخوشنماچہرے،وہ انعام ھیں جو پاکیزہ ھستیوں کواللہ کیطرف سے عطاہوتے ہیں ،جیساکہ ارشادربانی ہے: "کتنے ہی چہرے اس دن (نورایمان سے)چمک رہے ہوں گے،ہنستے، مسکراتے ہوئے،خوش وخرم۔اورکئی چہرے اس دن غبارآلودھونگے،ان پرسیاہی چھائی ہوگی "۔برصغیرکی تاریخ تصوف وطریقت ایسے اولیاوصوفیاکے وجود کی روشنیوں اورضوریزیوں سے منوراورآراستہ نظرآتی ہے،جنکے وجود ہمیشہ حق و صداقت کے امین رہے،تمہید لمبی ہو گئی ،یہ سب باتیں ملتان میں سادات بخاری کے مرشد روحانی‘قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن الدین رکن عالم نوریؒ کے 708ویں سالانہ عرس کی حاضری کے دوران اس تناظر میں یاد پڑیں کہ آپ کے جد امجد شیخ الاسلام حضرت بہائوالدین زکریا نے اپنی مسند علم و حکمت قلعہ کہنہ قاسم باغ میں ہندووں کے قدیم مندر ’’پر ہلادجی ‘‘ کے سامنے آراستہ فرمائی۔ تو بتوں کے پجاری جب اپنے خود ساختہ خدائوں کی پرستش کے بعد باہر آتے تو سامنے حضرت غوث بہائوالدین زکریا ملتانی کا پرنور چہرہ دیکھتے ،تو بے ساختہ پکار اٹھتے کہ ہم کن ظلمت کدوں میں بھٹک رہے ہیں‘نور کی روشنی اور ہدایت کی کرنیں تو ان کے چہرے سے پھوٹ رہی ہیں۔بقول اقبالؔ نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں جلا سکتی ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کی الٰہی کیا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سینوں میں تمنا درد دل کی ہو تو خدمت فقیروں کی نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں بہرحال گزشتہ روز حضرت قطب عالم شاہ رکن الدین رکن عالم کے عرس کے دوسری روز کی پرشکوہ تقریب میں حاضری کی سعادت ان آخری لمحات میں میسر آئی‘ جب تقریب اپنے نقطہ کمال اور لمحہ عروج پر تھی ،حضرت مخدوم شاہ محمود قریشی مسند سجادگی و صدارت پر جلوہ آرا تھے۔انہوں نے کمال وسعت و کشادگی سے ازخود پذیرائی فرمائی۔ جو ایک سہروردی شیخ کی اس بخاری النسب ارادت مند کے لئے تھی، جن کے اجداد اور سادات اوچ شریف ‘ملتان کے حضرات مشائخ سہروردی کے حلقہ بگوش رہے۔ سہروردی سلسلے کے مشائخ و مقتدا چونکہ ازخود مضبوط علمی روایت کے امین تھے۔اس لئے انہوں نے اپنی خانقاہوں کے وسائل کو علم کی تحصیل و ترسیل بھی صرف کیا اور ازخود بھی مسند علم و حکمت کو مزین و آراستہ کیا، اس عہد کے معروف عالم مولانا ظہیر الدین محمد سہروردی ،جنہیں حضرت شاہ رکن عالم کے آخر ی ایام میں، آپ کی خدمت میں رہنے کا اعزاز اور شرف بھی میسر رہا‘سے ایک مرتبہ سلطان غیاث الدین تغلق نے حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مقامات علمیہ و روحانیہ کی بابت دریافت کیا‘ مولانا موصوف نے بیان کیا کہ میں دیکھتا کہ بطور خاص جمعتہ المبارک کے روز بہت سے لوگ ان کی قدم بوسی کے لئے جمع ہوتے اور آپ کے فیوضات کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا۔میں سوچتا کہ پتہ نہیں حضرت ابوالفتح شاہ رکن عالم کے پاس کیا تسخیر ہے۔جو بھی آپ کو دیکھتا ہے آپ کا مرید و معتقد ہو جاتا ہے۔مولانا کہتے ہیں کہ میں سوچتا کہ علم تو میں نے بھی پڑھا ہے لیکن لوگوں کی نگاہیں تو صرف حضرت مخدوم رکن عالم ہی کے چہرے کا طواف کرتی ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ کل آپ کی خدمت جائوں گا۔یہ مسئلہ پوچھو گا کہ کلی کرنے(مضمضہ) اور ناک میں پانی ڈالنے(استنثاق) میں کیا حکمت ہے؟وہ کہتے ہیں کہ رات سویا تو خواب دیکھا کہ میر ے شیخ مجھ کو حلوا کھلا رہے ہیں ،جس کی شیرینی صبح تک اپنے حلق میں محسوس کرتا رہا۔مولانا جب صبح اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ تو حضرت شاہ رکن عالم نے ان کو دیکھتے ہی خوش آمدید کہا اور فرمایا: میں تمہارا ہی منتظر تھا۔پھر گفتگو شروع فرمائی کہ جنابت دو طرح کی ہوتی ہے ،ایک جنابت دل اور ایک جنابت بدن۔جنابت بدن جو اہلیہ سے صحبت کے سبب لازم آتی ہے اور دل کی جنابت۔نالائقوں اور ناجنسوں کی صحبت سے آتی ، جنابت تن کے لئے تو پانی کے غسل کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ دل کی پاکیزگی کے لئے آنسووئوں کا پانی درکار ہوتا ہے۔پھر فرمایا : پانی میں تین اوصاف ہوں ،تو طاہر اور مطہر یعنی پاکیزگی عطا کرنے والا ہوتا ہے اور وہ تین اوصاف ہیں:لون(رنگ) طعم(مزہ) ریح(بو) پانی کو دیکھنے سے اس کے رنگ کا پتہ چل جاتا ہے۔ شریعت نے وضو میں کلی کرنا اور پھر ناک میں پانی ڈالنا اس لئے مقدم رکھا کہ کلی کرنے سے پانی کا ذائقہ معلوم ہو سکے اور ناک میں پانی ڈالنے سے اس کی بو سے آگاہی ہو۔ مولانا کہتے ہیں:حضرت الشیخ کے اس تبحر علمی سے میرے جسم پر کپکپی اور پسینہ آ گیا۔اس کے بعد حضرت شاہ رکن عالم فرمانے لگے کہ: شیطان جس طرح نبی کریم ؐ کی صورت اختیار نہیں کر سکتا اسی طرح حقیقی شیخ کی شکل بھی اختیار نہیں کر سکتا۔اس لئے کہ حقیقی شیخ رسول اللہ کی پوری پوری پیروی کرتا ہے اور پھر فرمایا مولانا !ابھی آپ ظاہری علوم سے آراستہ ہیں، باطنی علوم سے آشنائی اور وارفتگی کے لئے کسی درویش کی صحبت اختیار کریں۔ جس پر مولانا ظہیر الدین محمد سہروردی آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہو کر فیض نسبت سے آراستہ ہوئے۔