گزشتہ چند دنوں میں کچھ از حد قیمتی لوگ ہاتھ سے کیا ، زندگی سے نکل گئے ،جن میں ایک اہم ترین---برادرِ مکرم صاحبزادہ پیر سیّد محمد رضا شاہ بخاریؒ ہیں،جنہیں متعلقین و متوسلینِ خانقاہِ عالیہ---’’حاجی پیرؒ‘‘کے نام سے جانتے اور پکارتے،اور پھر بتدریج خاندانی ماحول میں بھی حاجی صاحب ہی کے نام سے معروف رہے۔میرے والدِ گرامی رحمۃ اللہ علیہ حجرہ نشین شخصیت ہونے کے سبب،جدید تعلیمی اداروں سے بہت زیادہ رسم و راہ کے حامل نہ تھے، اس لئے سکول اور کالج کے تعلیمی مدارج میں حاجی صاحب کی سپرویژن اور سرکردگی میسر رہی، گریجوایشن کے بعد، آپ ؒکاروباری زندگی میں منہمک رہے ،لیکن ایسے بھی نہیں،بلکہ دینی اور روحانی حوالے سے اپنے آباؤ اجداد کے مشرب پر گامزن اور سلوک و طریقت میں نقشبندی روایات کے امین بنے، اپنے بزرگوں کی خانقاہ اور آستانے کے ماہانہ اور سالانہ روحانی معمولات اور امور کے نقیب اور داعی تھے۔جمال اور جلال اکثر اوقات انتہائوں کو چھوتا رہتا،بہت کچھ کرنے اور گزرنے کا داعیہ اور جذبہ اُن کے رگ و پے میں تھا،سیمابیت اور سلانیت کے مستقل حامل رہے۔کافی عرصے سے ان کی صحت، طبیعت اور مزاج کے مسائل تو تھے، مگر ایسے بھی نہ تھے--- گذشتہ جمعرات کو اچانک طبیعت ناساز ہو گئی اور پھر ---- کُلبئہ افلاس میں،دولت کے کاشانے میں موت دشت و دَر میں،شہر میں،گلشن میں، ویرانے میں موت موت ہے ہنگامہ آراء قلزمِ خاموش میں ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں نے مجال شکوہ ہے نے طاقتِ گفتار زندگانی کیا ہے فقط طوقِ گلو افشار ہے اور دُعا ہے کہ؛۔ آسمان ان کی لحد پہ شبنم افشائی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ساداتِ نارنگ شریف اور مشائخ سلسلۂ نقشبندیہ کے سالانہ عرس کی تقریبات منعقدہ 23اکتوبر2021ئ،بمقام دربار حضرت پیربخاری نارنگ شریف،جس کے منتظم وموید ومہتمم ہونے کی لگن اور تڑپ ہمارے موصوف و ممدوح ہمیشہ رکھتے تھے ،سے ایک روز پہلے ہی،اسی آستاں میں اپنے والد گرامی ؒ ،جد امجدؒ اور خاندان کی دیگر جلیل القدر ہستیوں کے پہلو میں آسودئہ ہوگئے؛۔ پھر پلٹ کر نہ وہ کبھی آئے جو یہ کہتے تھے، ہم ابھی آئے اور عرس شریف کے روز ہی ان کی رسمِ قُل کااہتمام ہو گیا، جڑانوالہ میں بھی قُل شریف کا ختم ہوا، اور ان کے ایصال ِ ثواب کی خصوصی تقریب داتاؒ دربار میں منعقد ہوئی جو کہ یقیناـ؛۔ یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے اس موقع پر بخاری خانوادے کے سُرخیل، سیّد شفیق حسین بخاری سے حسبِ سابق ساداتِ بخاری و نقوی کی، بخارا سے نقل مکانی، نسبتِ سہر وردی سے آراستگی اور سندھ کے ساحلوں پر تشریف آوری جیسے موضوعات پر راہنمائی میسر آئی ،اور پھر ہمارے حضرت شاہ جی صا حب کے " تذکرۃُ الفاضلین فی مناقب ابراہیم، سیّد الکاملین"کی ترتیب و تدوین کے موقع پر کہے ہوئے وہ الفاظ تازہ ہو گئے ، کہ برصغیر پاک و ہند میں اُوچ شریف کے سادات نے دین مبین کے لیے ہمیشہ قلعہ کا کام کیا ۔ یہاں کے گیلانی سادات ہوں یا بخاری و بھاکری---- سب نے اپنے اپنے زمانے میں اپنے اسلاف کے تربیتی خطوط پر دین اسلام کی تبلیغ کی ، کروڑوں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ، سندھ سے سمندری گزر گاہوں کی ساحلی آبادیاں عموماً اور جاوا، سماٹرا اور انڈونیشیا کی وسعتوں تک خصوصاً، کروڑوں لوگ ان کی تربیت و دعوت سے فیض یاب ہوئے ۔ آسمانِ رفعت پر سادات اُوچ شریف میں کوئی نہ کوئی ستارہ چمکتا رہا مخدوم جہانیاں جہاں گشت ہوں یا سیّد جلال الدین سرخ پوش ، سیّد بدر الدین ہوں یا سیّد صدر الدین بادشاہ ، وارث شاہ ہوں یا بلھے شاہ ، ساداتِ ٹیکسلا ہوں یا آلو مہار کے شرفا اور نارنگ شریف کے نجبائ---- علم و ادب کی محفلو ں میں ان کی کاوشوں سے ہمیشہ چراغاں رہا۔ سادات اُوچ شریف تعلیم و تزکیہ اور دین کے اسرار و معارف سے آگاہ لوگ تھے ، وہ جانتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے دو طرح کا فیض نسل درنسل منتقل ہوتا رہا اور کائنات کشکول طلب میں روشنیاں اکٹھی کرتی رہی۔ ایک علم ظاہر جو اقوال رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور افعال رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مرقع ہے ، قرآن و حدیث اور فقہ تمام علوم و معارف کا سرچشمہ لسانِ رسالت اور مشکوۃ نبوت ہے اور فیض کی دوسری قسم قلب انور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے حاضرین مجلس کے قلوب و صدور میں منعکس ہونے والی روحانی شعائیں ہیں اور یہی وہ فیض ہے، جسے فیضِ صحبت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی سے استقامت علی الحق کی استعداد پیدا ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قلب ِمبارک سے انعکاسی طریقہ سے جو فیض صحابہؓ کے دلوں میں منتقل ہوا اور صحابہؓ سے تابعین کے دلوں میں اور ان سے اولیائے اُمت نے اپنا حصہ پایا۔سچی بات یہ ہے کہ دین کا چمن ان ہی قدسی صفات لوگوں کے زہدو تقویٰ سے آراستہ ہوا آج بھی اس زمین پر جو لوگ دین مبین کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں،سب سے مئوثر کام اہل اللہ ہی کا ہے۔صحبت نبوی کے عالمگیر اثرات کا تاریخی ادراک کم از کم سادات بخارا اور بھکر کو از حد زیادہ تھا،یہی وہ ہے کہ وہ زمانہ قدیم سے حصولِ صحبت کے لیے پروانوں کی طرح تڑ پتے رہے،ایک دور میں وہ حضرت بہا ء الحق زکریا ملتانی کی شمع محبت پر فریفتہ ر ہے،مرور زمانہ کے ساتھ ان کی اولاد یں دین ِ مبین کی خدمت میں کمر بستہ رہیں اور یہ عظیم لوگ ھمچو ما دیگر ے نیست کا شکار نہ ہوئے بلکہ جہاں کوئی صاحبِ حال اور مردِیا دمست نظر آیا یہ اس کے اگرد گردا کٹھے ہوگئے ۔ سیّد جلال الدین بخاری ، سیّد صدر الدین سلطان اور سیّد بدر الدین بادشاہ کی اولادیں ملتان، لاہور،رسول پور، نارنگ منڈی ، آلومہار، حافظ آباد، ٹیکسلا، خیبر پختون خواہ میں مردان، صوابی، ہزارہ ، جھانسی اور بعید ہندوستان تک پھیل گئیں ، وہ لوگ جن کے دروازوں سے ہزاروں لوگوں نے خیر پائی انہیں اسلاف و اکابر میں ایک بزرگ حضرت پیر سیّد محمد ابراہیم شاہ بخاری قدس سرہ العزیز تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت میاں شیر محمد شرق پوری رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں مرشد کامل نصیب فرمایا۔ نقشبندی اور مجددی نسبتوں نے حضرت شاہ صاحبؒ کو محبت اور عشق کی راہوں میں مقاماتِ عظیمہ سے نواز دیا ، آپؒ کا خاندانی عزو شرف راہ تبلیغ میں مونس و مدد گار ثابت ہوا۔ نسبتِ سادات اور مجددی انداز تربیت نے آپؒ کو پارس بنادیا ۔ آپؒ نے خلوص و للّٰہیت کی جو تحریک پنجاب میں بپا کی ، علم و حکمت کی راہ چلنے والوں کے لیے وہ نمونہ ہے ۔ دردِ دل رکھنے والوں کے لیے ان کا طرزِ حیات مسیحا نفسی کرسکتا ہے ۔