معاہدہ تاشقند وہ مرحلہ تھا جس کے بعد امریکہ کو یہ احساس ہوا کہ ایوب خان اپنی افادیت کھو چکا ہے، اب فیصلہ ہوا کہ اس کے متبادل کو عوامی مقبولیت کی سیڑھی پر چڑھایا جائے۔ پاکستانی سفیر جمشید مارکر اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ تاشقند میں ملاقاتوں کے دوران روسی وزیر خارجہ، پوڈ گورنی ذوالفقار علی بھٹو سے ہاتھ نہیں ملاتا تھا اور کھنچا کھنچا رہتا تھا۔ ایوب خان کو جب یہ روّیہ عجیب لگا تو اس نے پوڈ گورنی سے پوچھا، ایسا کیوں؟ تو اس نے جواب دیا، ’’آپ کا وزیر خارجہ ہمارے درمیان ہونے والی گفتگو رات کو امریکی سفیر کو بتاتا ہے‘‘۔ تاشقند سے واپسی پر وہ تمام منصوبہ تیار تھا جس کے تحت پاکستان نے دولخت ہونا تھا جس کے نتیجے میں ایک جانب شیخ مجیب الرحمن اور دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار میں آنا تھا۔ لاہور میں حزبِ اختلاف کی تمام پارٹیوں کا اجلاس منعقد ہوا جس میں پہلی دفعہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن نے شرکت کی اور اپنے مشہور چھ نکات پیش کئے جو آگے چل کر اس کی علیحدگی کی تحریک کا منشور بنے۔ دوسری جانب ذوالفقار علی بھٹو نے وزارتِ خارجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پورے ملک میں یہ نعرہ لے کر گھومنے لگا کہ ایوب خان نے تاشقند میں پاکستان کی جیتی ہوئی جنگ ہار دی۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن پارٹیاں عوامی منظر نامے سے دُور ہوتی چلی گئیں اور بھٹو عوام میں آمریت کے مقابل ایک ہیرو کے طور پر اُبھرنے لگا۔ مجیب الرحمن کو اگر تلہ سازش کیس میں گرفتار کیا جا چکا تھا، لیکن ہنگامے اس قدر بڑھے کہ ایوب خان کو اپوزیشن سے مذاکرات شروع کرنا پڑے جس میں اپوزیشن نے شیخ مجیب کی رہائی اور غداری کا مقدمہ واپس لینے کا مطالبہ کیا، جو مان لیا گیا اور 26 فروری 1969ء کو وہ پہلی مذاکراتی گول میز کانفرنس میں شریک ہوا۔ بھٹو نے ان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا اور تحریک جاری رکھی۔ اب افواجِ پاکستان میں سے اگلے مہرے یحییٰ خان کو نیا کردار سونپا گیا۔ بقول قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر، اس نے پستول تان کر ایوب خان کو ایک لکھی ہوئی تقریر ریکارڈ کروا کر رُخصت ہونے کو کہا اور جس آئین کے تحت اقتدار سپیکر کو منتقل ہونا تھا اسے توڑ دیا گیا۔ اب امریکہ اور عالمی طاقتوں کا وہ کھیل شروع ہوا جس کے تحت مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانا اور مغربی پاکستان کو بھارت کے حملے سے محفوظ رکھنا تھا۔ وہ تمام خط و کتابت جو امریکہ اور اندرا گاندھی کے علاوہ چین اور روس کے ساتھ ہوئی، اسے اب امریکہ نے طشت از بام کر دیا ہے۔ اس کے مطابق مشرقی پاکستان پر حملے سے پہلے اندرا گاندھی امریکہ گئی تھی اور یہ یقین دہانی کروا کر آئی تھی کہ وہ مغربی پاکستان پر حملہ نہیں کرے گی۔ لیکن جیسے ہی 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو اندرا گاندھی اپنے وعدے پر قائم نہ رہی۔ بھارتی سفیر کو بلا کر کہا گیا کہ ’’اندرا گاندھی کو لکھو کہ جنگ بند کر دے‘‘۔ اگلے دن تک جب جنگ بند نہ ہوئی تو امریکہ نے اپنے اڈوں سے اسلحہ جہازوں پر لدوایا اور اس کی تصاویر بھارتی سفیر کو دے کر کہا کہ ’’اگر کل تک جنگ بند نہ ہوئی تو یہ اسلحہ پاکستان پہنچ جائے گا اور اندرا گاندھی اپنے انجام کی بھی فکر کرے‘‘۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اب یحییٰ خان کا کردار ایک بوجھ تھا۔ بھٹو کو امریکہ سے واپس پاکستان بھیجا گیا اور اسے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنوا کر اس بچے کھچے پاکستان کے مسیحا کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ بھٹو ایک ایسا ذہین شخص تھا جو اپنی اُڑان کو پاکستان تک محدود نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ اس کا دوست پیلو مودی لکھتا ہے کہ برکلے یونیورسٹی میں جب میں نے اس سے پوچھا کہ تم پاکستان کے سربراہ بننا چاہتے ہو تو اس نے کہا کہ ’’یہ میرے لئے ایک بہت چھوٹا عہدہ ہے ، میں زیادہ سے زیادہ تیسری دُنیا اور کم سے کم اسلامی دُنیا کا قائد بننا چاہتا ہوں‘‘۔ اس کی اس خواہشِ ناتمام نے اس سے کئی ایسے اقدامات کروائے جو امریکیوں کو پسند نہ تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد شاہ فیصل کو تیل بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کا مشورہ بھٹو نے دیا تھا۔ سوویت یونین کی لابی کے قذافی اور حافظ الاسد سے اس کی قربت بھی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ اس جلتی پر تیل کا کام فرانس سے ایٹمی ری پراسیسنگ پلانٹ کے معاہدے نے کیا اور پھر ڈاکٹر قدیر کی سربراہی میں ایٹمی پروگرام کا از سر نو آغاز نے امریکی غصے میں اضافہ کیا۔ ہنری کسنجر نے کسی لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ’’ہم تمہیں ایک مثال بنا دیں گے‘‘۔ اس کے فوراً بعد 20 جنوری 1971ء سائرس وینس امریکی وزیر خارجہ آیا تو اس نے پاکستانی سفیر کو بلا کر بھٹو کو امریکی دھمکی کا پیغام لکھنے کو کہا، بھٹو نے امریکی ناراضگی کی پروا نہ کی تو ٹھیک دو مہینے بعد حزبِ اختلاف کی تحریک اس کے خلاف تیار تھی۔ بھٹو کے تنا ور درخت سے پرندے اُڑنے شروع ہوئے۔ 28 مارچ کو سیکرٹری جنرل مبشر حسن نے استعفیٰ دیا اور آخری چڑیا اعتزاز احسن کی صورت اُڑی اور 6 جولائی 1977ء کو بھٹو کا باب بند ہو گیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس تحریک کے دوران امریکی سفیر فارلینڈ اور سعودی سفیر ریاض الخطیب کس طرح شٹل کاک بنے ہوئے تھے۔ بھٹو کے بعد کی پاکستانی تاریخ مکمل طور پر امریکی غلامی، کاسہ لیسی اور دستِ نگر ہونے کی تاریخ ہے۔ پاکستان اب امریکہ کے لئے ایک ایسا چابی والا کھلونا بن چکا تھا جس کو جتنی چابی بھری جاتی وہ اُتنی ہی دیر رقص کرتا۔ ضیاء الحق دَور میں روس کے خلاف افغان جہاد میں پاکستان کی شرکت امریکہ کے لئے ایک معجزے سے کم نہ تھی۔ وہ جس خواب کو 1917ء سے دیکھتا چلا آ رہا تھا اسے پاکستان نے پورا کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے امریکہ نے چشم پوشی کی۔ لیکن جیسے ہی ضیاء الحق نے افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کی کوشش کی تو 17 اگست کو ضیاء الحق کا طیارہ امریکی سفیر رافیل اور دیگر اہم جرنیلوں سمیت فضاء میں تباہ کر دیا گیا۔ ضیاء الحق کے بعد امریکی نظر میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام سب سے بڑا خطرہ تھا۔ اس کے خلاف کئی محاذوں پر کام شروع کیا گیا۔ پابندیاں لگائی گئیں، اندرون ملک لوگ خریدے گئے اور سب سے اہم یہ کہ ایسے حکمران مسلّط کئے گئے جنہوں نے پاکستان کو قرضے کی اتنی بڑی دلدل میں ڈبویا تاکہ اگر ایک دن پاکستان قرضہ واپس کرنے کے قابل نہ رہے تو پھر اس کا سودا ایٹمی پروگرام سے کیا جائے۔ بے نظیر کو جب یہ ملک ملا تو اس پر بیرونی قرضہ صرف 2 ارب ڈالر کے قریب تھا اور آج یہ 117 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ آج ایک بار پھر کیوں پاکستان میں ایک ایسی تحریک کا آغاز ہوا ہے جس کا بظاہر اپوزیشن کو بھی کوئی فوری فائدہ نظر نہیں آتا۔ کیونکہ انہوں نے ایک مقبولیت کے گراف سے گرتے ہوئے عمران خان کو دوبارہ مقبول بنا کر اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری ہے۔ عصر کے وقت اس روزے کو کھولنے کی اتنی جلدی کیوں تھی۔ پاکستان ستر سال کے بعد اپنی گاڑی کا رُخ بالکل اسی طرف موڑ رہا ہے جس طرف لیاقت علی خان نے اگست 1949ء میں روس جانے کی دعوت قبول کر کے کیا تھا اور پھر اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے خود کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ آج پاکستان جس دوراہے پر ہے اس میں مسلسل امریکی غلامی اسے اس حالت میں لا سکتی ہے، کہ وہ اپنی معاشی بقاء کے لئے امریکہ کا ہر مطالبہ تسلیم کرے جس میں ایٹمی پروگرام کا ختم کرنا بھی شامل ہو۔ دوسری جانب پینٹاگون کی "Containment of China" (چین کو محدود کرنے) اور روس کے ناسور (Maliglant) کو ختم کرنے کی پالیسی بتاتی ہے کہ صرف دو ملک ہی ایسے ہیں جہاں سیاسی عدمِ استحکام پیدا کر کے روس اور چین کے سمندری راستوں کو روکا جا سکتا ہے۔ ایک ’’یوکرین‘‘ اور دوسرا ’’پاکستان‘‘۔ یوکرین میں یہ تماشا 2014ء میں شروع ہوا۔ پہلے امریکی اور یورپی سفیر اپوزیشن سے ملے، پھر عدمِ اعتماد پیش ہوئی، پھر ملک میں ہنگامے کرائے گئے اور روس نواز حکومت برطرف ہو گئی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہاں امریکی غلبہ مستحکم ہوتا، روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا۔ اس حملے سے کچھ دیر پہلے ہی پاکستان میں وہی کچھ دہرایا جانا شروع ہوا جو یوکرین میں ہوا تھا اور اب یہ اس کا آخری رائونڈ چل رہا ہے۔ امریکہ یوکرین کو مستحکم رکھ کر وہاں اپنا وجود چاہتا ہے اور پاکستان کو مسلسل ابتر اور پریشان حال رکھ کر یہاں چین کے لئے راستے کو مسدود کرنا چاہتا ہے۔ صرف چند دن میں فیصلہ ہو جائے گا کہ اس ملک نے مسلسل ابتر و برباد رہنا ہے یا امریکی خوف سے آزاد۔ (ختم شد)