پاکستان اب امریکی بالا دستی کے شکنجے میں جکڑا جا چکا تھا۔ اس کی فوج اور بیوروکریسی اپنی بنیادی تربیت اور اپنے برطانوی ہند فوج والے ماضی کی وجہ سے شروع دن سے ہی برطانیہ کی ذہنی غلام تھی اور اس کے لئے امریکہ کو آقا تسلیم کرنا ایک فطری عمل ثابت ہوا۔ سیاسی اشرافیہ بھی چونکہ انہی لوگوں کی بنائی ہوئی تھی، اس لئے اسے بھی اپنے ڈھب پر لانے میں زیادہ مشکل پیش نہ آ سکی۔ 14 اکتوبر 1955ء کو ون یونٹ کے اعلان اور مشرقی و مغربی پاکستان کو دو برابر کی اکائیاں بنانے میں جو راز پوشیدہ تھا وہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ جب دو صوبے بن گئے تو پھر مغربی پاکستان میں جہاں چار صوبوں کو ایک بنایا گیا تھا، وہاں سیاسی جوڑ توڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان میں پارٹیاں بدلنے اور وفاداریاں خریدنے کا آغاز ہوا۔ حکمران امریکی لابی نے مغربی پاکستان میں ڈاکٹر خان صاحب کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا جو مسلم لیگ سے نہیں تھے۔ اس دوران قائد اعظمؒ کے دیرینہ ساتھی سردار عبدالرب نشتر مسلم لیگ کے صدر بن گئے۔ اسمبلی میں چونکہ مسلم لیگ کی اکثریت تھی، اس لئے سردار صاحب نے وزیر اعلیٰ کو بدلنے کی کوشش شروع کی تو ’’اصل‘‘ حکمران سکندر مرزا، چوہدری محمد علی، مشتاق گورمانی کو یہ منظور نہ تھا۔ راتوں رات اسمبلی میں ’’ریپبلکن پارٹی‘‘ کے نام پر الگ سیاسی جماعت بنائی گئی اور مسلم لیگ کے اکثر اراکین اس میں شامل ہو گئے۔ وفاداریاں بدلنے کی یہ ابتداء اس قدر مہلک تھی کہ آج تک پاکستانی سیاست پر چھائی ہوئی ہے۔ جب سب کچھ عالمی قوتوں کے کنٹرول میں آ گیا اور اندازہ ہو گیا کہ اب اس نوزائیدہ ملک پر اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے انڈیا ایکٹ 1935ء کی ضرورت باقی نہیں رہی تو پھر 29 فروری 1956ء کو وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی سربراہی میں پاکستان کا آئین منظور کر لیا گیا۔ اس کے بعد نئے آئین کے تحت حکومتیں بدلنے کا گھنائونا کھیل شروع ہوا۔ یہاں پاکستان میں اسلام پسند اور سیکولر، لبرل قوم پرست گروہوں کا جھگڑا شروع ہوا۔ حسین شہید سہروردی سیکولر، لبرل قوم پرست خیالات رکھنے والے نمایاں رہنما تھے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے صرف دو سال بعد ہی مسلم لیگ کو چھوڑ دیا تھا۔ ان کا بنیادی اختلاف قراردادِ مقاصد کے ساتھ تھا، جس میں اس ملک ہی نہیں بلکہ کائنات پر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی جماعت عوامی لیگ بنا لی۔ یہ وہی عوامی لیگ تھی جس کے اہم رہنمائوں میں شیخ مجیب الرحمان بھی شامل تھا۔ عوامی لیگ نے مولوی فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی کے ساتھ مل کر مارچ 1956ء میں اپنی پرانی جماعت اور پاکستان کی بانی مسلم لیگ کو زبردست شکست دی۔ 29 فروری 1956ء کو جب پاکستان کا آئین منظور ہوا تو سہروردی صاحب کو اس کی بہت سی دفعات، خصوصاً اسلامی دفعات سے اختلاف تھا، اس لئے انہوں نے منظوری کا بائیکاٹ کیا۔ ان کا یہ رویہ اور نظریہ بھی بیرونی طاقتوں اور سیکولر، لبرل قوتوں کو بہت پسند آیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلی میں چوہدری محمد علی کی اکثریت کو جوڑ توڑ سے ختم کر کے انہیں اس ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ 12 ستمبر 1956ء کو سہروردی کے وزارتِ عظمیٰ کے حلف لینے سے پہلے ہی یکم ستمبر 1956ء میں مشرقی پاکستان اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس کے تحت جداگانہ انتخابات یعنی مسلمان اور غیر مسلم کے علیحدہ علیحدہ ہونے والے انتخابات کو مسترد کر دیا۔ اسمبلی کے 159 ارکان نے مخلوط انتخابات کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 84 اراکین نے اس کا بائیکاٹ کیا۔ عوام جانتے تھے کہ ایسا صرف اور صرف سیکولر، لبرل خیالات رکھنے والے سہروردی کے ایماء پر ہوا ہے۔ اسی لئے جو وزیر اعظم بن کر 3 اکتوبر کو لاہور میں جلسہ عام میں آئے تو ایک ہنگامہ ہوا اور عوام نے مخلوط انتخابات کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جداگانہ انتخاب کی حمایت میں 7 اکتوبر 1959ء کو ڈھاکہ میں بھی مظاہرہ کیا گیا جس پر عوامی لیگ کے غنڈوں نے پتھرائو کیا اور شہر میں دفعہ 144 لگا دی گئی۔ جب 8 اکتوبر کو کراچی میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو پورے کراچی میں جداگانہ انتخاب کے حق میں مکمل ہڑتال ہوئی۔ لیکن قومی اسمبلی نے ایک حیرت انگیز قانون منظور کیا جس کے مطابق مشرقی پاکستان میں مخلوط انتخابات ہوں گے اور مغربی پاکستان میں جداگانہ انتخابات ہوں گے۔ گیارہ اکتوبر 1956ء کا یہ دن دراصل ایک بنیاد تھی کہ مغربی پاکستان کے لوگ اس فلسفہ پر یقین رکھتے ہیں جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا تھا، یعنی ہندو اور مسلمان کا علیحدہ علیحدہ ووٹ ہو گا جبکہ مشرقی پاکستان کے رہنمائوں نے اس فلسفے کو ترک کر کے وہ راہ اختیار کی جو مسلم لیگ کی ساری جدوجہد سے مختلف تھی یعنی ہندو مسلمان دونوں کا مخلوط ووٹ۔ یوں اس دن ہی دراصل بنگلہ دیش کے ایک سیکولر، لبرل ملک بننے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ پاکستان میں دوسری عدم اعتماد کی تحریک 28 جنوری 1957ء کو مغربی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی۔ اس وقت مسلم لیگ کے اسمبلی میں 124 ارکان تھے۔ قرارداد ایک آزاد رکن ڈاکٹر سعیدالدین صالح نے پیش کی۔ مسلم لیگ ’’اصل حکمرانوں‘‘ کو بھی خوش رکھنا چاہتی تھی اور اقتدار میں بھی رہنا چاہتی تھی، اسی لئے انہوں نے سپیکر کی جانبداری کا بہانہ بنا کر اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا۔ یوں ڈاکٹر خان صاحب کو 162 ووٹ ملے اور عدم اعتماد کے حق میں صرف بیچارے ڈاکٹر سعیدالدین صالح کا اکلوتا ووٹ آیا۔ اس طرح کی سیاسی چور بازاری اور خریدوفروخت والی جمہوری سیاست کے ہنگاموں میں جماعت اسلامی کا مشہور ماچھی گوٹھ کا اجتماع فروری 1957ء میں منعقد ہوا جس میں جماعت اسلامی کے کئی سرکردہ رہنمائوں نے مشورہ دیا کہ جماعت کو اس غلیظ انتخابی سیاست سے علیحدہ ہو کر انقلابی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ جب بات نہ مانی گئی تو یہ لوگ علیحدہ ہو گئے جن میں ڈاکٹر اسرار احمد بھی شامل تھے۔ یوں اس ملک میں مذہبی سیاست دو اہم راستوں میں تقسیم ہو گئی ایک انتخابی اور دوسرا انقلابی۔ اگلے ماہ یعنی 3 مارچ 1957ء کو مشرقی پاکستان اسمبلی میں یہ قرارداد پیش ہوئی کہ وفاقی حکومت مشرقی پاکستان کو مکمل طور پر خودمختاری دے۔ اس قرارداد پر ایک طویل بحث مباحثہ ہوا۔ قرارداد کے حامیوں میں شیخ مجیب الرحمن پیش پیش تھا۔ وہ اس وقت صوبائی وزیر بھی تھا۔ اس نے کہا کہ مشرقی پاکستان کو نو سال سے لوٹا جا رہا ہے، اس لئے اب عوام علاقائی خود مختاری سے کم کسی بات پر راضی نہ ہوں گے۔ 3 اپریل 1957ء کو یہ قرارداد منظور کی گئی۔ سہروردی اپنی وزارتِ عظمیٰ بچانے کے چکر میں اس قرارداد پر خاموش رہے، انہوں نے کشاں کشاں 9 ستمبر 1957ء کو امریکی قونصلیٹ کا سنگ بنیاد بھی رکھا۔ دوسری جانب مغربی پاکستان کی اسمبلی میں ایک کشمکش شروع ہو گئی اور چار صوبوں کے حامیوں نے 17 ستمبر 1957ء کو ون یونٹ توڑنے کے لئے قرارداد پیش کی اور اسے منظور کر لیا گیا۔ لیکن ابھی بہت کچھ ہونا باقی تھا۔ پاکستان کے ساتھ ایک نیا کھیل شروع ہونے والا تھا۔ الیکشن کمیشن نے پہلے 31 مارچ 1958ء کو انتخابات کا اعلان کیا، پھر اسے فروری 1959ء تک ملتوی کر دیا۔ اس سے پہلے کہ فروری 1959ء کے انتخابات کا دن آتا، سات اکتوبر 1959ء کو سکندر مرزا نے ایوب خان کی مدد سے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اس مملکتِ خداداد پاکستان پر مکمل طور پر ان کا اقتدار قائم ہو گیا جو امریکی آشیر باد سے یہاں تک پہنچے تھے۔ (جاری)