اقتدار کی ہوسناکی عجیب ہوتی ہے۔ پاکستانی تاریخ کے تین اہم کردار سکندر مرزا، جنرل ایوب اور ذوالفقار علی بھٹو جو امریکی آشیرباد اور اپنی ’’مخصوص‘‘ مہارتوں کی وجہ سے ایک ساتھ اقتدار میں پہنچے تھے اور جن کی جدوجہد بھی بظاہر یکساں اور مربوط نظر آتی تھی، مگر اقتدار کی کشمکش نے ان تینوں کو وقت کے ساتھ ایک دوسرے کے مقابلے میں لا کھڑا کیا۔ اکتوبر کے مارشل لاء سے پہلے جون 1958ء میں، بقول قدرت اللہ شہاب ’’میں اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ سکندر مرزا میرے دفتر میں داخل ہوا، پریزیڈنٹ ہائوس کی سٹیشنری کا ایک ورق اُٹھایا اور وہیں کھڑے کھڑے وزیر اعظم فیروز خان نون کے نام ایک دو سطری نوٹ لکھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر انچیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کے احکامات جاری کر دیئے جائیں‘‘۔ اس سے دو ماہ پہلے ذوالفقار علی بھٹو جو کہ ایک عام وکیل تھا اسے جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی کانفرنس میں پاکستانی وفد کے قائد کے طور پر بھیجا گیا جہاں اس نے پانچ تقاریر کیں، جنہیں ریڈیو اور اخبارات میں خوب اُچھالا گیا، جس سے بھٹو اچانک ایک شاندار مقرر کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔ 7 اکتوبر 1958ء کو جب سکندر مرزا نے مارشل لاء لگایا تو ایوب خان کو اس کا منتظم اعلیٰ مقرر کر دیا، مگر ایوب خان مزید اختیارات چاہتا تھا۔ یوں 24 اکتوبر کو اسے ملک کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ وزیر اعظم بنتے ہی ایوب خان نے اپنی کابینہ کا اعلان کیا جس میں تین جرنیلوں کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھا۔ 27 اکتوبر 1958ء اس ملک کی تاریخ کا اہم ترین دن تھا۔ صبح ایوب کی کابینہ نے حلف اُٹھایا، دوپہر کو پاکستان کے سب سے متنازعہ چیف جسٹس منیر نے یہ فیصلہ دیا کہ مارشل لاء جائز ہے، فیصلے میں تحریر کیا کہ ’’فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے‘‘۔ یعنی جو بھی قوت سے اقتدار پر قبضہ کر لے وہ خود ایک قانون ہوتا ہے۔ ایوب خان کو معلوم تھا کہ اصل قوت تو اس کے پاس ہے۔ یوں سپریم کورٹ کے احکامات سے ملی ’’ہمت‘‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسی دن رات دس بجے تین جرنیل واجد علی برکی، اعظم خان اور کے ایم شیخ، سکندر مرزا کے گھر میں داخل ہوئے اور بندوق تان کر اس سے استعفیٰ پر دستخط کروا لئے۔ سکندر مرزا اور اس کی بیوی ناہید کو سخت پہرے میں کوئٹہ بھجوا دیا گیا، جہاں وہ پانچ دن تک نظر بند رہے اور پھر 2 نومبر 1958ء کو ’’کے ایل ایم‘‘ کے طیارے میں بٹھا کر انہیں لندن جلا وطن کر دیا گیا۔ اب راوی چین لکھتا ہے۔ اقتدار فردِ واحد کے قبضے میں تھا جس سے معاملات طے کرنا امریکہ کے لئے بے حد آسان تھا۔ ایک ایسی فوج اس کے زیر نگیں تھی ،جسے انگریز نے تیار ہی اس لئے کیا تھا کہ محکوم ہندوستانیوں کو کیسے قابو میں رکھا جاتا ہے۔ محمد شعیب کی صورت امریکہ نے اپنے نمائندے کو وزارتِ خزانہ بھی دلوا دی تھی تاکہ پاکستان کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی غلامی کی طرف آہستہ آہستہ دھکیلا جائے۔ کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی صورت ایک متبادل قیادت بھی رکھ دی گئی تھی تاکہ اگر ایوب خان ذرا سی بھی قومی غیرت دکھائے تو اس کے خلاف ایک مقبول عوامی تحریک چلا کر اسے بدل دیا جائے۔ اس کے لئے بھٹو کا انتخاب انتہائی شاندار اور نپا تُلا تھا۔ امریکہ اب اس ملک کے معاملات میں اس قدر دخیل ہو گیا تھا کہ پشاور کے نزدیک بڈابیر کے علاقے میں اس نے اپنا اڈہ بنا لیا۔ وہاں سے ایک جاسوسی طیارہ پرواز کرتے ہوئے روس کی حدود میں داخل ہوا جسے اُتار لیا گیا۔ اس کے پائلٹ گیری پاورز (Gary Powers)کو 19 اگست 1960ء کو روس کی عدالت نے دس سال قید کی سزا سنائی اور پاکستان کو کہا گیا کہ ہم نے پشاور کے اس علاقے کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا۔ مگر ایوب خان اطمینان سے ایک نئے نظام کی تخلیق میں مصروف رہا۔ یکم مارچ 1962ء کو ایوب خان نے پاکستان کے نئے آئین کا نفاذ کر دیا۔ اس کے تحت ملک میں پارلیمانی کی بجائے صدارتی نظام نافذ کیا گیا،جو براہِ راست انتخاب نہیں، بلکہ پورے ملک سے منتخب ہونے والے بنیادی جمہوریتوں کے ممبران کے ذریعے کیا جانا تھا۔ آئین کے تحت 28 اپریل کو قومی اسمبلی کے انتخابات ہوئے۔ ان ممبران کا انتخاب بھی بنیادی جمہوریتوں کے ممبران نے ہی کیا۔ 16 جولائی 1962ء کو اس اسمبلی نے سیاسی پارٹیوں پر سے پابندی اُٹھا کر انہیں بحال کر دیا گیا۔ اب صدارتی انتخاب کا مرحلہ تھا۔ آئین تحریر کرنے والوں سے ایک غلطی ہو گئی تھی کہ برسراقتدار شخص صدارتی الیکشن نہیں لڑ سکتا تھا۔ یوں ایوب خان کے لئے صدر بننے کی راہیں مسدود ہو گئیں۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی تاکہ آئین میں ترمیم کی جا سکے۔ حکومت کے پاس دو ووٹ کم تھے۔ اب خریدوفروخت یا ’’ضمیر جاگنے‘‘ کا مرحلہ آیا تو اپوزیشن سے دو معزز اراکین نے ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر ایوب خان کے لئے الیکشن لڑنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ یہ دو ارکان حضرت مولانا مفتی محمود اور افضل چیمہ تھے۔ افضل چیمہ کو اس کا انعام یہ دیا گیا کہ انہیں ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود بھی ایوب خان کی مشکلات ختم نہ ہوئیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپوزیشن اپنے اختلافات کی وجہ سے متحد نہیں ہو سکے گی، مگر اپوزیشن نے 19 اگست 1964ء کو محترمہ فاطمہ جناحؒ کو صدارتی اُمیدوار بنا کر حیران کر دیا۔ ایوب خان کی صدارتی مہم کا انچارج جواں سال اور ذہین و فطین وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھا جو اس وقت کنونشن لیگ کا جنرل سیکرٹری بھی تھا۔ اس انتخاب نے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کو اپنی رائے کے اعتبار سے تقسیم کر دیا۔ تاریخی دھونس اور بدترین دبائو کے تحت 2 جنوری 1965ء کو بنیادی جمہوریتوں کے 80 ہزار کونسلروں میں سے 49951 ووٹ ایوب خان کو ملے اور فاطمہ جناحؒ کو 28691 ووٹ ملے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں کراچی میں 4 جنوری کو بدترین فسادات پھوٹے، جس کی وجہ پٹھان ٹرانسپورٹروں کا ایوب کی جیت پر فتح کا جلوس تھا۔ لاتعداد بستیاں جلائی گئیں اور مرنے والوں کا بھی کوئی شمار نہ تھا۔ لیکن فوج کی طاقت نے ایوب کا اقتدار مستحکم کر دیا۔ اب ایوب خان کے دن گنے جانے کا وقت آ گیا تھا۔ اقتدار کے نشے میں چُور وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ یہاں تک محض اپنی فراست اور فوج کی قوت کی وجہ سے پہنچا ہے۔ اسی نشے میں اس نے 3 اپریل 1965ء کو سوویت یونین روس کا دورہ کیا۔ اس کا استقبال وزیر اعظم کوسیجن نے کیا۔ یہ دورہ امریکہ کی ناراضگی کے لئے کافی تھا کہ 2 جون 1965ء کو چین کے وزیر اعظم چواین لائی بھی اپنے سات روزہ دورے پر پاکستان آ پہنچا۔ ایوب خان اپنی آزاد خارجہ پالیسی پر بہت مطمئن ہو رہا تھا۔ اس نے بھارت کے ساتھ 30 جون 1965ء کو رن آف کَچھ کے تنازعے کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ بھی کر لیا۔ لیکن ستمبر کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو اور کچھ جرنیلوں نے اسے یقین دلایا کہ اگر ہم کشمیر میں در اندازی کریں، تو بھارت عالمی سرحد پر کبھی حملہ آور نہیں ہو گا۔ چھمپ جوڑیاں کا محاذ گرم کر دیا گیا۔ 4 ستمبر کو ترکی میں پاکستانی سفیر نے سیکرٹری خارجہ عزیز احمد کو پیغام بھیجا کہ خفیہ اطلاعات کے مطابق 6 ستمبر کو بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ چھ ستمبر کو جنگ شروع ہوئی۔ امریکہ نے انتقاماً پاکستان کو اسلحہ کی سپلائی روک دی۔ سترہ روزہ جنگ کے بعد سیز فائر ہوا۔ اس جنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو اقوام متحدہ میں اپنی اس تقریر کی بنیاد پر ہیرو بن کر اُبھرا جس میں اس نے کہا تھا ’’ہم ہزار سال تک لڑیں گے‘‘۔ اس نے 20 نومبر 1965ء کو قومی اسمبلی میں یہ اعلان بھی کیا کہ ہم ایٹم بم بنائیں گے۔ دس جنوری 1966ء کو ایوب خان اور بھارتی صدر شاستری نے روس کے شہر تاشقند میں ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ دراصل ایوب کی رخصتی اور بھٹو کی آمد کا اعلان ثابت ہوا۔ (جاری)