مکہ میں جس شخص سے ملاقات کر کے مجھے سب سے زیادہ مزہ آیا وہ بمبئی بلکہ نوی ممبئی کے نادر خان سرگروہ تھے، جو نام سے تو کسی خطرناک گروہ کے سرغنہ محسوس ہوتے ہیں لیکن اصل میں نہایت شریف، نفیس، لطیف اور ظریف آدمی ہیں۔ گزشتہ تیس سال سے میرے اسی دلبر شہر مکہ میں مقیم ہیں۔ کعبہ کے قُرب و جوار کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو جہاں وہ مقیم نہیں رہے نیز اس شہرِ دل آویز میں نبی مکرم ﷺ اور صحابہ ؓ سے نسبت رکھنے والا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس سے وہ آشنا نہیں۔ انھوں نے ایک ادیب، مؤرخ اور محب کی نظر سے مکہ کا ہر قابلِ ذکر مقام دیکھ رکھا ہے، کچھ جھلکیاں دکھا کے مجھے بھی سرشار کیا۔ اس سیاحت سے مجھے مزید احساس ہوا کہ یہی شہر ہے جس کی بابت پورے اعتماد سے کہا جا سکتا ہے: تیرا کونہ کونہ چوموں، تیری وادی وادی گھوموں نادر خان کو اُردو زبان اور ظرافت سے تو خدا واسطے کی محبت ہے۔ کاج کے اعتبار سے انجینئڑ جب کہ مزاج کے لحاظ سے پکے مزاح نگار ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ان سے دیرینہ رابطہ بلکہ ربط ہے، اُردو اِملا اور تلفظ کا انھیں خبط ہے۔ فیس بکی تعارف میں خود کو انڈین مسلم لکھتے ہیں اور اپنے تخلیقی ڈیجیٹل اعلامیوں کے ذریعے اُردو لغت کی بے پناہ خدمت کر رہے ہیں۔ کسی زمانے میںانڈیا میں اُردو کی صورتِ حال کے پیشِ نظر غالباً مجتبیٰ حسین نے لکھا تھا کہ ہمارے ہاں ’انجمنِ تحفظِ اُردو‘ تو کافی عرصے کام کر رہی ہے لیکن اب مختلف تہذیبوں کے کارن فلیکس سے تیار ہونے والی پاستہ آراستہ نسل کے لیے ’انجمنِ تلفظِ اُردو‘ کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے میں پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ نادر خان نے اس بات کو دل پہ لے لیا ہے اور آپ تو جانتے ہیں کہ جب ایک مزاح نگار دوسرے مزاح نگار کی بات کو دل پہ لے لے تو دل میں اُتر جانے والی باتیں کرتا ہے۔ اب وہ اپنی نت نئی پوسٹوں کے ذریعے اُردو زبان کے مختلف الفاظ، ان کی اصل، نسل اور وصل کے سارے گُر تفصیل سے بیان کرتا جاتا ہے۔ یہ حضرت چونکہ بنیادی طور پر ظریف واقع ہوئے ہیں اس لیے تلفظ کے تردد و تحفظ میں بھی شوخی اور شرارت سے باز نہیں آتے۔ لفظ کی ماہیت، اصلیت اور نیت کو سمجھانے، سلجھانے، نبھانے کے لیے مزے دار فقروں کا چھٹا بھی لگاتے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں شہروں میں راستے اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ وقت بے وقت کھدائی کے لیے کوئی مناسب جگہ دستیاب ہو۔ اس سنجیدہ ترین کام میں اُن کی تحریروں کا شگفتہ کردار پُرجوش پوری بھی پلٹ پلٹ کے پھلجھڑیاں چھوڑتا جاتا ہے، جن کو وہ ’نادرشاہی ٹکڑے‘ کے نام سے قارئین میں تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے پُرجوش پوری سے پوچھا کہ جب کوئی آپ سے اختلاف کرتا ہے تو آپ کیا کرتے ہیں؟ بولا: ’’ مَیں بھی پھر کھل کر اِخت Laugh کرتا ہوں۔‘‘ نادر خان اپنی منفرد تحقیق اور اُردو، انگریزی، ہندی اور عربی کے چاترانہ استعمال سے نئے نئے محاورات، نایاب تراکیب اور اچھوتے روزمرے بھی تراشتے اور لوگوں کے ساتھ سانجھے کرتے جاتے ہیں۔ مثلاً نئی کہانی گڑ سے میٹھی، نافِ شہر، رمضان کے نمازی، محرم کے سپاہی… نادر کے بتائے کچھ نادر ہندی الفاظ جن کے درست معانی کے سلسلے میں ہم عرصے سے متأمل تھے: اُپدیش: تبلغ، بھان متی (جادو گرنی، شعبدہ باز) ٹِڈی دَل (کیڑوںکا جھُنڈ) تدریب (ٹریننگ) اسی طرح چھتیس کا آنکڑا، اَدھیڑ اور اُدھیڑ کا فرق وغیرہ۔ عربی رہتل ، انگریزی تعلیم، اُردو ادب کے بے پناہ ذوق اور ہندی تہذیب سے کامل شناسائی نے ان کی شخصیت کو دھار دار بنا رکھا ہے۔ ایامِ حج میں وہ چور نظروں سے میرے سٹیٹس پہ نظر رکھے ہوئے تھے۔ جوں ہی فریضۂ حج کی تکمیل ہوئی، رات میں میسنجر پہ ان کا فون آ گیا کہ ملاقات کا عرصے سے متمنی ہوں، مجبوری یہ تھی کہ مَیں پاکستان نہیں آ سکتا تھا اور آپ کے انڈیا آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اس لیے اس متبرک شہر میں نادر سے ملنے کا نادر موقع ہے۔ چنانچہ صبح ناشتے کے فوراً بعد ملاقات طے پائی۔ حضرت ٹھیک مقررہ وقت پر پہنچ گئے، ذمہ دارانہ طبیعت کے علاوہ انھوں نے ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ وہ کئی برس تک اس ہوٹل کے قُرب و جوار میں پہاڑیوں کو عمارتوں میں بدلنے کا غیر مزاحیہ کام بھی کرتے رہے ہیں۔ ہم صبح صبح ان کے ہم رکاب ہو لیے۔ ان کی گفتگو اور ڈرائیونگ سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اس شہرِ با چراغ میں خریداری و دل داری کے جملہ مقامات سے آگاہ تھے۔ جن رش افروز مقاماتِ مقدسہ کو چند روز سے شدید قسم کے ہجوم میں ایک زائر اورزیرِ تکمیل حاجی کی نظر سے دیکھتے آ رہے تھے، آرام دہ سواری اور کثیر الجہات سوار کے میسر آتے ہی انھی مقامات کو ہم نے ایک سیّاح کے نقطۂ نظر سے دیکھنا، پرکھنا شروع کر دیا۔ حرم میں تو ہنوز کھوے سے کھوا چھلتا تھا لیکن منیٰ، مزدلفہ، جمرات، عرفات اور شہر کے اکثر مقامات کہ جہاں ایک سروے کے مطابق ہم نے تین دنوں میں چھے ہزار آٹھ سو ٹن کوڑا پھینکا تھا، اب شفافیت کے درجے میں داخل تھے۔ انجنئیر نادر ہی کے بقول : حج کے مقام پر زیر زمین ایک ایسا ٹنل بھی موجود ہے، جس میں ڈھائی ہزار ٹن کچرا سٹاک ہو جاتا ہے، جسے حاجیوں کی روانگی کے بعد روانی سے نکال لیا جاتا ہے۔ اس کی گفتگو اور جستجو نے چند گھنٹوں ہی میں میرے قلب و نظر کو مکہ سے بھر دیا۔ آثار قدیمہ والا مکہ ہو یا اظہارِ جدیدہ والا نیا نکور مکہ ، شاپنگ کے مہنگے سستے مراکز ہوں یا معروف شخصیات کے رستے بستے رہائشی علاقے، ہر جگہ اس کی کار مچھلی کی مانند تیرتی چلی گئی۔ اس نے انڈیا کی اپنے حاجیوں کے لیے مستقل طور پر مختص کردہ بہترین سہولیات سے بھی مزین رہائشیں بھی دکھائیں۔ باتوں باتوں میں پاکستان کا ذکر چلا تو کہنے لگا: اس ملک کی قدر کرو کہ جہاں آپ لوگ اپنی مرضی سے نماز پڑھ سکتے ہو، جیسے چاہے اذان دے سکتے ہو۔ کوشش کر کے اس کو اُردو کا مرکز بناؤ، پرائی زبان ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ جانے کس مجبوری کے تحت آپ انگریزی کی طرف نکل گئے، جو آپ کو احساسِ کمتری کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ اگر کسی دوسری زبان کا تجربہ کرنا ناگزیر تھا تو عربی اس کی بہترین صورت تھی، اس سے دین اور دنیا دونوں سمجھ میں آ سکتے تھے۔ یہ تو ہمارے کلمے، اذان، نماز کی زبان ہے۔ ہمارے پچانوے فیصد بچوں کے ناموں کے سابقے، لاحقے عربی ہیں۔ شاید اس فعل ہی سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جاتا۔ پاکستانی سیاست کا ذکر آیا تو کہنے لگا: میری ماں جی رات دن عمران خان کے لیے دعائیں مانگتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ وہ پاکستان کا نہیں عالمِ اسلام کا سب سے بڑا اور قابلِ اعتماد لیڈر ہے۔ مزید کہنے لگا: ’مجھے رزق سعودیہ سے ملتا ہے، رہائش اور بچے بھارت میں ہیں لیکن آپ کو پتہ ہے جب کوئی میچ ہو رہا ہو تو ہم تین نسلیں ( بیٹیاں، مَیں، ماں) کس کے لیے تالیاں بجاتے ہیں؟