پاکستانی صنعتکاروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر توانائی کی قیمتوں میں تقریباً 43 فیصد تک کمی نہ کی گئی تو صنعتیں بند ہو سکتی ہیں ، ان پٹ کی زیادہ لاگت برآمدی منڈیوں میں مسابقت کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گی۔ثاقب فیاض مگون، قائم مقام صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران تاجر برادری کے تحفظات سے آگاہ کیا۔پاکستان، جو پہلے ہی آسمان کو چھوتی مہنگائی سے دوچار ہے، نومبر 2023 سے گیس کی قیمتوں میں دو بار اضافہ بھگت چکا ہے۔ تازہ ترین اضافے کی اطلاع 15 فروری 2023 کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے 3 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پروگرام کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ملی۔دوسری جانب آئی ایم ایف نے نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کے پاور سیکٹر میں لیکویڈیٹی کی صورتحال انتہائی بری ہے، بقایا جات اور بار بار بجلی کی بندش کی وجہ سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ گردشی قرض عوامی قرض کی ایک شکل ہے جو سبسڈیز اور غیر ادا شدہ بلوں کی وجہ سے جمع ہوتا ہے ،گردشی قرض کا معاملہ اس لحاظ سے عجیب ہے کہ صارفین سے استعمال کی گئی بجلی سے زیادہ بل وصول کیا جا رہا ہے لیکن گردشی قرضہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ قرض دینے والے عالمی ادارے اور پاکستان کے درمیان بیل آؤٹ پیکج کے لیے گزشتہ برس آٹھ ماہ کے مذاکرات میں گردشی قرض ایک بڑا مسئلہ تھا۔ پاکستانی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ ملک کی ٹیکسٹائل اور ملبوسات کی برآمدات کی بین الاقوامی مسابقت توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مسلسل گھٹ رہی ہے جو کہ اوسطاً دیگر ممالک کے مقابلے دو گنا زیادہ ہیں۔توانائی، بجلی یا گیس مصنوعات کا خام مال ہے۔ دو سال کے اندر بیس سے پچیس فیصد لاگت اس کی وجہ سے بڑھ کر پچاس فیصد ہو چکی ہے۔پاکستان میں بجلی کی زیادہ قیمتیں مختلف عوامل کے باعث بڑھائی جا رہی ہیں ۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور آپریشنل اخراجات کی وجہ سے بجلی کے زیادہ ٹیرف ہوتے ہیں جو صارفین کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ٹرانسمشن اور ڈسٹری بیوشن کابوسیدہ اور بگڑتا ہوا انفراسٹرکچر بہت زیادہ نقصانات کا باعث بنتا ہے،انتظامیہ خرابی دور نہیں کرتی اور صارفین کے اخراجات میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان بجلی کی پیداوار کے لیے مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کرتا ہے ۔یہ پیداواری اخراجات کو بڑھاتا ہے، اس سے ٹیرف کی شرح متاثر ہوتی ہے۔ بجلی کے نرخوں پر سرکاری سبسڈی کو کم کرنا یا ختم کرنا صارفین کو براہ راست بجلی کی زیادہ لاگت والی پیداوار کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔ یہ عوامل پاکستان کے پاور سیکٹر میں صارفین کو درپیش چیلنجوں کو بڑھاتے ہیں۔بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں سے معاہدوں کی شفافیت ہمیشہ متنازع رہی ہے۔پاور پروڈیوسرز کے ساتھ معاہدوں میں سیاسی مصلحتوں نے قرضوں میں اضافہ کیا ہے، جس سے لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل پیدا ہوئے اور معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ گردشی قرضے سے نمٹنے کے لیے حکومت بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرتی ہے،ایسے اضافے سے صارفین کی قوت خرید متاثر ہو رہی ہے ،قوت خرید برقرار رکھنے کے لیے سبسڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہنگی بجلی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کا بنیادی سبببجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی ایندھن پر بہت زیادہ انحصار ہے، جس کے الگ سے معاشی اور ماحولیاتی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ مکس انرجی کا مرکب، قابل تجدید ذرائع کو مربوط کرنا، بجلی کی بلند قیمتوں سے نمٹنا،قوت خرید بڑھانے اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات مددگار ہو سکتے ہیں۔توانائی کے شعبے میں تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کے لیے درمیانی مدت کے حل کے طور پر کئی سٹریٹجک اقدامات متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ سب سے پہلے، DISCOs کی داخلی انتظامی اور آپریشنل سرگرمیوں کی ڈی ریگولیشن اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینا ضروری ہے۔اس طرح DISCOs کے درمیان کام کے بوجھ کو تقسیم کیا جا سکتا ہے،یہ طریقہ مسابقت کو فروغ دیتا ہے اور آپریشنل امور میں بہتری کو تیز کرتا ہے، جو بالآخر ان اداروں کے مالی نقصانات کو کم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ دوم، ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے علاقوں اور آبادی کی بنیاد پر چھوٹے یونٹوں میں DISCOs کی ذیلی تقسیم کارکردگی کو بڑھانے کے لیے ایک درمیانی مدت کی حکمت عملی ہے۔اس طرح براہ راست تکنیکی کوتاہی، کم بل کی وصولی اور بجلی کی چوری جیسے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ درمیانی مدت کے حل میں ایک طریقہ بنیادی ڈھانچے کی اپ گریڈنگ کو ترجیح دینا ہے، اس میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کی جدید کاری، سمارٹ میٹرنگ ٹیکنالوجی متعارف کرانا نقصانات اور خرابیوں کو کم کرنے کے لیے بہت اہم ہے، اس کے نتیجے میں لاگت میں نمایاں کمیہوتی ہے اور صارفین توانائی کو زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں مستقل تکنیکی خرابیوں اور اس سے منسلک مالی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے طویل مدتی حل کے طور پر، ایک کثیر جہتی پالیسی بہت ضروری ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں شامل کرنا اور پائیدار نجی شراکت داری کے ذریعے کمیونٹی پیمانے پر تقسیم کانظام اہم ہے۔ تکنیکی نقصانات میں کمی، بل کی وصولی میں اضافہ اور صرف شدہ توانائی کے ٹیرف کے تصفیے کی سہولت طویل المدتی سرمایہ کاری کو محفوظ بناتی ہے۔ قابل تجدید توانائی کی سپلائی کمپنیوں کو فراہمی، گرڈ میں کم لاگت، صاف توانائی کے طویل المدتی انضمام کے لیے، بجلی کا پائیدار کاروباری ماڈل تیار کرنا ناگزیر ہے۔اس شعبے کو مزید نظر انداز کیا گیا تو صنعتوں کی بندش، بے روزگاری، زرمبادلہ کی کمی سمیت درجنوں سنگین مسائل آن کھڑے ہوں گے۔