دینی طبقات نے بڑی ذمہ داری اور دانشمندی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے،سری لنکن ہائی کمشنر سے تعزیت اور پھر یک زبان ہو کر سیالکوٹ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ،اس واقعہ کو قرآن وسنت کے منافی،آئین وقانون سے متصادم اورجمہوری اقدار اور پیغامِ پاکستان کی روح کے خلا ف قرار دیا ہے۔میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہماری مذہبی لیڈر شپ کا یہ ایک جرأت مندانہ قدم ہے،اس سانحے اور حادثے پران کی یگانگت اور یکجہتی بھی لائقِ تحسین ہے ۔اس موقعہ پر یہ بحث بے محل ہے کہ یہ’’اظہار تعزیت‘‘شرعی طور پر جائزبھی ہے یا نہیں۔تعزیت کرنا سماجی و تمدنی تعلقات کا ایک لازمی تقاضہ اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات کا ایک اہم جزو ہے،کسی عزیز اور قریبی دوست کا انتقال ہوجائے تو یہ اس کا سماجی اور انسانی حق ہے،کہ اس کی تعزیت کی جائے،رہایہ سوال کہ کسی غیر مسلم کی تعزیت کی جائے گی یا نہیں...؟تو یاد رکھیں کہ اسلامی اخلاقیات اور انسانی ہمدردی کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کی تعزیت کی جائے،امام ابو یوسفؒ کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ میں نے امام اعظم ابو حنیفہؒ سے پوچھا کہ کسی یہودی و نصرانی کا بیٹا فو ت ہوجائے یا قریبی آدمی،تو اس کی کیسے اور کن الفاظ میں تعزیت کی جائے گی ...؟آپؒ نے فرمایا:وہ یوں کہے :بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کے لیے موت لکھ دی ہے (جس سے کوئی مستثنیٰ نہیں) تو ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ جانے والا، سب سے اچھا آنکھ سے اوجھل ہونے والا ثابت ہو،ہم سب اللہ تعالیٰ کیلیے ہیں، اور ہم سب اسی کی طرف لوٹ کر جانیوالے ہیں۔تمہیں جو صدمہ پہنچا ہے اس کیلیے تم پر صبر لازم ہے۔اللہ تعالیٰ تمہاری تعداد(نسل) نہ گھٹائے۔مزید یہ کہ امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ ایک نصرانی حضرت حسن بصری ؒ کے پاس آتا اور آپؒ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا،وہ فوت ہوگیا،تو حضرت حسن بصریؒ تعزیت کی خاطر اس کے ہاں تشریف لے گئے اور اس سے یوں تعزیت کی:اللہ تعالیٰ تمہاری اس مصیبت پر تمہیں وہ ثواب عطا کرے ،جو تمہارے ہم مذہب لوگوں کو عطا کرتا ہے،اور موت کو ہم سب کیلیے باعثِ بر کت بنائے اور اسے ایک خیر بنائے ، جس کا ہم انتظام کرتے ہیں جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے اس پر صبر سے کام لو۔اب جہاں تک غیر ملکی شہری کا مسئلہ ہے تو اس کیلیے شریعت میں’’ذمی‘‘کا لفظ بولا جاتا ہے،’’ذمی‘‘لغوی اعتبار سے ’’ذمۃ‘‘سے ماخوذ ہے اور لفظ ’’ذمہ‘‘ عہد، ضمانت، کفالت، امان،حرمت،ذمہ داری اور حق کے معنوں میں آتا ہے،اسی وجہ سے’’اہل العہد‘‘ یعنی جولوگ ایک باقاعدہ معاہدے کے تحت اسلامی ریاست کی اطاعت قبول کرتے ہیں،کو اہل الذمہ کہا جاتا ہے ،اور وہ اصطلاح میں وہ تمام مشرکین ہیں،جو اسلامی ریاست کو جذیہ دینا قبول کر لیتے ہیں۔یعنی’’ رَجلٌ ذمی‘‘کے معنی ہیں’’رجل لہ عہد‘‘یعنی وہ شخص جس سے اسلامی ریاست کا کوئی عہد وپیمان ہو۔اہل الذمہ کو ذمی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اہل اسلام کے عہد اور امان میں داخل ہو جاتے ہیں۔اسلامی معاشرے یا ریاست میں غیر مسلم رعایا کے لیے بالعموم جو اصطلاح استعمال ہو تی ہے وہ’’اہل الذمہ‘‘یا ذمی ہی کی ہے،جس کے اندر بڑی جامعیت اور گہرائی ہے۔’’ذمہ ‘‘عربی زبان میں ’’Guarantee‘‘ کو کہتے ہیں،اور ذمی وہ شخص ہے جس کے حقوق ادا کرنے اور محفوظ رکھنے کا اسلامی حکومت نے ذمہ لیا ہو ۔یعنی مسلمانوں کی حکومت ، غیر مسلم افراد یا اقوام کے،جن لوگوں کی عزت،جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لیتی ہے۔ہماری جدید اصطلاح اور جمہوری ممالک میں ایسی رعایا کیلیے ’’اقلیت‘‘کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔اقلیت کا لفظ لغوی طور پر’’قلۃ‘‘یا قلیل سے ماخوذ ہے۔جسکا معنی کم یا تھوڑا کے ہیں،جو در اصل انگریزی کی’’Superlative Degree‘‘ کے قائمقام ہے،اس اعتبار سے اسکا معنی ’’کمترین ‘‘ کے ہیں،جبکہ انگریزی میں ایسے طبقے کے لیے ’’Minority‘‘ کی اصطلاح مستعمل ہے،جو کہ Minorسے ماخوذ ہے ، اور ’’Minor‘‘ کے معنی چھوٹا، کم تر ،کم درجے کا،ناقابلِ لحاظ اور خفیف کے ہیں۔یہ اصطلاح معنوی اعتبار سے شہریوں کے اکثریتی یا حکمران طبقہ کو طبقاتی تفاضل وتفاخر جبکہ اقلیتی جماعت کو کمتری اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کرنے والی ہے ۔ اسکے برعکس اہل الذمہ یا ذمی کا لفظ غیر مسلموں کو تحفظ کا احساس دلانے سے آراستہ ہے ۔یہاں یہ امر بھی واضح ہے کہ یہ عہد،ذمہ،عقد یا عہدو پیمان محض رسمی،علامتی،کاغذی یا دکھاوے کا نہیں، بلکہ اس کی حیثیت دائمی ہے،بعد میں آنیوالی حکومت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔البتہ معاہدین،از خود اسکو توڑ دیں یا شرائط کا پاس نہ کریں،یہ الگ بات۔نبی اکرم ﷺ نے اہل حنین،اہلِ خیبر اور اہل مقنا کے ساتھ جو معاہدہ کیا،یا امان نامہ دیا،اس میں’’مادامت السموات والارض‘‘کے الفاظ تحریر ہوئے،یعنی یہ معاہدہ اورامان نامہ تا قیامت تمہارے لیے ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروقؓنے اپنی شہادت کے وقت اپنے مابعد خلیفہ کو ذمیوں سے متعلق جو وصیّت فرمائی اس میں لکھا :(ترجمہ) ’’ میں اُسے وصیت کرتا ہوں کہ اہل الذمہ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جو ذمہ دیا گیا ہے،اسکی حفاظت کرے ،ان سے جو عہد کیا گیا ہے ،اُسے پورے کرے ، ان پر حملہ ہو تو ان کے دفاع میں جنگ کرے اوران پر اتنا بوجھ ( جزیہ ) ڈالے جتنا کہ وہ اُٹھا سکے ۔‘‘دراصل اسلامی ریاست کے قیام کا واحد مقصد انسانی فلاح و بہبود کا حصول ، عدل ِاجتماعی کا نفاذ، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ اور خدائی سلطنت کا قیام ہے، نہ کہ ملک گیری ، حدود سلطنت کی توسیع، وسائل پر قبضہ، مفتوح اقوام کا استیصال یا خاندانی اور ذاتی سلطنت کا استحکام ہے ۔ اسلام میں حاکم اور عوام کے تعلق کی نوعیت عام ریاستوں کی طرح، حاکم اور محکوم کی نہیں بلکہ خادم اور مخدوم کی ہے،نیزحکمران اور خلیفہ اپنی رعایا کی ہر طرح سے حفاظت کا ذمہ دار ہے۔لوگوں کے بنیادی حقوق کی پامالی،ان پر ظلم و زیادتی اور حکومت و اختیارات کے بل بوتے پر انکے استیصال میں سب سے بڑا ہاتھ چونکہ حکمرانوں کا اپنے آپ کو حاکم اعلیٰ اور مقتدر اعلیٰ سمجھنا ہے،اس لیے،اسلام نے اس تصوّر کی نفی کر کے حاکمیت ِ الہیہ کا تصوّر دیا ہے،تمام انسانی حقوق کی بنیاد چونکہ انسانی تعظیم و تکریم کے نظر یے پر قائم ہے ، اس لیے اسلام کے نزدیک ہر انسان عقیدہ و مذہب، خاندان و نسل اور علاقہ ورنگ کی تمیزو تفریق کے بغیر قابل ِ تکریم و تعظیم ہے۔اسلام انسانی مساوات کا علمبردار ہے اور رنگ، نسل، حسب و نسب اور علاقہ و زبان جیسے غیر اختیار ی عوامل کی بنیاد پر کسی انسان سے امتیازی سلوک کا قائل نہیں،اسلامی ریاست کے ہر شہری کے لیے بلا امتیاز عد ل وانصاف کی فراہمی حکومت کا اوّلین فرض ہے ۔ مزید یہ کہ کسی مذہبی و نسلی تمیز کے بغیر اسلامی ریاست میں بسنے والے ہر شہری کو ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے بچانا اورمظلوم کا دفاع کرنا اسلامی حکومت کا فرض ہے، یہ کوئی احسان نہیں۔ بلکہ اسلام تمام غیر مسلموں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا قائل نہیں بلکہ ان میں سے جو لوگ اہل ِ اسلام سے عداوت و مخالفت کا مظاہر ہ نہیں کرتے ، ان سے نیکی کا حکم دیتا ہے ۔ اسلام نے انسانی فطرت کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر مسلموں کو اہل اسلام سے سماجی و تمدنی تعلقات و مراسم قائم کرنے کی اجازت دی ہے ، خود پیغمبراسلام نے غیر مسلموں سے سماجی تعلقات قائم کرکے امت کے لیے جواز مہیا فرمایا ۔ اسلامی ریاست نے غیر مسلم شہریوںکے تمام بنیادی حقوق جن میں جان،مال،عزت،آبرو وغیرہ کا تحفظ شامل ہے، عطا کیے اور بالخصوص مسلم خلفاء نے ذاتی اعتبار سے ، کئی خامیوں کے باوجود اپنی غیر مسلم رعایا سے جس رواداری اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا،اقوام و مذہب کی تاریخ میں اسکی نظیر و مثیل کا تلاش کرنا ممکن نہ ہے۔جہاں تک ان سے جذیہ کے نام پرلیے جانے والے ٹیکس کا تعلق ہے،تو یہ انکے دفاع کیلیے تھا،نہ کہ کفر پر قائم رہنے کی سز ا کے طور پر ۔اسلام غیر مسلموں سے نیکی اور انصاف کا حکم دیتا ہے ، اس لیے اس حوالے سے غیر مسلموں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے ، اسلامی رواداری سے آگاہی اور جذباتیت و تشدّد پسندانہ روّیے سے اجتناب لازم ہے ۔