شاہ جی صاحب کے ساتھ میری قلبی اور روحانی وابستگی کالج لائف سے بھی ذرا پہلے کی ہے ، عصرِ حاضر کے بہت بڑے سکالراور صوفی ، جن کی روحانی و علمی نشستیں اور صحبتیں انسانیت کے گم کردہ راہ قافلوں کو صراطِ مستقیم اور جادہ دینِ متین سے آشنا کر رہی ہیں ۔ عصرِ حاضر میں شاید ہی ایسی کوئی خانقاہ ہو ، جہاں سجادہ طریقت و تصوّف اور مسندِ علم و حکمت... ایسی متبحر ہستی سے آراستہ ہو ۔مفسر قرآن ہیں ، کہ تفسیر کا ایک ایک لفظ نور اور ایک ایک حرف روشنی بکھیر تا دلوں کو علم و حکمت سے آراستہ کرتا جائے، اور محفل ذکر و فکر ایسی کہ گناہوں کے سَوت دُھلتے اور دلوں کی بنجر کھیتیاں آباد و پُر نور ہوتی محسوس ہوں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے "بیعت" اوراس کے انسانی زندگی پر اثرات کے حوالے سے جو کچھ فرمایا۔ اس میں ایسی بہت سی حکمت مأب باتیں تھیں، جس کی ہمارے قارئین کو تلاش رہتی ہے ، حضرت شاہ جی صاحب نے اپنی ایک نشستِ خاص میں" روحانی امانات، سالکینِ راہِ طریقت" کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ: حضورؐ نے قافلۂ انسانیت کو زندگی کی عمارت مضبوط کرنے کے لیے جو بنیاد عطا فرمائی وہ تین اصولوں پر مشتمل ہے ۔ آپؐکا ارشادِ گرامی ہے :" اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا، جو اللہ کے رب ہونے پر خوش، اسلام کے دین ہونے پر راضی اور محمدؐکے نبی اور رسول ہونے پر خوش ہوگیا۔ تصوّف، روحانیت اور مقصدِ زندگی کا عرفان انہی سہ جہتی اصولوں پر قائم ہے۔ قرآن مجید کے حروف سے لفظوں تک اور آیتوں سے سورتوں تک اسی منہاجِ زندگی کے تبلیغی جلوے ہیں۔ حضورؐ نے کتاب ِ حیا ت، قرآنِ حکیم کو اعمال اور تحریکات کی روح بنانے کے لیے" بیعت"کا نظام دیا ۔ حضورؐ کا کوئی ایک صحابیؓ بھی نہیں تھا، جو تشکیل ِ بیعت کے مرحلے سے نہ گزارا ہو ۔ خلافتِ راشدہ کی آخری کڑی امام حسن المجتبیٰ ؓ تھے ۔ ان تک بیعت، روح اور بدن کو آراستہ کرنے کے لیے، خلفاء ہی یہ جو ہرِ نور تقسیم کرتے رہے ۔ جب ملوکیت نے اپنے پَر پُرزے کھول لیے، تو بیعت بقائے دین کے لیے پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل ہوگئی اوربیعت کا سارا روحانی نظام ائمہ اہل بیت کی نگرانی میں چلا آیا اور دینی جد و جہد ایک نئے نظم اور عزم کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔ اب فرض نہ سہی لیکن ضروری ہے کہ ہر مسلمان فلاح اور صلاح کا روحانی نظام اپنائے اور کہیں نہ کہیں مرید بنے ۔ یادر ہے کہ اصل بیعت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہوتی ہے ۔ صالحین صرف نسبت کا آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تام کرتے اور پہنچاتے اور مریدوں و متعلقین کے ظاہری اور باطنی احوال کی نگرانی کرتے ہیں۔ روحانی نظام کی نشو و نما جس روح کے ساتھ قائم ہوتی ہے وہ حق پر قائم رہنا ہوتاہے ۔ حق کی اہمیت اس بات سے سمجھیں کہ قرآن نے سینکڑوں بار اذ کارِ حق کیا ہے ، اس لیے کہ مسلمانوں کے اندر حق کا غلبہ رہے ۔ انجیل کی ایک عبارت ہے:" تخلیقِ حق سے ہوئی اور حق ایک حرف کی صورت میں جلوہ نما ہوا اور بلا شبہ وہ حرف ہی حق تھا۔" ایک بار حضرت علی ؓ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ـ" الحق مع ذا"" حق انہیں کے ساتھ ہے ۔ علی ؓ جدھر گھومتا ہے حق اُدھر ہی گھوم جاتا ہے ۔ " یہ حق ہے کہ حق کی جلوہ گری، ایک اسم کی صورت میں ہوئی اور قرآن مجید کی پہلی اترنے والی آیت میں بھی یہی کہا گیا کہ اپنے ربّ کے عظیم اسم سے پڑھ۔ صرف پڑھنا بھی فائدہ دیتا ہے ،لیکن اس سے چمک اس وقت پیدا ہوتی ہے ، جب اللہ کا اسم دلوں میں ہنگامِ عشق وارد کردیتا ہے ۔ یادر کھ لو بیعت کرواور حق کے ساتھ زندگی گزاردو۔ دم دم" ہو اللہ": ضوابطِ ارادت میں اصل اہمیت ،دَم دَم اللہ کا ذکر کرنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :"تم میرا ذکر کرو، میں تمہاری یاد قائم کردوں گا۔" ہمارے مشائخ نے ذکر ہی تلقین کیا اور اسمِ مراقبہ کرنے کی ہدایت کی ۔ ذاکر ہونا عقلمند ہونے کی علامت ہے ۔ اس لیے سالک کے قریب غفلت نہیں آنی چاہیے ۔ ذکر وفکر میں یکسوئی، تکمیلِ روحانیت میں مدد گار ثابت ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مستاں رہنا لذت و اطمینان کا ضامن ہوتا ہے ۔ جو مجھے یہ رازِ نہاں ملے میری خامشی کو زباں ملے طہارت:صاف ستھرا رہنا ایک مسلمان کی فطری شان ہے ۔ وضو مسلمانوں کا اسلحہ ہے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم جب مدینہ منورہ میں رونق افروز ہوئے، تو میری عمر اس وقت آٹھ سال تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا :" میرے بیٹے! اگر تم سے ہوسکے تو ہر وقت باوضو رہا کرو، اس لیے کہ وضو کی حالت میں اگر کسی کو موت آجائے تو اسے شہادت کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے ۔" عبادت:اللہ کی محبت کاجو شخص ارادہ کرے، تو وہ جان لے کہ انسانوں اور جنوں کی تخلیق عبادت ہی کے لیے ہوئی ہے ۔ مسلمان کی ساری زندگی ہی عبادت ہوتی ہے لیکن یہ بات سمجھ لی جائے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے :" توحید اور رسالت کی سچی گواہی، نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی، رمضان کے روزے اور زندگی میں توشہ اگر حاصل ہوتو ایک بار حج۔"خصوصاً نماز کو حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ نماز کی حفاظت تصوّف میں کامیابیوں کی کنجی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :" میرے ذکر کے لیے نماز قائم کرو۔" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ـ: " بندہ جب نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اللہ کے سامنے ہوتا ہے ۔ جب وہ کسی اور طرف دھیان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! جس طرف تُو دیکھ رہا ہے کیا وہ مجھ سے بہتر ہے ۔ میرے بندے میر ی طرف منہ کر ، میں اس سے کہیں بہتر ہوں، جس کو تو دیکھے جارہا ہے ۔ "نماز خشوع کے ساتھ اداکرنا جنت کی کنجی ہے۔ نماز مومن کی معراج ہے ۔ نوافل کی پابندی: ایک سچا مسلمان جو کسی کا مرید بن گیا ہو، اسے چاہیے کہ وہ فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کی پابندی کرے ۔ اشراق، چاشت ، اوابین اور تہجد خصوصی طور پر ادا کرنے کی عادت اپنائے۔ جمعہ کے دن کو اللہ کے لیے خاص کرے ۔ جمعہ کے دن غسل کرنا نہ بھولے۔ ایک جمعہ کے غسل سے آنے والے جمعہ کے غسل تک گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے ۔ نفل پڑھنے والے ہی کو یہ بشارت ہے کہ اللہ اس کی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے ، کان ہوجاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ پکڑ تا ہے ۔ (جاری ہے)