کئی ماہ پہلے چائے کے بعد جنرل طیب اعظم نے دستخطوں کے ساتھ اپنے مرحوم والد کی تصنیف ’نقوشِ آگہی‘ عطا کی تو سچی بات ہے ازکارِ رفتہ سپاہی نے کتاب کو ایک عزیز دوست کی طرف سے محض ایک ایسے ’سوونیئر‘ کے طور قبول کیا تھاکہ جسے وہ ایک جگہ سے لا کر دوسری جگہ سجا دیتا، اور بس۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر اہم سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی یاد داشتیں کتابی شکل میں شائع کرواتے ہیں۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں عام طور پرایسی خود نوشتیںعموماََ خود ستائی پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔ خود نہ لکھیں، تو وہ جنہیں وسائل دستیاب ہوں، اوروں سے لکھواتے ہیں۔ان آپ بیتیوں میںاکثر مصنف کی بہادری ، صاف گوئی ،پیشہ ورانہ قابلیت کی داستانیں اور کرپٹ نظام کے مقابل اپنی مجبوریوں کے قصے ہی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایک خود نوشت، داستان گو کی طاقتوروں کے سامنے ’جی حضوری ‘ اورکمزوروں کے ساتھ’ فرعونیت‘ پر مبنی رویوں کے کتھارسس کی ہی ایک اپنی سی کوشش ہوتی ہے۔یہ داستانیں اپنے اندر اکثر اس ایک زندگی کو لئے ہوتی ہیںجو داستان گو جینا چاہتاتھا، مگراب وہ خواہش خلش بن کر اُس کے دل میں کا نٹے کی طرح چبھتی ہے۔ یادوں کے کھنڈرات میں ناسٹیلجیا کی ہوا زور پکڑتی ہے تو بڑھاپے کی شدت جس قدر زیادہ ہو،پچھتاووں کی لَوبھی اُسی شدت سے تیزہوتی چلی جاتی ہے۔لیفٹینٹ کرنل ریٹائرڈ محمد اعظم کی ’نقوشِ آگہی‘ کے باب میں بھی گمان یہی تھا۔یوں بھی کتابوں کا ایک ڈھیر سامنے ہے ۔ ایک سے بڑھ کر ایک کتاب ہے جسے پڑھنا ابھی باقی ہے۔دوسری طرف عمر کی بچی کچھی نقدی کا حساب کریں تو اداسی کا احساس ہوتا ہے۔ چنا نچہ’نقوشِ آگہی‘ مہینوں ازکارِ رفتہ سپاہی کی سٹڈی کے ایک شیلف پر پڑی دھول سمیٹتی رہی۔ حال ہی میں ایک نصف شب کے اُس پار، سونے سے پہلے حسبِ معمول ’ ہلکا پھلکا‘ پڑھنے کے لئے کچھ ڈھونڈتے ہوئے، مہینوں پہلے ’طاقِ نسیاں‘ پر دھری ’نقوشِ آگہی ‘پر نگاہ پڑی۔کتاب کو اٹھایا تو پہلی نظر میں ہی مندرجات معمول سے کچھ ہٹ کر دکھائی دیئے۔ کتاب کا دیباچہ جنرل حمید گل مرحوم نے تحریر کیا ہے۔ پیش لفظ میں خود مصنف کمال انکساری سے کام لیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی زیرِ نظرتصنیف’ کوئی ایسی معرکۃالاراء یا انقلاب آور کتاب نہیں کہ جس کے لئے لمبے چوڑے دیباچے ، پیش لفظ یا مقدمے لکھے جائیں‘۔مصنف کا خیال ہے کہ کتاب اُن کی عسکری زندگی کے دوران ہونے والے تجربات ،مشاہدات کا نچوڑ اور حاصلِ مطالعہ پر مشتمل تحریروں کا محض ایک مجموعہ ہے۔ اِن میں سے کئی ایک مضامین انہوں نے دورانِ سروس لکھے اور مختلف جرائد میں شائع ہوئے۔ اپنی کاوش کے اسی تعارف میں کرنل صاحب نے درست لکھا ہے کہ کتاب میں شامل مضامین میں انہوں نے صیغہ واحد متکلم بہت کم استعمال کیاہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باب اول کو چھوڑ کرجو اُن کے سوانحی تعارف پر مشتمل ہے، بقیہ پانچ ابواب کے علاوہ ’متفرقات اور اضافی مضامین ‘ کے عنوانات سے جمع کی گئی تحریروں میں انہوں نے اپنی ذات کو پسِ منظر میں ہی رکھا ہے۔ ارادہ تو یہی تھا کہ بستر پر نیم درازہو کر اس کتاب کو بھی محض ’ نیند کی گولی‘ کے طور استعمال کیا جائے۔ کتاب کومگرجب کہیں کہیں سے ’چکھا‘ توپھر ہاتھ سے رکھی نہ گئی۔ ایک کے بعد ایک ورق پلٹنا شروع کیا توزبان و بیان کی سادگی لئے ایک پختون از کارِ رفتہ سپاہی کی تحریر آخرِ شب جیسے رگ وپے میں اُترنا شروع ہو گئی ہو۔’ ’ذوقِ آگہی‘‘ پڑھنے کے بعد بے اختیار ڈاکٹر دائود رہبر کی ’نسخہ ہائے وفا‘ یاد آنے لگی۔ کتاب کیا ہے متنوع موضوعات پر استوار ایک گلدستہ ہے۔ پہلے باب میںمصنف کی پیدائش سے لے کر بچپن اور بعد ازاں فوج میں شمولیت کے مختصر احوال کے بعد بابِ دوم میں یونٹ کی زندگی میں حاصل ہونے والے عسکری تجربات قلم بند کئے گئے ہیں۔ دو اگلے ابواب بالترتیب’ پاکستانیات‘ اوردورِ اولیٰ کے مسلمان سالاروں سے لے کر شیر شاہ سوری تک کے فاتحین سے متعلق ہیں۔ ایک باب ادبیات کے نام ہے کہ جس میں’ بابا خوشحال خان خٹک کی شاعری‘، ’ایک پشتو لو ک کہانی‘ ،’ابراہیم لنکن کا ہیڈ ماسٹر کے نام خط ‘اور کچھ’ باتیں خلیل جبران‘ جیسے متنوع موضوعات شامل ہیں۔’ ادبیات‘ کے بعد آخری باب میں’ واقعاتِ عالم‘ پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جب کتاب لکھی گئی ہوگی تواِ س باب میں شامل موضوعات یقینا اس دور کے’حالاتِ حاضرہ‘ کے زمرے میں آتے ہوں گے۔ تاہم ان معاملات پر گفتگو کی افادیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ابواب کے بعد تین مضامین’ متفرقات‘ جبکہ چار مضامین یکسر مختلف موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے ’اضافی مضامین ‘کے عنوانات کے ساتھ کتاب میں شامل ہیں۔ اپنے ہفتہ وار کالم میں کسی کتاب پر ’بُک ریویو‘ لکھنا ہمارا مطمحِ نظر نہیں تھا نا ہی ازکارِ رفتہ سپاہی خود کو اس قابل سمجھتا ہے کہ کسی کتاب پرکوئی ماہرانہ یا ناقدانہ تبصرہ کرے۔آج کی اِس خامہ فرسائی کا مقصود صرف سرشاری کے اُن احساسات کو قلم بند کرنا تھا کہ جو اچانک ایک عمدہ اردو تحریر پڑھنے کے بعد ایک عام قاری پر طاری ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید نے ’نقوشِ آگہی‘ کو پاک فوج کے ماضی ، تحریکِ پاکستان اور پختونوں کے کلچر کو سمجھنے کے لئے ایک مفید کتاب قرار دیا ہے۔نا چیز ڈاکٹر صاحب کی رائے سے خود کو اسی حد تک متفق پاتا ہے کہ کتاب قاری کو ان عمیق موضوعات کی گہرائی میں اُترنے کے لئے کوئی مدد دے نا دے، اسے ان سمیت زندگی کے کئی دیگرپہلوئوں سے متعارف ضرورکرواتی ہے۔ ایک ’سپرنگ بورڈ‘ ضرور فراہم کرتی ہے کہ جہاں پر سے ہم جیسے نو آموز ان میں سے کسی ایک موضوع کے بحرِ تلاطم میں غوطہ زن ہو کر نئی دنیائوں کو ڈھونڈنے کی حتی المقدور سعی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ کتاب کے تعارف میں لکھی گئی جنرل حمید گل کی اس تجویز سے اتفاق کیا جانا چاہیئے کہ کتاب کو ملٹری لائبریریوں میں رکھا جا ئے۔ مگر صرف ملٹری لائبریریوں میں ہی کیوں؟کتاب کو تمام اردو سمجھنے بولنے والوں کو پڑھنا چاہیئے۔ ہماری رائے تو یہ ہے کہ اِسی مقصد کے پیشِ نظر سروسز بک کلب کو اس کتاب کو چھپوانے کا اہتمام کرنا چاہیئے۔خالصتاََ پیشہ وارانہ موضوعات کے علاوہ سروسزبُک کلب کووہ کتابیں بھی چھاپنا چاہیں جوعام فہم ہوں اورنوجوان افسروں میں’ شوقِ آگہی ‘پیدا کریں۔ اس باب میں مگرایک بد قسمتی جو آڑے آتی ہے وہ لگ بھگ چار عشروں سے ملک بھرکے گلی محلوں میں برساتی کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے ’انگلش میڈیم سکول ‘ہیں کہ جہاں بچے انگریزی تو جیسی بھی لکھنا پڑھنا سیکھتے ہیں، اردو زبان اُن کے لئے اجنبی بن کر رہ جاتی ہے۔اس سے بڑی بد قسمتی یہ کہ اپنی اِسی محرومی پرنوجوان نسل فخر بھی کرتی ہے۔