ایک مغربی مفکر نے کہا تھا: اگر تم ایک انسان کے اوصاف و کمالات اور احوال و خصائص کا اصل عکس دیکھنا چاہو ‘ تو اس وقت کا انتظار کرو جب موت کا دروازہ اس پر کھل جائے اور ظاہری‘عارضی اور مصنوعی پردے جو اس نے اپنی حقیقی اور اصلی شخصیت پر ڈال رکھے ہوں،دور ہو جائیں اور موت کی دستک سنتے ہی وہ نقاب الٹ جائیں۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا:میرا چہرہ زمین پر رکھ دے‘شاید خدا مجھ پر مہربان ہو جائے اور رحم فرما دے، پھر آخری کلمہ وصیّت اہل ذمہ یعنی غیر مسلم رعایا کے حقوق کی نسبت سے تھا۔حضرت عثمان غنیؓ پر جب بلوائیوں کا حملہ شدت اختیار کر گیا تو فرمایا’’سیلاب چوٹی تک پہنچ گیا اور معاملہ حد سے تجاوز کر گیا ‘‘ حضرت امام حسنؓ سے مروی ہے کہ جس روز میرے بابا سیدنا علی المرتضیٰؓ دنیا سے رخصت ہوئے۔اس روز سحر کے وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپؓ نے فرمایا ’’فرزند! رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ بس بیٹھے بیٹھے ذرا آنکھ لگ گئی تھی‘ خواب میں رسول اللہؐ کو دیکھا میں نے عرض کیا‘ یارسول اللہ ‘ آپ کی اْمت سے میں نے بڑی تکلیف پائی ہے‘ فرمایا دعا کر کہ خدا تجھے ان سے چھٹکارا دے دے ’’اس پر میں نے دعا کی’’خدایا! مجھے ان سے بہتر رفیق عطا فرما‘‘ حضرت حسنؓ فرماتے ہیں اسی وقت ابن النباح موذن حاضر ہوا اور پکارا ’’الصلوٰۃ ‘‘ یعنی نماز‘ میں نے آپؓ کا ہاتھ تھام لیا‘ آپؓ اٹھے ابن النباح آگے تھا‘ میں پیچھے‘ دروازے سے باہر نکل کر آپؓ نے پکارا ’’لوگو نماز‘‘ ! روزانہ آپ کا یہی دستور تھا‘ کہ لوگوں کو نماز کے لئے جگاتے جاتے۔یہ بھی کہا گیا کہ آپ نماز کے لئے گھر سے نکلے تو یہ شعر پڑھا‘ یعنی: ’’موت کے لئے کمرکس لے۔کیونکہ موت تجھ سے ضرور ملاقات کرنے والی ہے اور موت سے نہ ڈر کہ اس کو تو نازل ہو کر ہی رہنا ہے‘‘ ابن ملجم کی تلوار آپ کی پیشانی پر لگی اور دماغ تک اْتر گئی‘ زخم کھاتے ہی آپؓ پکارے:فزت برب کعبہ۔رب کعبہ کی قسم ،میں کامیاب ہو گیا۔ زخموں سے چور گھر تشریف فرما ہوئے‘امام حسنؓ کو نصیحت کی ’’یہ قیدی ہے‘اس کی خاطر تواضع کرو‘اچھا کھانا دو‘نرم بچھونا فراہم کرو‘اگر زندہ رہا تو اپنے خون کا سب سے زیادہ خود دعویدار ہوں گا۔قصاص لوں یا معاف کر دوں‘ اگر دنیا سے چلا جائوں‘ تو ایک ہی ضرب میں اسے بھی ختم کر دینا اور فرمایا کہ اے بنو عبدالمطلب !ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنا شروع کر دو کہ امیر المومنینؓ قتل ہوئے ہیں۔جندب بن عبداللہ نے کہا کہ اگر ہم نے آپ کو کھو دیا تو امام حسنؓ کے ہاتھ پر بیعت کریں‘جواب دیا‘ میں نہ اس کا حکم دیتا ہوں، نہ منع کرتا ہوں‘اپنی مصلحت تم بہتر سمجھتے ہو، پھر اپنے دونوں صاحبزادوں کو فرمایا کہ میں تمہیں تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اور دنیا سے بے رغبت ہو جائو‘ہمیشہ حق کہنا‘یتیم پر رحم‘ بے کس کی مدد‘مظلوم کی حمایت‘ظالم کی مخالفت کرنا‘ کتاب اللہ پر عمل پیرا رہنا اور خدا کے باب میں لوگوں کی ملامت کی پروا نہ کرنا‘پھر اپنے تیسرے صاحبزادے محمد بن الحنفیہ کو بھی یہی نصیحت فرماتے ہوئے کہا: اپنے ان دونوں بھائیوں کے حق عظیم کا خیال رکھنا‘حسن اور حسین کو فرمایا یہ تمہارا بھائی‘ تمہارے باپ کا بیٹا ہے‘تم جانتے ہو، تمہارا باپ اس سے محبت کرتا ہے۔پھر ایک جامع وصیت لکھوائی جس میں بطور خاص آپس کے اتحاد و اتفاق اور باہمی بھائی چارے کی ہدایات تھیں۔فرمایا: آپس میں پھوٹ نہ ڈالنا کیونکہ میں نے اللہ کے رسول سے سنا ہے کہ آپس کی محبت اور تعلق نماز‘روزے سے بھی افضل ہے۔اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھو‘ان سے بھلائی کرو‘خدا تم پر حساب آسان کر د ے گا۔یتیم کا خیال رکھنا۔پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرنا قرآن سے تمسک مضبوط رکھنا۔ حضرت امیر معاویہؓ عرب کے جزم‘ عزم ، عقل اور تدبر و سیاست کا استعارہ‘عظیم تر جہانداری کے مالک ،جب بیماری کا غلبہ اور طبیعت میں ضعف آیا اور مملکت میں فتنہ و فساد کا اندیشہ اور ابتری کا احتمال ہوا ،تو حکم دیا : میری آنکھوں میں خوب سرمہ لگائو اور سر میں تیل ڈالو‘میری مسند اور بچھونا اونچا کرو‘میرے پیچھے تکیہ لگا کر مجھے بٹھائو‘پھر کہا:لوگوں کو حاضری کی اجازت دو‘سب آئیں اور کھڑے کھڑے سلام کر کے رخصت ہوں‘لوگ سلام کر کے باہر جاتے‘تو آپس میں کہتے کہ خلیفہ تو ترو تازہ اور تندرست ہیں‘لوگ چلے گئے تو حضرت امیر معاویہؓ نے یہ شعر پڑھا (ترجمہ) شماتت کرنے والوں کے سامنے اپنی کمزوری ظاہر نہ ہونے دو‘انہیں ہمیشہ یہی دیکھائو کہ زمانے کے مصائب اسے مغلوب نہیں کر سکتے۔ علالت کے دوران قریش کی ایک جماعت عیادت کو آئی ،حضرت امیر معاویہؓ نے ان کے سامنے دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا:’’دنیا آہ دنیا‘‘ اس کے سوا کچھ نہیں جسے ہم اچھی طرح دیکھ چکے اور خوب تجربہ کر چکے۔خدا کی قسم‘ہم اپنی جوانی کے عالم میں دنیا کی بہار کی طرف دوڑے اور اس کے سب مزے لوٹے،مگر ہم نے دیکھ لیا کہ دنیا نے جلد پلٹا کھایا اور سب کچھ مختلف ھوگیا۔ایک ایک کرکے تمام گرہیں کھل گئی۔پھر کیا ہوا‘دنیا نے ہم سے بیوفائی کی۔ہماری جوانی چھین لی۔ہمیں بوڑھا بنا دیا‘آہ یہ دنیا کتنی خراب جگہ ہے؟یہ دنیا کیسا برا مقام ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ نے اپنی بیماری میں آخری خطبہ دیا:اے لوگو!میں اس کھیتی کی بالی ہوں، جو کٹ چکی ہے‘مجھے تم پر حکومت ملی تھی‘میرے بعد تمہیں جو حکمران ملے گے‘مجھ سے اچھے نہ ہونگے‘بالکل اسی طرح جیسے مجھ سے پہلے مجھ سے اچھے تھے۔پھر وقت آخر فرمایا مجھے بٹھا دو‘چنانچہ دیر تک ذکر الٰہی میں مشغول رہے‘پھر گریہ طاری ہو گیا‘رونے لگے‘فرمایا ’’ہائے‘اپنے رب کو تب یاد کیا ،جب بڑھاپے نے کسی کام کا نہ چھوڑا‘جسم کی چولیں ڈھیلی ہو گئیں‘اے کاش یہ کام اس وقت کیا ہوتا جب شباب کی ڈالی ترزو تازہ اور زندگی کی شاخ ہری بھری تھی۔ اور پھر دست دعا اٹھائے کہ اے رب!سخت دل گہنگار بوڑھے پر رحم کر‘الٰہی اس کی لغزشیں معاف فرما دے‘اس کے گناہ بخش دے‘اپنے وسیع حلم کو‘اس کے شامل حال کر دے‘جس نے تیرے سوا کسی سے امید نہیں رکھی‘تیرے علاوہ کسی پہ بھروسہ نہیں کیا‘آپ کی دونوں صاحبزادیاں آپ ؓکی کروٹ بدلانے لگیں‘ تو آپؓ نے ان کی طرف بغور دیکھا اور گویا ہوئے: ’’تم ایک ڈانواں ڈول وجود کو کروٹیں بدلوا رہی ہو‘اس نے دنیا بھر کے خزانے جمع کر لئے‘اے کاش وہ دوزخ سے محفوظ رہے۔ پھر شعر پڑھے‘جس کا ترجمہ یوں ہے: ’’میں نے تمہارے لئے سخت محنت کی اور تمہیں دربدر ہونے سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔موت کے ساتھ سخاوت اور فیاضی بھی مر جائے گی‘سائلوں کے ہاتھ لوٹا دیے جائیں گے اور دین و دنیا کی محرومیاں انتظار میں ہو ںگی‘جب موت اپنے ناخن گاڑ دیتی ہے، تو کوئی تعویز کام نہیں آتا‘‘ اپنے عزیزوں کو نصیحت کی اور فرمایا:اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ جو اللہ سے ڈرتا ہے‘خدا اس کی حفاظت کرتا ہے۔اس شخص کے لئے کوئی پناہ نہیں جو خدا سے بے خوف ہے‘وقت آخر یزید پہنچا اپنے والد کو سکرات الموت میں دیکھ کر رونے لگا‘ اور شعر پڑھے:اگر کوئی آدمی دنیا میں ہمیشہ زندہ رہ سکتا تو بلا شبہ لوگوں کا امام زندہ رہتا‘وہ نہ عاجز ہے اور نہ کمزور‘وہ بڑا ہی عاقل‘مدبر اور فہیم ہے‘لیکن موت کے وقت کوئی تدبیر کام نہیں آتی۔یزید کی آواز سن کر، حضرت معاویہؓ نے آنکھیں کھولی اور کہا’’اے فرزند!مجھے جس بات پر خدا سے سب سے زیادہ خوف ہے‘ وہ تجھ سے میرا برتائو ہے۔جانِ پدر!۔۔۔۔۔۔ایک مرتبہ میں رسول اللہؐ کے ساتھ سفر میں تھا‘وضو کے وقت‘میں دست مبارک پہ پانی ڈال رہا تھا‘آپ نے میرا کرتہ دیکھا جو کندھے سے پھٹا ہوا تھا‘آپ ؐ نے فرمایا:معاویہ!تجھے کرتہ پہنا دوں۔؟‘‘میں نے عرض کی ’’میں آپ پر قربان یارسول اللہ ضرور‘چنانچہ آپ نے مجھے کْرتا عنایت فرما دیا‘ جو کہ میں نے آج کے دن کے لئے سنبھال رکھا ہے۔اسی طرح رسول اللہؐ کے بال اور ناخن بھی محفوظ کئے ہیں‘جب مجھے غسل دے چکو ،تویہ بال اور ناخن میری آنکھوں اور ناک میں رکھ دینا اور رسول اللہؐ کا کرتہ ہمراہ کر دینا، اگر مجھے کسی چیز سے نفع پہنچ سکتا ہے تو وہ یہی ہے۔پھر سکرات کے عالم میں شعر پڑھے۔جس کا ترجمہ یوں ہے: اگر مر جائیں تو کیا کوئی بھی ہمیشہ زندہ رہے گا‘کیا موت کسی کے لئے کوئی عیب ہے‘ کاش میں نے کبھی سلطنت نہ کی ہوتی‘ کاش لذتیں حاصل کرنے میں‘اندھا نہ ہوا ہوتا‘کاش میں اس فقیر کی طرح ہوتا جس نے تھوڑے پہ قناعت کی۔