فلسطین کی تحریک آزای کے بانی و ہیرو یاسر عرفات نے 1974 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ میںزیتون کی شاخ لہرا کر اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کرنے کی پیشکش کی تھی ۔یہ ایک تاریخی موقع تھا۔ یاسر عرفات نے جو اکثر اپنی مخصوص وردی میں ہمیشہ پستول بھی لٹکائے رکھتے تھے یہ بھی کہا تھا کہ میرے ایک ہاتھ میں زیتون کی شاخ ہے اور دوسرے ہاتھ میں پستول ہے اگر مذاکرات کی پیشک مسترد کردی گئی تو پھر ہم جہاد کیلئے تیار ہیں۔ اس سے قبل فلسطینی مجاہدہ لیلیٰ خالد ایک مسافر طیارہ اغوا کرکے دُنیا کو مسئلہ فلسطین کی سنگینی کی طرف متوجہ کر چکی تھی۔ اسرائیل نے یاسر عرفات کو اس پیشکش کا مثبت جواب نہ دیا اور اپنی جارہانہ پالیسی جاری رکھی۔ فلسطینیوں کا خون بہتا رہا۔ اس کے بیس سال بعد یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیراعظم پیر ز رابن نے ایک کوششوں سے ایک امن سمجھوتے پر دستخط کر دئیے ۔ یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیراعظم پیر ز رابن کو امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ انجینئر یاسر عرفات کی طرف سے زیتون کی شاخ کی پیشکش کو اسرائیل نے طاقت اور امریکی پشت پناہی کے زعم میں تقریباً تقریباً ٹھکرا دیا تھا ۔ فلسطینی اپنے خون کی قربانی دے کر آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھاتے رہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن سمجھوتہ بھی ہوا۔ اسرائیل نے اس سمجھوتے کے تحت فسلطین کے لئے ایک الگ ریاست قائم کرنے کے اُصول کو قبول نہیں کیا۔ امریکی اور مغرب کی آشیر باد سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرکے وہا ں یہودی بستیاں آباد کرنے کا کام تیز کر دیا۔یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت سے نہ صرف روک دیا گیا بلکہ مسجد اقصیٰ بھی عبادت کرنے والے فلسطینیوں پربند کرکے انہیں مسجد سے زبردستی بے دخل کرایاگیا۔ یاسر عرفات کی طرف سے پیش کی گئی زیتون کی شاخ کو اسرائیل نے اپنے پائوں کے نیچے روند ڈالا۔ فلسطینیوں کو انتفادہ پر مجبور کر دیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر فلسطینی نوجوان بچے خواتین اور بزرگ شہید ہوتے رہے ۔ ان کے گھر مسمار کرکے اسرائیلیوں کو آباد کیا جاتا رہا۔ دنیاکو دکھانے کیلئے امریکہ اور یورپ مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کے لئے خصوصی مشن اور نمائندے بھیجتے رہے۔ لیکن یہ محض دکھا وا تھا۔ اسرائیل اپنا ناجائز قبضہ مستحکم کرتارہا۔کئی فلسطینی لیڈروں کو ڈرون حملوں سے شہید کیا گیا۔یاسر عرفات کو جو فلسطین کی جنگ آزادی کا ایک استعارہ تھا ، زہر دے کر مار دیاگیا۔ حماس کا تازہ ترین حملہ اُن مظالم کے خلاف ردّعمل ہے،جو اسرائیل بلا روک ٹوک کئی دہائیوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔گریٹر اسرائیل کے قیام کیلئے فلسطینی عوام کو اپنے ہی وطن میں مہاجر بنا کر رکھ دیا گیا۔ وہ بیچارے غزہ کی پٹی،اُردن کے مغربی کنارے میں مہاجرین کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس صورت حال پر ایک سابق یہودی عکسری ماہر نے حال ہی میں لکھا ہے کہ ہم فلسطینی عوام کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو ہٹلر نے ہمارے ساتھ کیا تھا۔ یہ نسلی امتیاز کی ایک بدترین مثال ہے۔ حماس کا حملہ ایک منصوبے کے تحت ہواہے، جس نے اسرائیل اور اس کی فوجی طاقت کا غرور خا ک میں ملا دیاہے۔ اسرائیل نے ایک اور ضرب کی جنگی ٹینک فوجی اور معاشی امدا د کے ذریعہ ایک بڑی فوج بنائی ہے۔ اس فوج نے 1967 ء اور 1973 ء کی جنگوں میں اپنے سے کئی گنا بڑی عرب ملکوں کی فوج کو شکست فاش دی۔ 1967 ء کی جنگ میں عربوں کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ شام کی جولان کی پہاڑیوں اورمصر کی وادی سینا کے بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ مصر کے صدر انور سادات نے امریکی کوششوں سے اپنا علاقہ کیمپ ڈیوڈ سایرے پر دستخط کرکے واپس لے لیا۔ لیکن انور سادات کی اس حرکت کو عربوں نے قبول نہ کیا اور اسے عربوں سے غداری قرار دیا۔ مصری صدر کو اس غداری کی سزا اُس وقت دی گئی جب قاہرہ میں مصری فوج کی پریڈ کی سلامی لے رہے تھے ۔ ایک فوجی آفیسر نے ٹینک کا گولہ فائر کرکے سٹیج پر سلامی لیتے مصر کے انور سادات کو قتل کردیا۔ قائد اعظم نے اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست قرار دیا تھا۔ اسرائیل کو پچھتر سال میں امن کا ایک ان دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ دنیاکے مختلف ملکوں سے نکالے گئے یہودی اسرائیل میں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ اسرائیل میں آباد یہودیوں کو نازی جرمنی ہٹلر کی یہودی لف کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا ۔ ہٹلر نے جرمن میں موجود یہودیوں کو گرفتار کرکے نہ صرف ملک بدر کیا بلکہ انہیں چن چن کر قتل کیا۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ہٹلر کی نازی نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ انہیں گیس چیمبروں میں ڈال کر ہلاک کیا۔ دو فلسطینی نوجوانوں نے اس یہودی پروپیگنڈہ کا گزشتہ صدی میں ایک تحقیقی مکالہ میں بھانڈہ پھوڑ دیا تھا۔ فلسطینی نوجوان ایسر چیررز نے اعدادو شمار کے ساتھ ثابت کیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران پورے یورپ میں ساٹھ لاکھ یہودی آباد نہیں تھے۔ جرمنی میں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو ہلاک کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔اسرائیل ایک مرتبہ پھر مغربی ملکوں کی ہلا شیری سے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اُتر آیاہے۔ حسب روایت اُس نے سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہسپتال پر بمباری کرکے سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر یاہے۔ نیتن یاہو کی کوششوں سے غزہ میں موجود فلسطینی باشندوں کا قتل عام کرکے اُنہیں غزہ سے نکال دیا جائے وغیرہ مغربی کنارے اور فلسطینی باشندوں کے پاس جو علاقے اُسے چھین لیاجائے ۔گریٹر اسرائیل قائم کیاجائے۔ فلسطین جانیں اور مسلمان ۔ سب مل کر روتے رہیں ، ماتم کرتے رہیں۔