وفاقی حکومت نے دستیاب پانی کی منصفانہ تقسیم اور چوری روکنے کے لئے جدید سیٹلائٹ مانیٹرنگ سسٹم نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہیایکنک نے اس سلسلے میں ملک کے ستائیس مقامات پر سیٹلائٹ مانیٹرنگ کے لئے 23 ارب 83 کروڑ 47لاکھ روپے لاگت کی منظوری دیدی ہے۔صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور با اثر زمینداروں کی جانب سے پانی چوری کے انسداد میں مجوزہ نظام مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ پانی کے حوالے سے داخلی تنازعات کو شفاف حل پیش کر سکتا ہے۔ پاکستان دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی نطام کا مالک ہے ۔پاکستان میں آبپاشی نے زراعت کے پھلنے پھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔کچھ عرصہ سے پانی کی قلت واقع ہونے لگی ہے۔طلب کے مطابق پانی کی سپلائی کم رہنے سے شکایات بڑھ رہی ہیں۔ پانی کی قلت اب کسانوں کے لیے ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جو ملک کے 90 فیصد سے زیادہ پانی کے ذخائر استعمال کرتے ہیں۔آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کسان پانی بچانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ نہروں کے بالائی حصے میں کسانوں کے پاس "چوری شدہ پانی" تک "غیر محدود رسائی" ہے اور اس لیے وہ پانی کے تحفظ کے طریقوں کو اپنانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔پاکستان کا آبپاشی کا نظام انگریزوں نے سن 1800 کی دہائی میں تعمیر کیا تھا، ایک پیچیدہ نیٹ ورک ہے جو دریاؤں سے پانی کو تقسیم کر کے نہروں تک پہنچاتا ہے ۔ سب سے چھوٹی نالی جس کے ذریعے کسان اپنا پانی حاصل کرتے ہیں اسے مقامی طور پر "موگا" کہا جاتا ہے، جو چھ انچ سے زیادہ چوڑا نہیں ہے۔ کسان باری والے ایک نظام کے ذریعے پانی حاصل کرتے ہیں جسے "واربندی" کہا جاتا ہے۔اس نظام میں ایک موگے سے ارد گرد کے کسان اپنے رقبے کے تناسب سے پانی لیتے ہیں۔اکثر ٹیل پر موجود کسان یہ شکایت کرتے ہیں کہ بالائی رقبے والے زمیندار ان کے حصے کا پانی چوری کر لیتے ہیں۔اس سے بسا اوقات کسانوں میں جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔اس معاملے میں محکمہ آبپاشی کے اہلکاروں کا کردار بھی منفی صورت میں ابھرتا ہے ۔ان شکایات کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی شفاف سیٹلائٹ نطام اور محکمہ کے اہلکار بیک وقت اپنا کردار ادا کریں۔ ملک کے پاس وافر آبی وسائل ہونے کے باوجود لاکھوں پاکستانی پانی کی کمیابی کا شکار ہیں۔ اشرافیہ کے مفادات پانی پر مبنی زراعت سے جڑے ہوئے ہیں ۔اسی اشرافیہ نے سیاسی معیشت میں ضروری اصلاحات کو روک رکھا ہے۔ بین الاقوامی قرض دہندگان بھی کئی دہائیوں سے پاکستان کو بیرونی امداد فراہم کرتے وقت پانی کی حفاظت کو مقدم رکھنے پر زور دیتے رہے ہیں۔ پاکستان کا کپاس سے تیار اشیا پر انحصار اس مسئلے کو برقرار رکھتا ہے کیونکہ فصل کے لئے زیادہ پانی درکار ہونے کی وجہ سے بہت کم فائدہ ہوتا ہے۔ چونکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بدتر ہوتے جا رہے ہیں، زرعی شعبے میں انفراسٹرکچر مسائل کو حل کرنا پاکستان کی اجتماعی آبی سلامتی کے تحفظ اور وسیع تر علاقائی عدم استحکام کو روکنے کے لیے اہم ہے۔ سیاسی عدم استحکام، معاشی غیر یقینی کی صورتحال اور موسمیاتی جھٹکیقومی پالیسی کی استعداد کو کھا رہے ہیں،حالیہ انتخابات کے دوران کسی جماعت نے پانی پر پالیسی نہیں دی۔ ایک اور طویل المدتی چیلنج نظر انداز کر دیا گیا ہے یعنی پاکستان کا پانی کا بحران۔ صاف پانی تک غیر مساوی رسائی موجودہ سماجی و اقتصادی تفاوت کو گہرا کر رہی ہے اور معاشی عدم استحکام کے دوران شہری بدامنی کو بڑھاوا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پرانا بنیادی ڈھانچہ اور آب و ہوا کی تیز رفتار تبدیلی کے غیر متوقع اثرات ریاست اور معاشرے کے لیے پانی کے تحفظ کو ایک خطرے کے طور پر مستحکم کر سکتے ہیں۔ جاگیر داراشرافیہ کے مفادات پانی پر مبنی زراعت سے منسلک ہیں۔ سیاسی معیشت میں ساختی فالٹ لائنیں ضروری اصلاحات کو روکتی ہیں ۔ نیز اصلاحات کی کوششیں اس لئے بھی پیچیدہ بن جاتی ہیں کہ غیر یقینی سیاسی ٹائم لائنز اور ایک حکومت سے دوسری حکومت تک پالیسی کے تسلسل کا فقدان ہے۔ پالیسی ساز ایسی پالیسیوں کے ذریعے پانی کی حفاظت کو بہتر بنا سکتے ہیں جو پاکستان کے پانی پر انحصار کرنے والے زرعی شعبے کے اندر انٹرسیکٹرل ٹرانسفرز کو ترغیب دیتی ہیں، غیر زرعی صنعتوں میں برآمدی مسابقت کو بڑھاتی ہیں اور پانی کے استعمال پر مساوی ٹیکس لگانے کے لیے نوآبادیاتی کینال اینڈ ڈرینج ایکٹ (1873) پر نظرثانی کرتی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور دو طرفہ قرض دہندگان بھی شعوری طور پر قرض دینے، تجارت اور سرمایہ کاری کے طریقوں کو اپناتے ہوئے اس طرح کی پالیسی تبدیلیوں کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے وسائل کو کم پانی استعمال کرنے والی فصلوں کے انتخاب کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں پانی کی منصفانہ اور شفاف تقسیم یقینی بنانے کے لئے سیٹلاٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہاہے۔پانی کی کمی کے باعث پاکستان کا بہت بڑا علاقہ بنجر پرا ہے،سندھ اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں طاقتور زمیندار سیاسی اثر و رسوخ سے نہری پانی چوری کرتے ہیں اور دوسری طرف پمپ لگا کر زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔مشکل ان کسانوں کے لئے ہے جو کمزور ہیں۔سیٹلائٹ نگرانی کے نظام کو صرف صوبوں کی شکایات دور کرنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کی مدد سے چھوٹے کسانوں کو ان کی ضرورت کا پانی فراہم کرنا یقینی بنایا جانا چاہئے۔