کالج کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد طلبہ کی ایک بڑی تعداد جامعات کا رخ کرتی ہے تاکہ وہ کسی ایک شعبے میں تخصص حاصل کر کے ملک و ملت کا نام روشن کر سکے۔طلبہ اپنی علمی تشنگی دور کرنے کے ساتھ سماجی انقلاب کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں اور سچ کے متلاشی بھی‘وہ سوالات سوچتے بھی ہیں اور ان کے جوابات کے لیے کتب خانوں کا بھی رخ کرتے ہیں۔ جان ہینری نیومین نے اپنی کتاب’آئیڈیا آف اے یونیورسٹی‘میں لکھا تھا کہ ’’یونیورسٹی کا بنیادی مقصد کسی بھی فرد کی فکر کی اس طرح پرورش کرنا ہے کہ وہ سچ کی تلاش کر سکے‘‘،لہٰذا اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ حقیقی طالب علم وہی ہوگا جو سچ کا متلاشی ہوگا۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری جامعات طلبہ کو سچ کے سفر پر روانہ کر رہی ہیں؟پاکستان کے ایک سوساٹھ اضلاع میں ایک سو بیالیس یونیورسٹیز(بشمول متصل ادارے) پہلے سے موجود ہیں‘سرکار نے دس نئی جامعات کی منظوری دے دی‘ایک طرف یہ انتہائی احسن قدم ہے کہ سرکاری جامعات میں اضافہ ہو رہا ہے مگر کیا ہماری سرکار یا ہائیر ایجوکیشن منسٹری نے جامعات کی نصاب سازی‘تعلیم کے طریقہ کار کو بدلنے یا اسے جدید بنانے کی زحمت کی؟کیا سرکار نے پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کی زبوں حالی پر کبھی سوچنے کی زحمت کی یا جامعات کی پریشان کن صورت حال پر چھپنے والی خبروں اور تجزیات کو کبھی سنجیدہ لیا؟شاید میری طرح آپ کا جواب بھی منفی ہو۔ ہماری ایجوکیشن منسٹری ایک طرف تو پاکستانی جامعات کو ورلڈ رینکنگ میں سرفہرست دیکھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کی زبوں حالی پر آج تک سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی‘سلیکشن بورڈز سے لے کر تحقیقی جرائد اور تحقیقی مقالہ جات تک‘ہر پہلو پر ایک عرصے سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ بی ایس اور ایم فل کے لاکھوں طلبہ مارکیٹ میں بھیجے جا رہے ہیں مگر مارکیٹ انھیں قبولنے کو تیار نہیں۔نجی و سرکاری جامعات سے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی ڈاکٹرز جو ہزاروں صفحات کا تحقیقی مقالہ(تھیسز) لکھ کر آتے ہیں اپنے ہی لکھے ہوئے ہزاروں صفحات کے مقالے کا دس سطروں میں ملخص تک پیش نہیںکر سکتے۔ جب محقق چالیس سے پچاس ہزار دے کر ایکس اور وائی کیٹگری میں مقالہ(جو صرف بھوسہ ہوگا) چھپوائے گا تاکہ بعد میں ڈگری لے سکے‘تواس محقق کے مقالات کی اہمیت و افادیت بھی ایسی ہی ہوگی۔جامعات کے پاس ریسرچ جرنل چھاپنے کے پیسے نہیں اور محقق کا پیپر چھپنے کے قابل نہیں لہٰذا دونوں ایک دوسرے کی ڈیمانڈ پوری کر رہے ہیں‘اس کے بعد مارکیٹ میں جو تحقیق آئے گی‘اس کا معیار کیساہوگا‘یہ ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔ ابھی دو روز قبل ایک خبر نظر سے گزری کہ جامعات کے تقریباً چالیس ہزار یونیورسٹی اساتذہ جو بی پی ایس پر ہیں‘انھیں ترقی سے محروم رکھا جا رہا ہے جبکہ صرف بارہ فیصد طبقے کو بھاری تنخواہوں اور مراعات سے نوازا جا رہا ہے‘اس خبر کے پیچھے کیا کہانی ہے وہ بھی سنتے جائیں۔2008 ء میں ایچ ای سی نے ایک نیا نظام متعارف کروایا جسے ٹی ٹی ایس کا نام دیا گیا‘اس نظام کے تحت ایک سیٹ اسسٹنٹ پروفیسر کے لیے مشتہر کی جاتی ہے جس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ مطلوبہ شخص پہلے بی پی ایس پر ہو اوریوں اسے ٹی ٹی ایس پر یونیورسٹی میں استادی کا موقع دیا جاتا ہے‘اسے مستقبل میں مشینی طریقے سے پروموشن بھی ملتی جاتی ہے اور اس کے برعکس بی پی ایس والے کے لیے ہر پروموشن میں سارا عمل از سر نو دہرایا جاتا ہے‘اس سے نقصان یہ ہوا کہ بی پی ایس والے جو پہلے سے جامعات میں موجود تھے‘وہ ابھی تک وہاں کھڑے ہیں اور ٹی ٹی ایس پر آنے والے مشینی ترقی سے پروفیسر بھی بن چکے ۔ اس خبر کے پیچھے اور بھی کئی کہانیاں سننے کو ملیں ۔یہ صرف ایک خبر ہے‘پچھلے چند ماہ میں پاکستان بھر کی جامعات سے ایسی درجنوں خبریں سننے کو ملیں‘کہیں سلیکشن بورڈ پر سوالات‘کہیں تحقیقی جرائد اور ان میں چھپنے والی مقالہ جات پر سوالات‘کہیں جامعات میں نصاب سازی اور تعلیمی نظام پر تشویش اور کہیں جنسی ہراسگی کے واقعات‘ایسا کیوں ہے؟ میںنے ایک ملاقات میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر کے سامنے بھی مذکورہ خدشات رکھے تھے ‘ان کے بقول کچھ باتوں میں سچائی نہیں جبکہ کچھ کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ ہم بہتری لانے کی کوشش کر رہے ہیں‘اب وہ بہتری کب تک آئے گی ‘اس بارے میں خود ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی خاموش ہے۔گزشتہ برس ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اکاون ارب روپے کی گرانٹ دی گئی‘جامعات کے اپنے ذرائع سے حاصل ہونے والی کمائی الگ ہے۔اس گرانٹ سے جامعات میں کون سی نئی تحقیق سامنے آئی یا کون سی نئی ایجاد ہوئی‘یہاں بھی سوالیہ نشان ہے۔ہمارے فارغ التحصیل طلبہ جب فیلڈ میں نکلتے ہیں تو اندر سے خالی ہوتے ہیں‘ان کے ہاتھوں میں کاغذ کی ڈگریاں تو ہوتی ہے مگر انٹرویو ٹیبل پر پہنچ کر ناکام ہو جاتے ہیں۔ایک طرف ہمارے طلبہ کا یہ حال ہے اور دوسری طرف ہم خوش ہو کر قوم کو بتا رہے ہیں کہ ورلڈ رینکنگ میں پاکستان کی پہلی یونیورسٹی ‘دنیا کی اچھی یونیورسٹیوں میںچار سونمبر پر کھڑی ہے۔ہماری اکثرجامعات نئے علوم کی تشکیل‘طلبہ کو سوال اور فکر کی آزادی دینے کی بجائے ان کے لیے مکالمے اور مباحثے کے دروازے بند کر رہی ہیں۔کچھ جامعات میں چند اساتذہ اپنے طور پر یہ فریضہ نبھا رہے ہیں کہ اپنے طالب علموں کو ذہنی طور پر آزادبنائیں‘انھیں دولے شاہ کا چوہا بنانے کی بجائے ان کے اندر سوچنے سمجھنے اور سوال اٹھانے کی صلاحیت پیدا کریں مگر مجموعی طور پر صورت حال انتہائی افسوس باک ہے۔ سرکار کو نئی جامعات کی منظوری سے زیادہ پہلے سے موجود جامعات کو جدید تر بنانا ہوگا‘تعلیم کے میدان میں اگر انقلاب چاہتے ہیں تو عالمی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم مدرسہ‘سکول‘کالج اور یونیورسٹی میں فرق کرنا سیکھیں‘اس سے شاید کچھ بہتری آئے ‘ہمیں سنجیدگی سے جامعات کے نظامِ تعلیم اور نظامِ تدریس کے بارے سوچنا ہوگا۔