آج کل ملکی تاریخ کا ایک اور گندم سکینڈل منظر عام پر آچکا ہے،،، اس سکینڈل میں ہوا کچھ یوں کہ نگران حکومت نے گندم امپورٹ کرنے کی اْس وقت اجازت دے دی جب نئی فصل دو ماہ بعد آنے والی تھی۔ ابھی جنوری میں لاکھوں ٹن گندم پاکستان پہنچی ہے، جبکہ اپریل میں نئی فصل کی کٹائی ہونی تھی۔ اب بتائیں جب آپ باہر سے لاکھوں ٹن گندم دو ماہ پہلے لا کر مارکیٹ میں پھینک دیں گے تو کسانوں کی گندم کون خریدے گا؟ آپ نے غیرملکی کسانوں کو تو ڈالرز دے دیے لیکن اپنے کسان کو روپے میں بھی ادائیگی کرنے کو تیار نہیں۔ بیوروکریسی کے غلط فیصلوں سے قومی خزانہ کو ایک ارب ڈالر کے نقصان کا سامنا ہوا۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے وافر گندم ہونے کے باوجود 35 لاکھ 87 ہزار ٹن گندم در آمد کی اجازت مانگی۔ ای سی سی نے یہ گندم کی درآمد کی باقاعدہ منظوری دی، نجی شعبے کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے پہلے 10 لاکھ گندم درآمد کرنے کی سمری تیار کی تھی ، وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے ہر کسی کو گندم منگوانے کی اجازت دے دی۔یکم اپریل 2024 تک 43 لاکھ ٹن گندم حکومت کے پاس موجود تھی ، مارچ میں سندھ میں گندم کی نئی فصل آنے سے گندم درآمد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔بیورو کریسی کے غلط فیصلے سے ایک ارب ڈالر کے زرمبادلہ ضائع ہوا، نگران حکومت کی غلط حکمت عملی سے گندم کے کاشت کار رل گئے۔کہ ان کی گندم کا ریٹ کوئی نہیں دے رہا۔ سرکاری ریٹ 3900 روپے تھا تو اب ڈھائی سے تین ہزار روپے کے درمیان مڈل مین دے رہا ہے۔ پاسکو اور صوبائی فوڈ ڈیپارٹمنٹ چپ چاپ بیٹھے ہوئے ہیں۔ پاسکو اِن کسانوں کو بار دانہ نہیں دے رہا۔ اب بچ بچا کر کسانوں کے پاس ایک ہی حل ہے کہ وہ کم قیمت پر اپنی گندم بیچیں اور نقصان اٹھائیں۔ سارا سال کسانوں نے کھاد فیکٹریوں کی مقرر کردہ قیمت پر کھاد خریدی، حکومت کے سرکاری ریٹ پر تیل خریدا، بیج خریدا‘سرکاری ریٹ سے بجلی کے نرخ ادا کیے‘ لیکن اب جب ان کی فصل کی باری آئی ہے تو اس وقت سرکار اپنے ریٹ پر بھی گندم نہیں خرید رہی۔ ایسے میں کسان احتجاج نہ کرے تو اور کیا کرے۔ یہ 1931ء کی بات ہے جب امریکہ کے شہر شکاگو میں بہت سے کسان سڑکوں پر تھے ، وہ حکومت سے نالاں تھے کہ اْن پر اضافی ٹیکس ڈال دیا گیا ہے، کسان اکٹھے ہوئے اورحکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا، حکومت نے اسے اپنے خلاف دھمکی قرار دے کر کسانوں کو حوالات میں بند کرنا شروع کردیا۔ اپنے کسان بھائیوں کو گرفتار ہوتے دیکھ کر دیگر شہروں سے کسان شکاگو پہنچنا شروع ہوئے اور کم و بیش 30ہزار کسان اکٹھ ہوئے اور حکومتی پارلیمان کے سامنے عارضی خیمے لگا لیے۔ حکومت نے اکا دکا بار کسانوں پر تشدد بھی کیا جس سے چند افراد مارے گئے لیکن حکومت اپنے اقدامات سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھی۔ کسانوں کا احتجاج چونکہ جائز تھا لہٰذااْن کی تعداد بڑھتے بڑھتے ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور احتجاج بھی طویل ہوتا گیا۔ یہ لوگ مخصوص وقت کے لیے سڑکوں پر نکلتے اور دوبارہ خیموں میں جا بیٹھتے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ 3سال تک جاری رہا ، جس کے بعد آخر کار حکومت کو گھٹنے ٹیکنا پڑے اور کسان کامیاب ہوگئے۔ اس احتجاج کے کم و بیش 80سال بعد 2020ئ￿ میں بھارت نے بھی اسی قسم کی ٹیکس اصلاحات اپنے کسانوں پر بھی نافذ کیں یعنی 14 ستمبر 2020کو بھارتی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ میں زراعت کے تین بل پیش کیے گئے۔17 ستمبر 2020کو لوک سبھا میں بل پاس ہوا۔جسے 20 ستمبر 2020 کو بل راجیہ سبھا میںبھی منظورکیا گیا۔ اس قانون سازی پر بھارتی کسانوں کو سخت قسم کے تحفظات تھے جس پر انہوں نے 24ستمبر کو پنجاب میں تین روزہ ریل بند کرنے کا اعلان کیا۔احتجاج بڑھتا گیا ، جس نے پورے بھارتی پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجبکہ یہ احتجاج آج بھی جاری ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا بالکل منفرد احتجاج تھا جس میں 800ہلاکتیں ریکارڈ کی گئیں۔ جس کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا واضح اعلان کردیا۔ وزیراعظم مودی نے کہا کہ ہم کسانوں کو قوانین پر اعتماد میں لینے میں ناکام رہے جس پر معافی مانگتا ہوں، ہم نے پوری کوشش کی؛ تاہم کسان راضی نہیں ہوئے،قوانین کی واپسی کیلئے آئینی عمل اسی ماہ شروع ہوجائے گا ،کسانوں سے درخواست ہے کہ گھروں کو واپس لوٹ جائیں۔ آپ دیکھیں گے کہ آنے والے چند دنوں میں کسان سڑکوں پر ہوگاچند کسانوں کی تنظیمیں سڑکوں پر آئی بھی ہیںمگر حکومت نے اْنہیں بزور طاقت کچلنے کی کوشش کی ہے،تمام شہروں کے داخلی سڑکوں پر سینکڑوں کی تعداد میں پولیس اہلکار کھڑے کر دیے گئے ہیں، تاکہ کسان شہر کے اندر پہنچ کر احتجاج نہ کر سکیں۔ کیا وقت فیصلہ کرنے والی قوتیںیہ زیادتیاں نہیں دیکھ رہیں؟ دیکھ رہی ہیں تو خاموش کیوں ہیں؟ کیا طاقت رکھتے ہوئے بھی خاموش رہنا ظلم نہیں ہے؟ کسانوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی حکومت بہتر رہی۔ ہمیشہ سپورٹ پرائس پیپلز پارٹی دور میں بڑھائی گئی ‘ مسلم لیگ(ن)ہو یا عمران خان حکومت وہ پرائس پر کوئی فیور نہیں کرتی۔ مسلم لیگ(ن) کو تو کسانوں کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ بہرکیف کبھی کبھار تو یہ باتیں سمجھ سے باہر لگتی ہیںکہ ہم محض تھوڑی سی کمیشن حاصل کرنے کے لیے ملک کو سینکڑوں ارب روپے کا چونا لگا دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان نگرانوں کو کون پوچھے گا جنہوں نے ای سی سی سے یہ فیصلے اپروو کروائے لیکن وہ شاید طاقتور لوگ ہیں اس لیے اْنہیں کچھ نہیں ہوگا۔ اپاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہاں طاقتور کو کچھ نہیں کہا جاتا اور غریب کو چھوڑا نہیں جاتا۔ لہٰذافیصلہ کرنے والے جب پانی سر سے گزر جائے فیصلے کریںتواْس وقت ان فیصلوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ اْس سے پہلے دیکھیں تاکہ اصل قصورواروں کو پکڑا جائے۔ اس وقت وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک کمیٹی قائم کردی ہے ،جو دو ہفتوں میں تحقیقات کرے گی کہ آخر ہوا کیا ہے۔ میرے خیال میں 2ہفتوں میں شاید کسان گندم کو اونے پونے بیچ چکے ہوں، یہ یقینا وقتی طور پر معاملات کو ٹھندا کرنے کی تجویز کے سوا کچھ نہیں ہے، اس لیے ہوش کے ناخن لیں اور وطن عزیز کے کسانوں کو فائدہ پہنچائیں نہ کہ دوسرے ملکوں کے کسانوں کو!