جنگ کا بگل بج چکا…وہ جو چاہتے تھے کہ روس ایک بہت بڑی جنگ میں چونتیس سال بعد پھر داخل ہو، ان کی منصوبہ بندی کامیاب ہو چکی ہے۔ جنگِ عظیم دوّم کے بعد ہمیشہ جنگیں ویت نام، افغانستان اور عراق جیسے ترقی پذیر اور کمزور ملکوں کی سرزمین پر لڑی جاتی رہی ہیں، لیکن اس دفعہ دونوں جانب عالمی طاقتیں خونخوار بھیڑیوں کی طرح غرّاتی ہوئی میدان میں اُتری ہیں۔ یورپ کی وہ سرزمین جس نے کئی صدیاں جنگ کی ہولناکیاں دیکھی ہیں، ایک دفعہ پھر وہی میدانِ جنگ بننے جا رہی ہے۔ گذشتہ صدی میں ہونے والی جنگِ عظیم اوّل اور جنگِ عظیم دوّم کا ایندھن یورپی ممالک ہی بنے تھے۔ کروڑوں انسانوں کے قتل عام اور لاکھوں عمارتوں کے زمین بوس ہونے کے بعد سات سمندر پار بیٹھے امریکہ نے انہیں معاشی بحالی کے نام پر اپنی غلامی میں ’’نیٹو‘‘ کی زنجیروں سے ایسا جکڑا کہ آج ان ملکوں میں پچھتر سالوں کی سرمایہ کاری سے منافع کمانے کا وقت آ گیا ہے۔ یورپ کے یہ ممالک خوب جانتے ہیں کہ اس جنگ سے منافع کون کمائے گا۔ وہ اسلحہ ساز فیکٹریاں اور کرائے کے فوجی فراہم کرنے والی کمپنیاں، جن کا کاروبار 15 اگست 2021ء سے سرد چلا آ رہا ہے، کیونکہ امریکہ ذلّت آمیز شکست کے بعد جب افغانستان سے نکلا تو وہ پانچ اسلحہ ساز کمپنیاں جنہوں نے ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ ہزار ارب ڈالر کمائے تھے، نئے محاذِ جنگ کے خواب دیکھنے لگیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ نے پانچ ہزار ارب ڈالر خرچ کئے تھے، جن میں سے تین ہزار ارب ڈالر ان اسلحہ ساز فیکٹریوں اور کرائے کے فوجی فراہم کر نے والی کمپنیوں کو ملے۔ یہ انسانوں کے خون سے اپنے کاروبار کی سلطنت کو وسعت دینے والی کمپنیاں دراصل ایک مشہور معاشی ترقی کے نظریے کی بنیاد پر کام کرتی ہیں جسے "Military Keynesianism" کہتے ہیں۔ یعنی مشہور معیشت دان کینز (Keynese) کی جدید معاشی تھیوری کا جنگوں کی معیشت پر کیسے اطلاق کیا جائے۔ تھیوری یہ ہے کہ جب کوئی کارخانہ، مل یا فیکٹری کماتی ہے تو اس کے اثرات عوام تک بھی پہنچتے ہیں۔ اس عمل کو (Trickle Down) کہتے ہیں، یعنی جب کسی سرمایہ دار کا بہت بڑا برتن دولت سے بھر جاتا ہے تو پھر سرمایہ اس برتن کے کناروں سے بہنے لگتا ہے جس سے عام آدمی ہی فیض یاب ہوتا ہے۔ جنگِ عظیم اوّل اور جنگِ عظیم دوّم میں انہی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اربوں ڈالر کمائے تھے اور اب دوبارہ ان کی رال ٹپک رہی ہے۔ جمہوریت کا کمال یہ ہے کہ جمہوری نمائندے یعنی ممبرانِ کانگریس یا اراکینِ پارلیمنٹ انہی کمپنیوں کے سرمائے سے الیکشن جیتتے ہیں، پھر ان کمپنیوں کی ایماء پر ان کی منافع خوری کے لئے عوام کو لاحاصل جنگ میں اُلجھاتے ہیں۔ لوگوں کے ٹیکس سے پلنے والی افواج میدانِ جنگ میں اُتاری جاتی ہیں۔ جنگ کا بوجھ بھی عوام برداشت کرتے ہیں اور اُس کی اذیت بھی، لیکن کمائی صرف اور صرف اسلحہ ساز کمپنیوں کی ہوتی ہے۔ موجودہ تنائو میں ان کمپنیوں کی منصوبہ بندی ملاحظہ کریں۔ جیسے ہی 2014ء میں امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا اعلان کیا تو روس کو اس قدر اُکسایا گیا کہ اس نے یوکرائن میں حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی ملیشیاء کی حمایت میں اپنی فوجیں اُتار دیں۔ یوکرائن جب 1992ء میں روس سے علیحدہ ہوا تھا تو وہ ایک ایٹمی قوت تھا۔ اس کا ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ دُنیا میں تیسرے نمبر پر تھا۔ امریکہ نے اس ملک کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لئے اس کے ساتھ طویل مذاکرات کئے اور روس کو بھی اعتماد میں لیا۔ لاتعداد یقین دہانیاں کروائیں جس کے بعد یوکرائن نے اپنے ہزاروں ایٹمی ہتھیار روس کو واپس کر دیئے جس کے بدلے میں امریکہ اور نیٹو نے اسے یقین دلایا کہ اگر کبھی روس نے اس پر حملہ کیا تو وہ اس کا دفاع کریں گے۔ یوں روس کے سر پر بھی ایک تلوار لٹکا دی کہ یوکرائن کبھی بھی نیٹو کا حصہ بن جائے گا یا نیٹو اس معاہدے کے تحت اس کی مدد کرے گا۔ لیکن جنگ کو ایک آتش فشاں میں تبدیل کرنے کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے جب روس نے باغیوں کی مدد کے لئے اپنی افواج وہاں اُتاریں تو دُنیا بالکل خاموش رہی۔ یہ وہ پہلا سبق ہے جو پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے یوکرائن سے سیکھنا چاہئے کہ موجودہ کشمکش والی دُنیا میں کسی ایٹمی طاقت کو اس کے ایٹمی ہتھیار ہی اس ملک کی آزادی،خود مختاری اور سلامتی کی ضمانت ہوتے ہیں،ان سے دستبرداری کے بعد کوئی عالمی طاقت کبھی اپنے وعدے پورے نہیں کرتی۔یوکرائن میں روس نے باغیوں کی حمایت کی اور اس کے بعد اس تنازعے کو ہوا دینے اور عوامی جذبات سے کھیلنے کے لئے سی آئی اے نے اپنا مشہورِ عام طریقِ کار عوامی محاذ آرائی (Public Uprising) اپنایا،جس کے نتیجے میں یوکرائن کے عوام روس کی اس فوجی مداخلت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔روزانہ جلوس نکلتے اور یورپی ممالک اور امریکہ کے سفیران جلوسوں اور دھرنوں میں براہِ راست حصہ لیتے۔ یوکرائن پر ان دنوں روس نواز حکومت تھی جو عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر برسرِاقتدار آئی تھی۔سی آئی اے کے پے رول پر موجود سیاسی لیڈروں نے ان جلوسوں اور دھرنوں کا رُخ اس وقت کے روس نواز صدر وکٹر یانوکووچ (Vicktor Yanukovych) کے خلاف موڑ دیا اور عوام کے منہ میں یہ بھی نعرہ ڈال دیا گیا کہ فوراً آئین میں ترمیم کر کے یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کئے جائیں۔دارالحکومت میں دھرنے شروع ہوئے جو چند دن بعد خونی فسادات میں بدل گئے۔ ہجوم نے لاتعداد عمارتوں پر قبضہ کر لیا اور پورا شہر ان کا یرغمال بنا دیا گیا۔ یوکرائن کا صدر تو 2010ء میں ایک شفاف اور منصّفانہ انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آیا تھا، مگر عالمی پریس اسے ڈکٹیٹر اور بددیانت بتا رہا تھا اور اس کے مقابلے میں اپوزیشن کے ہنگاموں کو ایک جمہوری جدوجہد قرار دے رہے تھا۔ سی آئی اے کا سرمایہ اور منصوبہ بندی عروج پر تھی جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے اراکین کو قائل کر لیا گیا تھا کہ اگر یہ روس نواز حکومت قائم رہی تو روس ایک دن ویسے ہی یوکرائن پر قبضہ کر لے گا، جیسے اس نے کریمیا پر کیا تھا۔ فسادات خوفناک ہوئے اور سول وار کا خطرہ پیدا ہوا تو 22 فروری 2014ء کو یوکرائن کی پارلیمنٹ نے صدر کے خلاف عدمِ اعتماد کا ووٹ پاس کر دیا اور وہ خاموشی سے اپنی گاڑی میں بیٹھا اور روس کے ساتھ تازہ تازہ ضم ہونے والے علاقے کریمیا چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد ہنگامہ کرنے والے بے دھڑک صدارتی محل اور دیگر عمارات میں داخل ہو گئے اور صدر کی پر تعیش رہائش گاہیں ایک منفی پروپیگنڈے کے تحت ٹی وی پر دکھائی جانے لگیں۔ مغربی دُنیا کے میڈیا نے اس کی کرپشن کی کہانیوں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا۔ یہی وہ زمانہ تھا جب عمران خان نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف دھرنے کا آغاز کیا تھا۔خود عمران خان بھی تقریروں میں عوام کو یوکرائن کے عوام کی طرح اُٹھ کھڑے ہونے کے لئے کہتے تھے۔ امریکہ اور یورپ ،روس نواز صدر کی معزولی کے بعد یوکرائن پر ایک دَم مہربان ہو گیا۔ یوکرائن کے عوام کا یورپ میں داخلے کے لئے ویزہ ختم کر دیا گیا اور اسے نیٹو میں شامل کرنے کے لئے تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے۔ یہاں تک کہ جوبائیڈن نے اعلان کیا کہ جب یوکرائن چاہے اسے نیٹو میں شامل کر لیا جائے گا۔ یوکرائن جنگ کے شعلے بھڑکانے والوں ’’ملٹری کاروباریوں‘‘ کے لئے اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ یکم جون 2019ء کو پینٹا گون نے بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے بارے جو پالیسی جاری کی تھی، اس میں یوکرائن کا خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا، حالانکہ یوکرائن کا اس خطے سے دُور دُور تک بھی تعلق نہیں ہے۔ جس طرح یورپ کا یوکرائن ،امریکہ اور روس کی جنگ میں اہم ہے، ویسے ہی ایشیاء کا پاکستان بھی امریکہ اور چین کی جنگ میں اہم ہو سکتا ہے۔ کیوں؟ (جاری ہے)