معاشرے میں رہنے والے افراد ہر عمل پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں جسکی ایک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور یہ قیمت فرد یا معاشرے کا ظاہر یا پوشیدہ رویہ ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ پاکستان کسی نہ کسی طریقے سے وی آئی پی کلچر کی قیمت اداکر رہا ہے۔ کیونکہ کچھ لوگوں کو بہت اہم قرار دینا اتنا عام ہو گیا ہے کہ کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ عام عوام اسکی کتنی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ مجھے وی آئی پی کلچر کے سرکاری اعداد و شمار نہیں مل سکے، لیکن ہم فرضی طورپر اس طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم روزانہ کی بنیاد پر سڑکوں کا رخ کرتے ہیں تو سڑکیں کچھ دیر کے لیے بند ملتی ہیں کیونکہ اس دوران ایک وی آئی پی کارواں راستے میں ہوتا ہے، سٹرکوں پر سینکڑوں گاڑیاں رکی ہوئی ہوتی ہیں جو وی آئی پی پروٹوکول کے گزرنے کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ فرض کریں کہ سڑکوں پر کھڑی ہونے والے دو پہیوں سے لے کر چار اور اس سے زائد پہیوں والی سو گاڑیاں موجود ہیں اوسطاً ان سو گاڑیوں کی کم سے کم قیمت کا حساب لگایا جائے، جن میں تیس سے تین ہزار روپیہ کا پیڑول ڈلتاہو۔ اس میں کاربن کے اخراج کی دگنی قیمت کو بھی شامل کرتے ہیں کیونکہ یہ گاڑیاں انتظار کے دوران کاربن کے اخراج کو خارج کرتی ہیں جو ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔صرف اسلام آباد میں کم از کم ایک وی آئی پی موومنٹ تقریباً ڈھائی لاکھ سے پانچ لاکھ تک کامہینے کا خرچہ ہوتا ہے اور اگر ہم صرف اسلام آباد میں بھی وی آئی پی موومنٹ کی قیمت کاسالانہ اندازہ تقریبا ڈیڑھ سے دو ارب روپے تک لگایا جاسکتا ہے اور پورے ملک میں وی آئی پی کلچر کا اندازہ لگایا جائے تو اس کی قیمت تقریبا 30 سے 50 ارب روپیہ سالانہ بنتی ہے۔دریں اثنا، اگر اس رقم کو سرمایہ کاری، فلاح و بہبود، خواندگی، ٹیکنالوجی یا کسی اور پیداواری سرگرمی میں استعمال کریں تو یہ ملک و قوم کے لیے وسیلہ بن سکتا ہے۔ یہ رقم ہر سال ملک سے ایک یا دو فیصد غربت کم کر سکتے ہیں۔ ہم اس رقم کو تعلیم، ٹیکنالوجی کی منتقلی پر خرچ کر سکتے ہیں یا اسے یتیموں، بوڑھوں کو کھانا کھلانے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں یا اسے تعلیم کی بہتری میں لگا سکتے ہیں یا اسے توانائی یا پانی کے ذخائر کی پیداوار کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ رقم تنازعات اور تشدد کو کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہو سکتی ہے اور ملک میں امن و سلامتی کی صورتحال کو بڑھا سکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وی آئی پی کلچر کے صرف معاشی اخراجات نہیں ہوتے بلکہ اس کے سماجی اخراجات بھی ہوتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی معذوری ہے جو اعلیٰ افسران کے ساتھ ساتھ ماتحتوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ اعلیٰ حکام کا خیال ہے کہ پروٹوکول ان کا حق ہے۔پاکستان میں طبقاتی تقسیم کا نظام رائج ہے ، جسکی لاٹھی اسکی بھینس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں کی با اثر شخصیات خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہیں جہاں حکومتی ادارے بھی انکی حمایت میں کھڑے ہوتے نظر آتے ہیں اور انکے خلاف کچھ نہ کرنے کے حوالے سے بے بس ہوچکے ہیں۔ ہماری سڑکیں وی آئی پی کلچر کی چشم دید گواہ ہیں جہاں گھنٹوں کھڑی عوام انکے جانے کا انتظار کرتی رہ جاتی ہے، ان کو تحفظ دینے کی غرض سے کتنے ہی لوگ سڑکوں پر مختلف حالات و واقعات اور مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ ان بااثر شخصیات کے گھر والے، رشتے دار اور دوست احباب ہر جگہ انکی طاقت کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور جب مطلوبہ کام آسانی سے نہ ہو سکے تو یہ کہتے ہیں کہ تم جانتے نہیں میں کون ہوں۔ بیوروکریٹس سے لے کر سیاسی شخصیات اور ریاست کے تین اعلی سطح کے طبقے جیسے کہ’’قانون ساز‘‘جج اور مختار کل اس طاقت کا استعمال کر کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وی آئی پی کلچر صرف یہاں تک مقید نہیں بلکہ اسکی جڑیں اب ماہرینِ تعلیم یعنی ہمارے معاشرے کے دانشور اور معاشرتی تبدیلی کو لاگو کرنے والے افراد بھی اس نام نہاد کلچر کی زرد میں آ چکے ہیں۔ پاکستان میں بد قسمتی سے وی آئی پی کلچر پر بات کم کی جاتی ہے، وی-آئی-پی کلچر لوگوں کے حقوق کو چھینتا ہے اور اگر جب کوئی ان کے خلاف آواز بلند کرے تو اسے تنقید اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بعض اوقات اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ وی آئی پی کلچر پاکستان کے روایتی ثقافت میں نا صرف داخل ہو چکا ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی اقدار کو بھی ثانوی درجہ پر لا چکا ہے۔ ہر روز میڈیا پر مختلف ویڈیو کلپ سامعین کو دکھائی جاتی ہیں جو وی آئی پی کلچر کی نشاندہی توکرتی ہے لیکن میڈیا بھی انکے خلاف کچھ کرنے اور بولنے سے قاصر ہے۔ یہ اعلیٰ اور با اثر شخصیات طاقت کے نشہ میں یہ ظاہر کرتے ہیں کے ان کا مقام اعلی ہے جبکہ باقی سب ان سے کمتر اور کیڑے مکوڑے ہیں۔ جب تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو وی آئی پی کلچر کا آغاز اس وقت ہوا جب انگریزوں نے برصغیر میں مکمل سکونت اختیار کی اور آج یہ نظام ہماری روایتی اقدار کو توڑ مروڑ رہا ہے۔ پاکستان میں وہ لوگ جو وی آئی پی کلچر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے اپنی محنت سے یہ مقام حاصل کیا ہو بلکہ رتبہ اور شان و شوکت انکو وراثت میں ملتی آ رہی ہے اب یہ وقت آ چکا ہے کہ پاکستان کی ریاست 1973 کے آئین کے مطابق ہر شہری کو مساوی حقوق فراہم کرے۔ درحقیقت کوئی بھی شخص خواہ کسی بھی طبقہ، ذات اورمذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔ ہر شہری کو اسکی ذات، نسل، مذہب، عقیدے میں فرق کیے بغیر مساوی حقوق اور برابری دینی ہوگی۔ پاکستان میں اب وی آئی پی کلچر کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے، موجودہ حکومت نے اپنی حکومت میں آنے سے پہلے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ پچھلی حکومت کی طرح وی آئی پی کلچر کو نہیں اپنائے گی مگر افسوس انکی باتیں محض باتیں ہی رہیں۔ اب ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی اور انہیں احساس دلانا ہوگا کہ پاکستان میں ہر فرد برابری کا حق دار ہے جبکہ یہ وی آئی پی کلچر ہر جگہ عوام الناس کی توہین کا باعث بن رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو وی آئی پی کلچر پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔ ریاست، سرکاری اداروں اور عوام الناس کے مابین سخت اختلاف موجود ہیں جو مساوی حقوق کی فراہمی سے ہی ختم ہونگے۔