ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے پورا پاکستان جاگ اٹھا ۔ پہلی دفعہ اتنی بڑی تعداد میں کراچی سے خیبر تک،آزاد کشمیر ،خیبر پختونخوا ،سندھ ،بلوچستان ،گلگت بلتستان ہر شہر اور ثقافت کے لوگ مینار پاکستان تلے موجود تھے۔خواتین کارکنان کی بہت بڑی تعداداپنے محبوب قائد کو خوش آمدید کہنے کیلئے آئی ہوئی تھی۔جلسے سے جو پاور شو کرنا مقصود تھا وہ اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ کوئی تجزیہ نگار ایسا نہیں جو ان کے جلسے میں لوگوں کی مثالی شرکت سے انکار کر رہا ہو ۔ نواز شریف کو جب بھی نکالا توخیال تھا کہ نواز شریف کی سیاست '' مک گئی '' اب کبھی واپس نہیں آئے گا مگر ہمیشہ ایک نئی مقبولیت اور طاقت سے واپس آیا اور چھایا بھی۔ نواز شریف ایک دفعہ وزیراعلیٰ جبکہ تین بارزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ اور اب ایک مرتبہ پھر سے اقتدار کی جانب گامزن ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ شہباز شریف کے دور میں مہنگائی ہوئی۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں ناصرف ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لیے، دوست ممالک کو ناراض کیا، بلکہ جاتے جاتے آئی ایم ایف سے معاہد ہ بھی توڑ کر گئے ۔پی ٹی آئی کے اپنے رہنمائوں کے بیانات تھے کہ شہباز شریف ہماری بچھائی بارودی سرنگوں سے نہیں نکل سکتے۔ بلاشبہ یہ شہباز شریف کا ہی کمال تھا کہ آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔عمران خان حکومت سے ناراض سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور چین کے ساتھ ناصرف تعلقات میں بہتری لائے بلکہ ان کواربوں ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری کیلئے بھی راضی کیا۔شہباز شریف کو وزیرِاعظم کے طور پر بہت سے چیلنجز کا سامنارہا ۔ شہباز شریف نے نا صرف ان چیلنجز کا سامنا کیابلکہ مشکل ترین حالات میں بھی وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب رہے۔مسائل سے اس طرح نمٹنے کی صلاحیت بلاشبہ شہباز شریف کا ہی کام تھا۔شہباز حکومت مالی مسائل کے باوجود بااختیار نوجوان انٹرن شپ پروگرام،ٹیکس فری آئی ٹی انڈسٹری ،یوتھ سکل ٹریننگ سینٹرز ،یوتھ بزنس اور زرعی قرضہ سکیموں کا آغاز کرکے نوجوان طبقہ کے ہیرو بن گئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا ہر جوان آئندہ الیکشن میں شہباز شریف اور پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی کا خواہاں نظر آتا ہے۔مسلم لیگ ن کی 2013کی حکومت کا سارا کریڈٹ بھی شہباز شریف کی 2008سے 2013تک پنجاب کی وزارت اعلیٰ کو جاتا ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگہ شہباز شریف مسلم لیگ ن کی کامیابی کا مرکزی و بنیادی کردار ہیں۔ شہباز شریف اتفاق رائے کے قائل ہیں اور مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی بات کرتے ہیں۔شہباز شریف کا مفاہمت کا بیانیہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔نواز شریف کی طرف سے تخریب نہیں تعمیر،انتقام نہیں استحکام کا واضح پیغام ،تمام ریاستی اداروں، جماعتوں اور ستونوں کوساتھ لیکر چلنے عزم قابل تعریف ہے۔ نواز شریف کی آمد مایوسی میں امید کرن ثابت ہورہی ہے ۔لوگوں میں بھی ایک نیا ولولہ اور جوش و خروش دیکھ رہا ہوں، انہیں یقین ہے کہ یہ شخص ایک بار پھر انہی رستوں پر گامزن ہوگا جو رستے ملک کو ترقی کی جانب لے جا رہے تھے اور جو عوام کی امنگوں اور خواہشات کے ترجمان تھے۔دور اقتدار میں سی پیک سمیت بہت سارے ترقیاتی کام ہوئے اور ملک کی معاشی سمت بھی درست ہوتی نظر آئی،اس ملک کی ترقی خاص طور پر وہ منصوبے جنہیں فیس آف پاکستان کہا جا سکتا ہے وہ نواز شریف کی ہی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔حب الوطنی سے سے سرشار نواز شریف کی قیادت میں پاکستان عالم اسلام کا پہلا ایٹمی ملک بن کر ابھرا۔ میاں نواز شریف پاکستان نہیں آ رہے یہ بات کسی ایک فرد کی جانب سے نہیں بلکہ ایک سے زائد نامی گرامی اینکرزاورمیڈیا ٹک ٹاکرز کی جانب سے کہی گئی اور تواتر کے ساتھ کہی گئی۔اب جب نواز شریف پاکستان آچکے ہیں تو حاسدوں کے چہرے مرجھا گئے ہیں، وہ جلی کٹی سنا رہے ہیں کہ تین مرتبہ وزیراعظم بن کر انہوں نے ایساکونسا کارنامہ سر انجام دیا تھا کہ اب چوتھی بار آرہے ہیں؟کچھ انہیں سزا یافتہ ہونے کے طعنے دے رہے ہیںجبکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ نواز شریف پر کرپشن کے جتنے بھی الزامات عائد کیے جاتے رہے،ان میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہیں ہو سکا اور انہیں جس طرح نا اہل قرار دیا گیا وہ بھی سب پر واضح ہو چکا ہے۔ موٹرویز کا آغاز جوایک جدید پاکستان کے قیام کا آغاز تھا اور سب سے بڑھ کے دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ تک کا دور جس میں دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کا ہی خاتمہ نہیں ہوا بلکہ سی پیک سمیت انفراسٹرکچر کی تعمیر کا تاریخی آغاز بھی ہوا، یہی وہ دور تھا جب مہنگائی ملکی تاریخ کی نچلی ترین سطح پر اور گروتھ آوٹ لک ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا۔ تمام معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کے دور والا امن، ترقی اور خوشحالی کا سفر جاری رہتا تو پاکستان اس وقت جی ٹونٹی کاممبر ہوتا یعنی اس کی معیشت دنیا کی بیس بہترین معیشتوں میں سے ایک ہوتی۔ موجودہ معاشی بحران کی صورتحال میں آکر ملک کی باگ ڈور سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں اور اس کا ارادہ وہی شخص یا سیاسی جماعت کر سکتی ہے جس کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہو۔ موجودہ معاشی بدحالی سے نکالنے کی امید نواز شریف سے ہی وابستہ کی جاسکتی ہے جس کی بنیاد ان کی کارکردگی، عالمی سطح پر اچھے تعلقات اوران پر اعتماد ہے ۔ اب اگلے انتخابات کا بیانیہ معیشت کی مضبوطی ہوگا جس کی ٹریک ہسٹری صرف مسلم لیگ نواز کے پاس ہے۔نواز شریف کے آتے ہی جاتی امراء پاکستان کی سیاست کا مرکز بن گیا ہے۔بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کیساتھ چلنے کا اعلان،جے یو آئی اور اے این پی رہنمائوں کی ملاقاتیں جبکہ دیگر سیاسی رہنمائوں کی جانب سے نوازشریف کی وطن واپسی کا خیرمقدم کیا جارہا ہے۔