وزیر اعلیٰ مریم نواز نے پنجاب میں پراونشنل انفورسمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کی منظوری دیدی ، کہا گیا ہے کہ انفورسمنٹ اتھارٹیز سپیشل ٹاسک سرانجام دیں گی،پنجاب کے ہر ڈسٹرکٹ اورتحصیل میں بھی انفورسمنٹ اتھارٹیز قائم کی جائیں گی۔ یہ سب کچھ اس بناء پر ہو رہا ہے کہ پنجاب بڑا صوبہ ہے اسی بناء پر وزارتوں اور محکموں کے ہونے کے باوجود ذیلی ادارے اور اتھارٹیز قائم کرنا پڑتی ہیں، اس کا بہتر حل یہی ہے کہ (ن) لیگ اپنے منشور اور وعدے کے مطابق صوبے کے قیام کے لیے اقدامات کرے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تحصیل انفورسمنٹ اتھارٹی کو قانون پر عملدرآمد کے علاوہ مقدمہ درج کرنے، تحقیقات اور گرفتاری کے اختیارات بھی حاصل ہونگے ، اتھارٹیز کے لیے نئے تعینات ہونے والے افراد پبلک سروس کمیشن یا جوڈیشل کی معرفت نہیں آئیں گے بلکہ نامزد ہوں گے ، پہلے سے موجود اتھارٹیز میں بھی من پسند لوگ تعینات ہیں جس سے اخراجات اور مسائل میں اضافہ تو ہوا ہے مگر عام آدمی کو ریلیف نہیں مل سکا، اسی بناء پر اب ضرورت نئی سوچ اور نئی آئیڈیاز کی ہے۔ وسیب کے مسائل کے حل کے لیے پچھلی حکومت نے سول سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں لایا، دعویٰ کیا گیا کہ سیکرٹریٹ کے افسران کو سول سیکرٹریٹ لاہور کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے ، وسیب کو 35 فیصد فنڈز کا الگ حصہ ملے گا اور وسیب کو 20 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ دیا جائے گا، مگر نہ اختیارات ملے اور نہ فنڈز حاصل ہوئے۔ سیکرٹریٹ کے قیام میں ایک قباحت یہ ہوئی کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، پہلے سائل کو صرف لاہور کے چکر پڑتے تھے اب اُسے تین جگہوں کے چکر لگانا پڑتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز الیکشن کے دوران وسیب سے ہمدردی کا اظہار کرتی رہی ہیں ، اب ان کو خدا نے موقع دیا ہے تو وسیب کے مسائل کے حل کے لیے انقلابی اقدامات کرنے چاہئیں۔ وزیر اعلیٰ نے ابھی تک وسیب کا دورہ نہیں کیا حالانکہ وسیب کے مسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وزیر اعلیٰ کو ایک ہفتہ لاہور اور ایک ہفتہ ملتان بیٹھنا چاہئے۔ سول سیکرٹریٹ کو مضبوط بنانے اور فنڈز اور اختیارات دینے کی ضرورت ہے، ملازمتوں کے الگ کوٹے پر بھی عملدرآمد کی ضرورت ہے، سول سیکرٹریٹ میں ابھی چند محکمے آئے ہیں تمام محکموں کا آنا ضروری ہے، سول سیکرٹریٹ میں انفارمیشن اور کلچر کے محکمے کا آنا ضروری ہے ، نئے آنے والے سیکرٹری انفارمیشن احمد عزیز تارڑ اس بارے قدم اٹھائیں ۔اس کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز سرائیکی زبان اور ثقافت سے محبت کا اظہار کرتی رہتی ہیں ، ضروری ہے کہ سرائیکی زبان و ادب اور سرائیکی ثقافت کے فروغ کے لیے ملتان میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کی طرز پر ’’سلاک ‘‘قائم کریں ، محترمہ کے اس کارنامے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پراونشنل انفورسمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کی بجائے صوبے اور مرکز میں وسیب کے مسائل کے حل کے لیے کمیشن قائم ہونا چاہئے جس طرح پیپلز پارٹی نے صدر زرداری کی ہدایت پر آغاز حقوق بلوچستان شروع کیا تھا اسی طرح کا قدم وسیب کے لیے بھی اٹھایا جانا چاہئے۔ وسیب میں قدم قدم پر مسائل ہیں ، وسیب کے لوگوں کو لاہور کی ترقی پر اعتراض نہیں ، اگر اعتراض ہے تو اس بات پر ہے کہ لاہور میں ہیوی پراجیکٹ چند ہفتوں کی مختصر مدت میں مکمل ہو جاتے ہیں ، شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں فلائی اوورز اور لاہور انڈر پاسز کے منصوبوں پر دن رات کام ہوتا رہا ہے مگر وسیب میں صورتحال یہ ہے کہ دریائے سندھ پر لیہ ،تونسہ پل پر 2017ء میں کام شروع ہوا جو عرصہ تین سال بعد خدا خدا کر کے مکمل ہوا مگر پانچ سالوں سے وہ بیکار کھڑا ہے کہ اس کی اپروچ روڈز کے لیے فنڈز مہیا نہیں کئے گئے، یہ منصوبہ لاکھوں انسانوں کی سہولت کے ساتھ ساتھ حکومت کے لیے بھی آمدنی کا باعث ہے کہ اگر پل چالو ہو جاتا تو پانچ سالوں میں ٹول ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدنی سے اخراجات پورے ہو جاتے مگر حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ اس طرح خان پور کیڈٹ کالج کا منصوبہ 2010ء میں شروع ہوا ، پندرہ سال گزرنے کے باوجود وہاں کلاسیں شروع نہیں ہو سکیں۔ ملتان ، مظفر گڑھ اور میانوالی روڈ جسے ایم ایم ایم روڈ کا نام دیا جاتا ہے سالہا سال سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے حالانکہ اسے موٹر وے ہونا چاہئے تھا، انڈس ہائی وے پاکستان کی وہ عظیم شاہراہ ہے جس کا جی ٹی روڈ کے مقابلے میں پشاور سے کراچی تک 450کلومیٹر سفر کم ہے اور یہ 1965ء کا منظور شدہ منصوبہ ہے ، یہ اس بنا پر نہیں بنائی جاتی کہ اس کا پنجاب سے گزر نہیں ہے ، یہ خیبرپختونخواہ ، سندھ ، علاقو ں سے ہوتی ہوئی دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ کراچی پہنچتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ سڑک بننے سے وقت ، فیول اور گاڑیوں کی ریپئرنگ کی پاکستان کو کتنی بچت ہے، وسیب میں تعلیم ، صحت اور روزگار کے مسائل ہیں ، یہاں خام مال اور افرادی قوت کی فراوانی ہے مگر آج تک ایک بھی ٹیکس فری انڈسٹریل زون نہیں دیا گیا، سی پیک منصوبے میں بھی کوئی صنعتی بستی وسیب کو نہیں ملی۔ وسیب دنیا کا بہترین زرعی ریجن ہے، یہ سر زمین دریائوں کی سرزمین ہے ، اس سرزمین کو سپت سندھو یعنی سات دریائوں کی سرزمین کہا جاتا ہے ، اس کی زرعی پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر کئی ملکوں کی غذائی ضروریات سرائیکی پوری کر سکتا ہے مگر اس کے کسان اور کاشتکار کو سہولتیں دینے سے گریز کیا جاتا رہا۔ فصل ربیع کے تباہ کن نقصانات کے بعد اب خریف کی کاشت کے لیے اس کے پاس نہ بیج ہے نہ کھاد اور نہ ہی پانی ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔