کیسے کیسے لوگ۔ کوئی پھول بن گیا ہے کوئی چاند کوئی تارہ/ جو چراغ بجھ گئے ہیں تری انجمن میں جل کے۔ غیر معمولی جذباتی توازن کی حامل شخصیات کا ایک نمایاں وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے شاد یا رنجیدہ نہیں ہوتے۔ غم کا زہر پی کر امرت کر دیتے ہیں۔ شادمانی کو رگ و ریشے میں جذب کرتے ہیں، شاخِ گل میں جس طرح بادِ سحر گاہی کانم۔ عصرِ رواں کے عارف سے ایک شب عرض کیا:ایک آرزو نے دل میں جنم لیا ہے: کاش کہ سرکارؐ سے متعلق قرآنِ کریم کی آیات یکجا کر کے ان پر غور کیا جائے۔ ان کی روشنی میں پھر سیرت سرور عالمؐ پرلکھا جائے۔ ایک چمک دانائے راز کی آنکھوں میں ابھری اور مرجھا گئی۔ چمک اس لیے کہ خیال آپ کو خوش آیا۔ مایوسی اس لیے کہ ناکردہ کار کے تلون سے وہ واقف تھے۔ افتخار عارف نے کہا تھا: میں نے قرآن کے اوراق میں سیرت کو پڑھا نور کو دائرہ نور کے اندر رکھا اللہ کی آخری کتاب میں، پروردگار کے آخری رسولؐ کا جہاں کہیں ذکر ہے، اجالا کچھ سوا محسوس ہوتا ہے۔ سحر بر وقت آنکھ کھل جائے اور تلاوت سننے کی توفیق ارزاں ہوتی ہے۔ ایسے میں کبھی وہ ساعت طلوع ہوتی ہے کہ قلب و نظر سارا جہان جگمگا اٹھتا ہے۔ ایسی ہی صبح وہ آیت گونجی، ایک جہانِ معنی جس میں پوشیدہ ہے ’’لعمرک‘‘ قسم ہے، اے محمدؐ تیری عمر عزیز کی۔ کیسے کیسے مغالطے انسانی اذہان میں پیدا ہوتے، پروان چڑھتے اور بتدریج راسخ ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں غلط طور پر احساس یہ ہونے لگا تھا کہ رحمتہ اللعالمینؐ کی عظمت کا کچھ نہ کچھ ادراک شاید ہو چکا۔ اس ایک لفظ ’’لعمرک‘‘ پر غور کیا تو رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کیسی وہ ہستی تھی، جس کی عمرِ عزیز کے ایک ایک لمحے کی خود خالق نے قسم کھائی۔ ’’کیا تیرا سینہ ہم نے کھول نہیں دیا۔ اور وہ بوجھ اتار ڈالا جو تجھے کچلے ڈالتا تھا۔ اور تیرا ذکر بلند کر دیا۔‘‘ تیرہ صدیاں بیت چکی تھیں، لاکھوں کروڑوں کے بعد جب ایک تر دماغ اٹھا اور یہ کہا: چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے رفعت شانِ رفعنالک ذکرک دیکھے کتنے‘ بہت سے دنوں سے سرکارؐ کی سیرت پر لکھی جانے والی جناب اعجاز شاہ کی کتاب ’’محمد رسول اللہ‘‘ سامنے رکھی ہے۔ مستقل طور پر ایک کامل اُمّی کے لیے شرمندگی کا سامان۔ دیباچے کی فرمائش کے ساتھ برادرم اسلم خان مسودہ لے کر آئے تو عرض کیا:اس سے بڑھ کر سعادت کی بات کیا ہو گی۔ یاددہانی بھی کراتے رہے! حالانکہ یہ دن آ پہنچا۔ اب میں اسے پڑھتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں۔ کیسا نادر اسلوب سیرت سرکارؐ کی بیشتر تصنیفات سے آغاز کرتی ہیں۔ عرب کون تھے، اس دیار میں کب بسے‘پھر عالی مرتبتؐ کے اجداد کا تہہ در تہہ تذکرہ، حتیٰ کہ داستان اپنے آغاز تک پہنچتی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام۔ آپ کا استدلالی انداز فکر، پتھر کے بتوں سے آپ کی بیزاری، اعلان نبوت، نمرود کے حکم سے بھڑکائی گئی آگ کا وہ طوفان عظیم، پھر اس کے یکایک بجھ جانے کا خیرہ کن لمحہ۔ ذبحِ عظیم اور خانہ کعبہ کی تعمیر‘ خلیل اللہ کی وہ دعا کہ نسل در نسل آپؑ کی اولاد پہ رحمت برستی رہے۔ کتاب میں لکھا ہے: آدمی کو جب ہم نے پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے آپ پہ رحمت کو لازم لکھا۔ ابوالانبیا ابراہیم علیہ السلام کا معاملہ مگر کچھ مختلف ہے۔ سرکار کے سوا تاریخ کی تمام قندیلوں میں نمایاں قندیل۔ فرمایا: ’’وجعلناک للناس اماما‘‘ ابراہیم ؑ تمام انسانوں کا میں تجھے امام بنا دوں گا۔ بکمال و تمام دعا قبول ہوئی، مگر یہ ارشاد بھی: میرا عہد ظالموں تک نہیں پہنچے گا۔ سادات کو فضیلت ہے اور ابدی فضیلت مگر ان کو نہیں جو وعدہ شکنی کے مرتکب ہوں۔ پروردگار کی صفات عالیہ میں سے ایک صفت عدل بھی تو ہے، کوہساروں کی طرح مستقل! چودہ صدیاں بیت گئیں۔ کوئی دن نہیں گزرتا جب ایک اور نعت نہ لکھی جاتی ہو۔ کوئی دن جاتا ہے کہ سیرت پر ایک اور کتاب طلوع ہوتی ہے۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جو عالی جنابؐ کو یاد کرتے اور دوسروں کو یاد دلایا کرتے ہیں۔ امام زین العابدینؓ کے اقوال میں ایسے ہیں، جو آب زرسے لکھنے کے قابل ہیں۔ فرمایا: اس طرح ہم سیرت پڑھا کرتے، جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا گیا: آپؐ کے اخلاق(مزاج) کیسے تھے؟ فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ ع وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسیں وہی طٰہ بے شک بدبخت ہیں وہ لوگ جو حدیث رسولؐ کی اہمیت سے واقف نہیں۔ اس کے باب میں جو شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں۔ بدقسمت ہیں جو نہیں جانتے کہ اسلام کی ایک نہیں، دو مضبوط بنیادیں ہیں۔ قرآن کریم اور جناب والا کی پرنور ہستی۔ آخر اس صادق و امین ہی نے تو بتایا کہ یہ قرآن ہے جو مجھ پر نازل کیا گیا۔ صحرا کے باسیوں میں سے کون جبرئیل امین سے آشنا تھا۔ کون تھا جو جانتا ہو کہ زمینوں اور آسمانوں کا خالق کون ہے۔ کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب! اعجاز شاہ کی کتاب کا ہنر سادگی اور سلاست ہے۔ ہر ایک روایت صحت مندی اور سچائی کے ساتھ لیکن سہل۔ اس قدر سہل کہ ایک معمولی طالب علم بھی ادراک کر سکے۔ رفتہ رفتہ سرکارؐ کی شخصیت کا جمال اس کے باطن میں اترتا اور نور لاتا جائے۔ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ؓکے قبول اسلام کا لمحہ اور ان کا ہمیشہ باقی رہنے والا ایثار۔ جبرئیل امین آپؐ کے پاس آئے اور کہا ’’اللہ کے رسولؐ اپنے رب کی طرف سے اور میری طرف سے سیدہ خدیجہؓ کو سلام پہنچا دیجیے۔ وہ آپ کی طرف کھانے پینے کا کچھ سامان لے کر آ رہی ہیں۔ خوش خبری انہیں دیجیے کہ اللہ کریم نے ان کے لیے جنت میں موتیوں کا ایک محل بنایا ہے جس میں نہ کوئی شور ہو گا نہ کوئی کوفت‘‘۔ رسول اللہ کی چچی فاطمہ بنت اسد بیان کرتی ہیں ’’ہمارے گھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو محمدؐ نے اس کا نام علیؓ رکھا۔ آپ نے علیؓ کے منہ میں اپنی زبان رکھ دی، جسے وہ چوستے رہے‘‘۔ اس چہرے کو ’’کرم اللہ وجہہ‘‘ کہا گیا۔ اس سے صداقت کے سوا کبھی کوئی لفظ نہ پھوٹا۔ عبدالکعبہ نے ایک خواب دیکھا ’’مکہ میں ایک چاند اترا ہے اور اس کی روشنی تمام گھروں میں پھیل گئی ہے‘‘۔ کسی عالم سے خواب کی تعبیر پوچھی تو اس نے کہا ’’وہ نبی جس کی آمد کا انتظار ہے اس کی آمد کا وقت بہت قریب ہے۔ تم اس کی پیروی کرو گے۔ اس پیروی سے تم سارے جہان سے زیادہ خوش بخت ہو جائو گے‘‘۔ یہ سیدنا بوبکر صدیقؓ تھے۔ انبیاء کے بعد، تمام انسانوں سے زیادہ افضل۔ زید بن حارثؓ کی عمر اب تیس برس ہے، پندرہ برس آپؐ کی خدمت میں بیت چکے۔ سیدہ خدیجہؓ اور علیؓ کو ایمان لاتے دیکھا تو وہ پکار اٹھے ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘ غلاموں میں بلال ابن رباح ؓ۔ سعد بن ابی وقاصؓ ایمان لے آئے تو سترہ برس کے تھے، وہ خود کو ’’ثلثہ الاسلام‘‘ کہا کرتے۔ اسلام میں تیسرا۔ کیسے کیسے لوگ۔ کوئی پھول بن گیا ہے کوئی چاند کوئی تارہ/ جو چراغ بجھ گئے ہیں تری انجمن میں جل کے۔ وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے غبار راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا (جناب اعجاز شاہ کی زیر اشاعت کتاب ’’محمد رسولؐ اللہ‘‘ کے دیباچے کے طور پر لکھا گیا۔)