سلاسلِ طریقت میں سے،سلسلہ چشتیہ کو بر صغیر میں ابتداً قبول عام میسر آیا،جس کو اپنی قدامت کے سبب،اوّلیت کو درجہ بھی میسر ہے۔ خطّے میں،اس سلسلے کے سر خیل اور امام حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ ہیں،گو کہ وہ، حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کے خلیفۂ اعظم و اکبر اور جانشین تھے اور انہی کے سلسلے کو آپؒ نے آگے بڑھایا،لیکن آپؒ نے دیگرہم عصر روحانی شخصیات سے بھی اکتسابِ فیض کیا، جن میں پیرانِ پیر حضرت الشیخ عبد القادر الجیلانیؒ بطور خاص قابلِ ذکر ہیں،جو کہ سرِ سلسلہ قادریہ ہیں،اسی تناظر میں سہر وردی سلسلے کے بانی حضرت الشیخ شہا ب الدین سہروردیؒ اور الشیخ اوحد الدین کرمانی ؒ جیسی اکابر ہستیاں بھی قابل ذکر ہیں۔ایسے ہی شیخ ضیا الدین ابو النجیب عبد القاہر سہروردیؒ اور شیخ نجم الدین کبر یٰ ؒجو کہ’’کردیہ اور فردوسیہ ‘‘سلسلے کے بانی تھے،کے ساتھ بھی آپؒ کی موانست و محبت اور اکتسابِ فیض کی روایت موجود ہے،جس سے یہ امر واضح کرنا مقصود ہے کہ ان سلاسلِ طریقت اور ان کے مقتداً و پیشوا ہستیوں کے درمیان باہمی ربط اور محبت و اتصال کی بڑی مضبوط روایت موجود تھی،ایک بزرگ اکثر اوقات دیگر سلاسل سے ہی خلافت و اجازت سے متصف اور مستنیز ہوتا، حضرت خواجہ ٔبزرگ اسی محبت آمیز روایت کے امین و علمبردار تھے،بدقسمتی سے دیگر دینی اور علمی روایات کی طرح تصوّف و طریقت،جس میں محبت آمیزی اور انسان دوستی کا داعیہ اور جذبہ بہت نمایاں ہے،میں تعصبات دَر آنا شروع ہوگئے،اور مستزادیہ کہ ان اکابرینِ اُمت کے شخصیت اور احوال و آثار پر کراماتی کُہر اس قدر دبیز اور گہرا ہوتا گیا کہ ہم اس امر ہی کو فراموش کر بیٹھے کہ یہ اکابرینِ اُمت اپنے آبائی علاقوں اور خاندانوں کو چھوڑ کر،ان اجنبی خطوں اور لوگوں میں کیونکرآن آباد ہوئے اور آج صدیاں گزرجانے کے باوجود،ہم ان کیلئے سپاس و تشکر کے جذبات کیونکر فراواں کیئے ہوئے ہیں۔حضرت خواجہ ٔبزرگ کے 810 ویں سالانہ عرس موقع پر انعقاد پذیر’’خواجہ اجمیر ؒ عالمی تصوّف کانفرنس‘‘ میں اجمیریات کے ماہرین اور بین الاقوامی سکالر ز نے ان امور پر، بڑی صراحت اور بلاغت کے ساتھ روشنی ڈالی اور اس علمی اور فکری روایت کو آگے بڑھانے پر زور دیا۔اس موقع پر ورکنگ گروپ کے’’اعلامیہ‘‘کے اہم خدوخال بھی ملاحظہ ہو ۔ ٭تصوّف کا دائر ہ فکر وعمل انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے،اس کا روحانی اور تربیتی پھیلائو گھر اور خاندان سے لیکر،اقتدار اور ریاست کے ایوان تک ہونا چاہیے۔ موجودہ عصر ی تناظر میں،محض تصوّف کی اثر پذیری اور اخوت و محبت کی دل افروزی ہی سے موجودہ فرقہ پرستی،انتہا پسندی ، تشدّد و دہشت اور تعصب وعناد جیسے منفی رجحانات کا تدارک ممکن اور سوسائٹی میںاخوت ومحبت جیسے جذبات کو فراوا ں کیا جاسکتا ہے ۔ ٭اسلامی تاریخ---- تصوّف وطریقت کی عظمت ورفعت سے آراستہ ہے،ماضی کے اُن حسین مناظر اور وجد آفریںمظاہر کو از سر نو تازہ کرنے کا التزام اور خانقاہی نظام کی عظمتِ رفتہ کو بحال کرنے کا اہتمام کیاجائے۔خانقاہوں کے ساتھ درسگاہوں،کتب خانوں و لائبریریوں،مہمان خانوں،سرائوں اورمجالس خانوں کی تعمیر کا اہتمام ہو،اسلامی سوسائٹی کا یہی وہ سب سے مضبوط اور موثر ادارہ ہے،جو در ماندہ وپسماندہ اور آزردہ انسانوں کے دکھوں اور دردوں کا مداوا ہے، جس کے لیے باکردار اور اصحابِ علم وعمل،شیخِ طریقت اورصاحبِ خانقاہ کا وجودِ سعید کلیدی اور اساسی حیثیت کا حامل ہے۔خانقاہ کا معنوی قیام محض اس کی پُر شکوہ عمارت سے ممکن نہیں،خانقاہ کا عملی نفوذ اور اس کی نتیجہ خیزی اور اثر آفرینی----شیخِ کامل کے وجودِ سعید کی برکت سے ہی ممکن ہوگی۔موجودہ عہد میں شیخِ طریقت کے کردار کومحض چند رسومات تک محدود کرنے کی بجائے،اسکی فیض رسائی کو علمی،دینی اور روحانی سطح پر مستند اور معتبر کرنے کے ساتھ----اخلاقی،سماجی اور نفسیاتی حوالوں سے بھی مضبوط اور مستحکم کر نا ضروری ہے تاکہ درماندہ انسانی قافلے اور کارواں حقیقی خوشی اور سکونِ قلب سے ہمکنار ہوسکیں ۔ ٭موجودہ دور میں طریقت وتصوّف اور خانقاہیت کو محض جاہ پسندی،جاگیرداری اور کسبِ معاش جیسے مقاصد کیلیے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے اورمتقدمین صوفیاء سے منسلک معتبر اور مستند سلاسلِ طریقت کی مقتدر ہستیوں کو،اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے،اس شعبے میں اصلاحات اور ریفارمز کو یقینی بنانا چاہیے۔ اجازت وخلافت کی عطائیگی کے لیے ان معیارات ہی کو مُسلّمہ رکھاجانا چاہیے،جسکا اہتمام ماضی میں تصوّف وطریقت کے ائمہ اور پیشوا فرماتے رہے۔مزید براں سجادگی اور مسند نشینی اور باطنی وروحانی خلافت کے نازک سے فرق کو بھی محسوس کیا جانا چاہیے۔ درگاہ اور خانقاہ کی ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ----متولی (Custodian) اورسجادہ نشین کے پاس ہونا،ایک فطری امر ہے،صاحبِ خانقاہ کا جانشین ہونے کے سبب اس انتظام وانصرام کاوہ ذمہ دار ہے،اس کے ساتھ،اگر وہ روحانی اورباطنی اسلوب وذوق کا بھی حامل اُس نعمتِ سرمدی سے آراستہ ہو،تو پھر سونے پہ سہاگہ ہے۔از خود حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ نے اپنے باطنی فیوضاتِ اپنے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ؒ کو عطا فرما کر،سلسلے کا امیر،امین اور اپنا جانشین بنایا۔حالانکہ آپکے اپنے صاحبزادگان بھی موجود تھے۔اسی طرح حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کے پانچ صاحبزادے تھے،مگر آپ ؒ نے ان روحانی امانتوں کی تحفیظ اور ترویج کی ذمہ داری حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سپر د فرمائی ۔ ٭صوفیاء اور بزرگانِ دین کے سالانہ اعراس وایام اوربالخصوص ان کے یومِ وصال کی تقریبات در اصل انکے طرزِ زیست اور اسلوبِ حیات کو تازہ کرنے اور اس سے اپنی شکستہ اوربے کیف زندگیوں کیلیے روشنی اور نور کشید کرنے کا اہتمام ہے۔ایسے روحانی اجتماعات کو مقصدیت سے آراستہ کرنا از حد ضروری ہے۔ایسے موقعوں پر سرکس،ناچ گانا،غیر شرعی حرکات اور غیر اسلامی رسومات سے مکمل اجتناب کرکے ان اہم اور عظیم مراکز کو قرآن وسنت کے سانچے میں ڈھالنے کی ازحد ضرورت،اور اس موقع پر علمی کانفرنسزاور سیمینارز لازم ہیں۔ ٭بلادِ اسلامیہ میں مروّج جملہ سلاسلِ طریقت،بالخصوص برصغیر میں رائج چشتی،نقشبندی،قادری اور سہروردی روحانی سلسلے خاص قواعد وضوابط اورا ُصول ورسوم پر استوار ہوئے ،اس سلاسل کے موئسسین نے ان کی ترتیب وتدوین اور اوراد ومعمولات میں قرآن وسنت کوہی جادئہ حق سمجھا اور پھر اہل بیعت اطہارؓ،صحابہ کرامؓ اور تابعین اور تبع تابعین کے احوال وآثار سے روشنی حاصل کرکے اپنے سلاسل کے مربوط نظام اور خانقاہی اُمور مرتب کیے۔ان خانقاہوں میں شعبدہ بازی ،غیر شرعی حرکات،خلافِ سُنت اُمور کی سرے سے کوئی گنجائش نہیں۔چنانچہ آج اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام سلاسل کے مقتدر یکجا ہو کر ایسے ناپسندیدہ اُمور سے لا تعلقی کااظہار کرکے،ان نا پسندیدہ رسوم کے تدارک اور بیخ کنی کا اہتمام کریں اور اپنے سلاسل طریقت اور اپنی خانقاہوں کو ان اصلی خطوط پر از سر نو استوار کریں،جس کے لیے ان بزرگوں نے شبانہ روز مساعی فرمائی اور اس خطے کو قرآن وسنت کے نور سے منور وآراستہ کیا ۔ ٭خانقاہوںاور درباروں پر اُمہات کتبِ تصوّف کی تدریس کے حلقے قائم ہونے چاہیں،جن میں کشف المحجوب،عوارف المعارف ،فصوص الحکم---- وغیرہ بطور خاص شامل ہیں۔مزید یہ کہ اکابر صوفیا،جو از حد معتبر علمی حیثیت کے بھی حامل تھے،کے ملفوظات ان کے خلفاء نے مرتب کیئے،جو یقینا درجۂ استناد کے حامل ہوں گے،ان کی تدوین وتبلیغ کا اہتمام ہونا چاہیے، اور ایسے تذکرے جن کا مقصد محض کشف وکرامات کے اظہار ہو،سے گریز کرتے ہوئے،صوفیا اور صاحبانِ مزار وخانقاہ کے احوال وآثار،تحقیق وتدوین کے مراحل سے گزار کر احتیاط والتزام کے ساتھ اشاعت پذیر کرنے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔