تبصرہ نگاری کے اپنے اصول وضوابط، قاعدے اور تقاضے ہوتے ہیں۔تبصرہ نگاری کے ذریعے کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ دیباچے اور تبصرے میں فرق یہ ہے کہ دیباچہ کتاب میں شامل ہوتا ہے جس میں کتاب کے موضوع اور مصنف کے بارے میں تشریح وتوضیح تو ہوتی ہے، لیکن اس میں عموماًکتاب کے کمزور پہلوئوں سے اغماض برتا جاتا ہے،جب کہ تبصرہ کتاب کی اشاعت کے بعد تحریر کیا جاتا ہے، تاکہ عام قاری کو کتاب کی تفصیل اوراسکی خوبیاں اورخامیاںمعلوم ہوسکیں۔ تبصرہ کی بنیادی شرط کتاب کا راست اور ذاتی مطالعہ ہوتاہے۔ اگر کتاب نہیں پڑھی جائے گی تو کتاب پرلکھے جانے والے تبصرے میں غیر درست معلومات بیان ہوسکتی ہیں۔ اس سے مبصر کا وقار مجروح ہوتا ہے۔تبصرہ لکھتے ہوئے وہ ایک ذمہ دار شخص ہوتا ہے۔ اس لئے تبصرہ لکھنے والے کو نہایت باریک بینی کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کرنا پڑتاہے۔ مبصر دوران ِمطالعہ ذہن میں ابھرنے والے ضروری نکات کتاب کے حاشیے پر بطور یادداشت قلم بند کرلیتا ہے تاکہ تبصرہ لکھتے وقت کوئی ضروری نکتہ چھوٹ نہ جائے۔ واضح رہے کہ مصنف کے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر کتاب پر جامع تبصرہ نہیں ہو سکتا، اس کے پس منظر کا جائزہ مبصر کے لیے رائے قائم کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔ مصنف کی تعلیمی لیاقت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔کتاب کا مطالعہ، اس کی تفہیم اور مصنف کے پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد تبصرے کا خاکہ تیار کیا جاتا ہے۔ خاکے میں کتاب کے بارے میں بنیادی معلومات دی جاتی ہیں۔ جن میں کتاب کا نام، مصنف، ایڈیشن، سن اشاعت، صفحات، قیمت، ملنے کا پتہ اور ناشر وغیرہ جیسی معلومات شامل ہیں۔تبصرے کے کم از کم تین اجزا ہوتے ہیں جنہیں تمہید، ارتقا اور خاتمہ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ آج کے کالم میں خاکسارکشمیر پرلکھی گئی ایک تازہ کتاب’’کشمیرتاریخ، تحریک اور امکانی حل کاجائزہ‘‘ پر تبصرہ لکھ رہاہے۔ یہ کتاب کشمیرکے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اس حوالے سے بہت زیادہ ہے کہ یہ کسی کشمیری باشندے نے نہیں لکھی بلکہ کراچی سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک عزیزفاروق اعظم جو یونیورسٹی آف کراچی یا جامعہ کراچی کے اسکالرہیں اس کتاب کے مصنف ہیں۔ جواں سال مصنف نے اس کتاب کو بڑے سادہ فہم میں تحریر کیا ہے،کئی ابواب پرمشتمل اس کتاب کا ہر باب اپنے اندر دردکی ایک کہانی رکھتا ہے۔ اس کتاب کے مباحث کا مرکزی خیال مسئلہ کشمیراوراس کاامکانی حل کیا ہے۔ مصنف نے مسئلہ کشمیرکی تلخ حقیقتوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بہت سہل انداز اپنایا ہے اورآخر پر اپنے مبلغ علم کی روشنی میں حقیقت پر مبنی حل بھی پیش کیا ہے۔ کتاب کے موضوع کے انتخاب میں مصنف کی کشمیر کے موضوع پرایم فل تھیسس کاخاص پس منظر کار فرما رہاہے اورمصنف کے پیش نظراس کتاب کے لکھنے کے مقاصدمیں سے ایک یہ کہ ان کا تھیسس مکمل ہواہے۔ دوسرایہ کہ ایک اہم اورخاص مسئلے کو اجاگرکرنے کی سعی کی گئی ہے ۔ جہاں تک میں نے اس کتاب کو لفظاً و حرفاً پڑھا توکتاب کے جائزے کے دوران مجھے مصنف کی فکر سطحی نظرآئی ۔یہ کتاب کلی یا جزوی طور پر کسی اور کتاب کا سرقہ یا اس کا چربہ نہیں کیوں کہ مصنف نے ہر جگہ کشمیر پر لکھی گئی کتابوںکے حوالہ جات دیئے ہیں اوران کتابوں کے مصنفین کے نام بھی درج کئے ہیں۔ بالفاظ دیگر جواں سال مصنف نے یہ کتاب لکھنے میں بنیادی اور ثانوی ذرائع سے استفادہ کیا ہے ۔مصنف لکھتے ہیں کہ انہوں نے آزادکشمیر کے لگ بھگ تمام اضلاع میں جاکر الحاق پاکستان کے حامیوں کے ساتھ ساتھ نیشنلسٹوں سے بھی ملاقاتیں کیں اوران کانقطہ نظر سن لیااوراس سے جانکاری حاصل کی جبکہ راولپنڈی اوراسلام آباد میں موجود اس خاکسارکے بشمول ان کشمیری مصنفین سے بھی ملے جن کاتحریک آزادی کشمیر کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ۔ مصنف نے اپنی کتاب میں کشمیرکی تمام جہادی تنظیمات اوران کے قائدین کاتعارف دیا ہے اوران کے قیام کے پس منظر کوبھی اجاگر کیا ہے ۔ مصنف نے کشمیرکے دونوں تقسیم شدہ حصوںکی سیاست، سیاسی تنظیموں اورمسئلہ کشمیر پر کشمیر کی سیاسی تنظیموں کے عملی کردار پر1947ء سے آج تک پورے شرح وبسط سے خاکہ کھینچا اوراس حوالے سے کوئی فروگذاشت نہ کیا۔البتہ مصنف نے آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے یہ نہیں لکھاکہ انہوں نے نوے کے عشرے میں تحریک آزادی کشمیرکے مسلح فیز کوکامیاب بنانے میں کس قدر اپنا فریضہ نبھایا اور پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر ایک گومگوں پالیسی پر بھی مصنف رقمطراز نہیں ہوئے۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ کہیں بھی مصنف نے کسی تعصب سے کام نہیں لیا۔راقم نے بطورمبصر اس کتاب کی خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ اعتدال ،غیر جانب داری، سنجیدگی اورخیر خواہی کے جذبے کے ساتھ کیا ہے۔ کتاب کے معنوی تجزیے کے سا تھ ساتھ اس کی ظاہری حالت کا جائزہ ِمثلًا اس کا کاغذ ، حسنِ ترتیب اور سرورق کی جاذبیت وغیرہ کا تذکرہ کیا جائے تو یہ کتاب اس اعتبار سے بھی بہت اعلیٰ ہے ۔کتاب 319صفحات پر مشتمل ہے ۔ کتاب کے اوراق شاندار کاغذ سے مزین ہیں ۔کتاب کاٹائیٹل یعنی سرورق نہایت دیدہ زیب ہے اوراس کتاب کی قیمت مبلغ 800 روپے رکھی گئی ہے۔یہ کتاب فضلی پرنٹنگ پریس کراچی نے شائع کی ہے جبکہ یہ کتاب ملک کے تمام بڑے شہروں میں دستیاب ہے ۔