پاکستان میں انتخابات کاشور زندگی کے ساز کی طرح بج رہا ہے اور بے آواز ہے۔ شاید یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ مزا نہیں آرہا۔ حالانکہ جنہیںمزا آنا تھا انہیں آرہا ہے۔ صورتحال کچھ ایسی بن گئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سیاست دانوں کی میگا کرپشن کا احتساب ہونے جارہا ہے۔ ملک کے حاضر وزیر اعظم پہلے نااہل ہوئے پھر اپنے اہل خانہ کے ساتھ سزا یافتہ بھی ہوگئے۔ اب وہ اپنی صاحبزادی کے ساتھ جیل میں ہیں اور ان کے دو بیٹے لندن میں حکومت پاکستان کے اشتہاری مجرم ہیں۔ جن ایون فیلڈ فلیٹوں کا یہ جھگڑا تھا انہیں بحق سرکار پاکستان ضبط کرنے کی قانونی کارروائی جاری ہے۔ کچھ معاملات ہیں جن پہ دھول اڑائی جارہی ہے اور تواتر سے اڑائی جارہی ہے۔ نواز شریف نا اہل ہوتے ہی مجھے کیوں نکالا کا راگ الاپتے جب سڑکوں پہ آئے تو انہیں خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔ان کا خیال تھا کہ عوام کا ایک جم غفیر ان کی نااہلی کے خلاف ملک کے طول و عرض کی بلندیوں سے امڈا چلا آئے گا اور جمہور کی طاقت ان کی نااہلی کے فیصلے کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ لوگ نکلے ضرور یہ کیونکر کہا جائے کہ نون لیگ کا کوئی ووٹ بینک ہی نہیں۔ہاں وہ اس طرح نکلے جیسے حسرت نکلتی ہے اور حسرت کی طبیعت کی طرح نواز شریف کو طرفہ تماشہ بنا دیا۔ مشق سخن کے قابل تو حضرت کبھی نہ تھے کہ پرچی کے بغیر وہ اپنی اہلیہ کی طبیعت کا حال بھی نہیں بتا سکتے، چکی کی مشقت البتہ انہیں جھیلنی پڑی ہے۔ نااہلی کے اس زمانے میں کچھ بزرجمہروں نے انہیں ایک نعرہ پکڑا دیا۔ وہ نعرہ تھا ووٹ کو عزت دو ۔ جس کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ سیاست میں فوج کی مداخلت بند کی جائے۔ پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا میں فوج کی سیاست میں مداخلت کوئی نئی بات نہیںہے۔دفاعی معاملات بالخصوص ساری دنیا میں فوج کے ہاتھ میں ہی ہوتے ہیں۔ امریکہ میں پینٹا گو ن عراق اور افغانستان پہ حملے کا فیصلہ کرلے تو کانگریس کو اسے منظور کرنا پڑتا ہے۔پینٹاگون کا آج تک آڈٹ نہیں ہوا نہ کبھی ہوگا۔معروف سیاسی اور سماجی محقق سموئیل ہنٹنگٹن جو اپنی تصنیف بلکہ نظریہ تہذیبوں کا تصادم کے حوالے سے معروف ہیں ، اپنی ایک اہم کتاب the soldier and the state میں سول ملٹری تعلقات پہ تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ فوج کی ملکی معاملات میں مداخلت کی وجوہات تیسری دنیا کے ممالک میں بالکل مختلف ہیں۔ ان وجوہات میں سر فہرست کمزور سول ادارے جیسے پولیس ، عدلیہ اور انتظامیہ ، عدم برداشت کا کلچر اور سب سے بڑھ کر کمزور معیشت شامل ہے۔سموئیل ہنگٹنٹن کے مطابق چاہے ملٹری کم عرصے کے لئے اقتدار میں آئے لیکن وہ کبھی اقتدار سول اداروں کو پہلے کی طرح سونپ کر نہیں جاتی۔وہ جن مقاصد کے لئے برسراقتدار آتی ہے وہ پورا کرکے چلی جاتی ہے۔ اس کے پاس عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی جامع پروگرام نہیں ہوتا ۔نہ ہی اس میں سول اداروں اور دیگر معاملات کو چلانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ سیاستدان بھی فوجی حکومت سے اپنے مفادات کے لئے ہاتھ ملا لیتے ہیں یا آنے والی حکومت میں جگہ بنانے کے لئے لابنگ کرتے ہیں۔ براہ راست برسراقتدار آنے کے علاوہ فوج سیاست میں کچھ اور طریقے سے مداخلت کرتی ہے ۔ جب اسے محسوس ہوتا ہے کہ سول حکومت معاملات کو درست طریقے سے نہیں چلا رہی تو وہ اپنے روایتی پروفیشنلزم کے ذریعے اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وہ غیر اعلانیہ مداخلت ہے جسے نواز شریف نے خلائی مخلوق کی مداخلت کہا ہے۔ وہ اپنے ان دعووں میں کتنے سچے تھے اس کا بھانڈا تو ڈان کے حمید ہارون نے پھوڑ دیا جب وہ بی بی سی کے اسٹیفن ساکر کے ایک سوال کا سیدھا جواب نہ دے سکے۔ سولی پہ چڑھنے کا مشورہ دینے والوں نے شاید رام بھلی کرے گا کی یقین دہانی نہیں کروائی تھی ورنہ وہ آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ فوج جب مداخلت کرتی ہے تو ثبوتوں کے ساتھ تھوڑا ہی کرتی ہے۔بات ساری یہ ہے کہ نواز شریف کی کرپشن کی جڑیں سرحد پار ملتی ہیں۔انہیں کئی بار سمجھایا گیا ہے کہ کچھ سرخ لائینیں عبور نہیں کی جاتیں لیکن انہوں نے ہوس اقتدار و سرمایہ میں کبھی کان نہیں دھرے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ نواز شریف سیاسی مخاصمت پہ نااہل ہوئے۔ انہوں نے کوئی چوری چکاری نہیں کی۔ غیر ملکی اخبارات کی ان کے لئے قزاق کی اصطلاح بھی الزام ہے۔ ایون فیلڈ کے فلیٹس بھی دادا کے خون پسینے کی کمائی ہیں جو پوتے کو ازراہ محبت وصیت کردیے گئے تھے ۔باقی اولادوں کی اولاد کو کیا دیا گیا تھا یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ عزیزیہ اسٹیل مل اور فلیگ شپ بھی حاسدوں کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں تبھی تو دیکھیں نا جسٹس بشیر کا ان کی سماعت کرنے کو دل نہیں مان رہا۔ ان کے علاوہ ایک درجن سے زائد آف شور کمپنیاں بھی فرضی ہیں اور ان سے موصوف کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ہل میٹل کا بھارت کی میٹل انڈسٹری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جندال اور سیٹھی کون ہیں یہ وہ نہیں جانتے۔ خلائی مخلوق ان کے کار ہائے ریاست میں بلاوجہ دخیل تھی۔ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے ان پہ بیانیہ کسی اور کا مسلط تھا۔ ان کے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے تھے باالفاظ دیگر وہ مسلح تھے اور یہ مجبور۔ یہ سب کچھ مان لینے کے باوجود کس عبقری نے انہیں یہ پٹی پڑھا دی تھی کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ اس قوم میں مقبول ہوسکتا ہے۔ایک عام ووٹر کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے اور فوج کی ملکی سیاست میں در اندازی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ ہر مشکل وقت میں فوج ہی اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ایوب خان کے مارشل لا سے لے کر پرویز مشرف کی ایمرجنسی تک فوج کے متعلق ایک عام ذہن کے مثبت خیالات بدل نہیں سکی۔ اس غیر عملی بیانیہ سے سوشل میڈیا پہ کہرام تو برپا ہوسکتا ہے لیکن ایک عام ووٹر کو متاثر نہیں کیا جاسکتا۔یہ ہمیشہ بھول جاتے ہیں کہ پاک فوج کے ساتھ اس قوم کا ایک خصوصی ذہنی تعلق ہے جسے اگر کسی چیز نے نقصان پہنچایا تو وہ مشرف کی پرو امریکہ پراکسی جنگ تھی۔ اس قوم کے سامنے ایک مستقل دشمن موجود ہے جس کے ساتھ کسی خاندان کے تجارتی مفادات تو ہوسکتے ہیں لیکن اس کی قیمت یہ قوم کیوں چکائے۔یہ وہ بنیادی غلطی تھی جسے نواز شریف نے آخری ہتھکنڈے کے طور پہ استعمال کیا اور ہمیشہ کی طرح منہ کی کھائی۔ اس بات کو ان کے چھوٹے بھائی نے سمجھ لیا اور جس دن وہ گرفتاری پیش کرنے ملک میں سارے میڈیا کو یرغمال بنا کر وارد ہوئے ، برادر خورد نے برادران یوسف کا سا کام کیا، ریگل چوک پہ ریلی دائیں بائیں گھماتے رہے اور خود کو یوسف ثانی سمجھنے والے کو داخل زندان ہونا پڑا جہاں وہ اپنے ہی خوابوں کی الٹی تعبیر دیکھ رہے ہیں۔ نون لیگی قیادت پہلے ہی فیصلہ کرچکی تھی کہ ایک خاندان کی کرپشن کے لئے وہ کس حد تک جاسکتے ہیں۔ بی فاختائیں دکھ جھیلنے کے لئے رہ گئی ہیں۔امیدوار ووٹروں سے انڈے ٹماٹر کھاتے رہیں اورکھربوں کی کرپشن کرنے والا خاندان ہر بار ڈیل کرکے نکل جائے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو چھوٹے بھائی کے پرو اسٹیبلشمنٹ ڈرامے بھی زیادہ دن چلنے والے نہیں کہ فواد حسن فواد کے زیر عتاب آتے ہی ایون فیلڈ کا فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔ عاقل را اشارہ کافی است۔سچ تو یہ ہے کہ یہ بیانیہ صرف اپنی کرپشن پہ پردہ ڈالنے کے لئے گھڑا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ملکی معیشت اپنے بد ترین دور سے گزر رہی ہے او ریہ ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو صرف چند خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائی گئیں۔تجارتی خسارے کو عوام پہ مزید ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا کر پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یا مزید قرضے لیے جارہے ہیں۔جنہیں نواز شریف نے برامدات بڑھانے کے لئے بھاری مشاہروں پہ دنیا بھر میں تعینات کیا تھا انہوں نے صرف اپنی تجوریاں بھری ہیں۔عالمی منڈی میں روپے اور ڈالر کے درمیان حقیقی قدر توازن بنانے کے لئے روپے کی قدر گھٹائی گئی۔ ڈالر بڑھتا گیا اور قوم بیٹھے بٹھائے اربوں ڈالر کی مقروض ہوگئی۔ اس دردناک صورتحال کا ذمہ دار شخص ایک مفرور مجرم ہے جو نوازشریف کا سمدھی ہے۔ منی لانڈرنگ عالمی بساط پہ ناقابل معافی جرم بن چکی ہے اسی لئے نواز شریف کا دفاع کرنے کے لئے کوئی دوست ملک تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر اس بار عمران خان ان کے راستے میں کھڑے ہیں جنہوں نے اب توپوں کا رخ زرداری اینڈ کمپنی کی طرف کرلیا ہے۔ اس طرح ان کی اخلاقی پوزیشن ان کے حریفوں سے بہت بہتر ہے۔ اسی خوف نے ایک نئے میثاق جمہوریت کا ڈول ڈالا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے بائیکاٹ ہوگا یااس کے بعد دھاندلی کا شور۔ کسی میں ایک سو چھبیس دن کا دھرنا دینے کی ہمت ہے تویہ شوق بھی پورا کرلے۔